ماسکو نے جوابی پابندیوں کے طور پر یورپی یونین کے 15 میڈیا آؤٹ لیٹس پر پابندی لگا دی۔
روس نے غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں یورپی یونین کے 15 میڈیا آؤٹ لیٹس پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ ماسکو نے کئی روسی میڈیا اداروں کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کے جواب میں روس میں کام کرنے والے 15 یورپی میڈیا آؤٹ لیٹس پر باہمی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ اس سال فروری میں نام نہاد 16 ویں پابندیوں کے پیکیج کے حصے کے طور پر یورپی یونین کونسل کی طرف سے منظور کردہ آٹھ روسی اشاعتوں اور معلوماتی چینلز پر یورپی یونین کی تازہ ترین پابندیوں کے جواب میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
روسی فریق نے غلط معلومات پھیلانے میں ملوث یورپی یونین کے 15 رکن ریاستی میڈیا اداروں کے ویب وسائل پر اپنی سرزمین کے اندر جوابی پابندیاں عائد کی ہیں۔
وزارت نے مزید کہا کہ اگر روسی میڈیا آؤٹ لیٹس اور انفارمیشن چینلز پر عائد یہ پابندیاں ہٹا دی جاتی ہیں تو روسی فریق بھی یورپی میڈیا آؤٹ لیٹس کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گا۔
برطانیہ میں سگے باپ اور سوتیلی ماں کے ہاتھوں قتل ہونے والی 10 سالہ سارہ نے برطانوی پارلیمنٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سارہ قتل کیس نے برطانوی پارلیمنٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب وہاں سارہ لاز کے نام سے ایک ایسے بل پر بحث کی جا رہی ہے، جو مستقبل میں بچوں کے تحفظ کے لیے قانون بننے جا رہا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستانی نژاد لارڈ محمد اشرف نے ’’سارہ لاز‘‘ کے نام سے ایک بل پیش کیا ہے، جس پر پارلیمنٹ میں بحث جاری ہے۔
اگر برطانوی پارلیمنٹ یہ بل منظور کر لیتی ہے تو پھر یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا جو برطانیہ میں سارہ جیسے گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی کا شکار بچوں کی حفاظت کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
لارڈ محمد اشرف نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر سارہ لاز کے نام سے ایک بل پیش کیا گیا ہے پاس ہونے کے لیے جس کا مقصد بچوں کی حفاظت ہے۔ یہ سارہ لاز کیا ہے اور یہ سارہ کون ہے جس کے نام پر یہ قانون بنایا جا رہا ہے۔
سارہ کا تعارف:
پاکستان سے علاقے جہلم سے تعلق رکھنے والے عرفان شریف کی شادی ایک یورپین خاتون سے ہوئی، جس سے ان کی بیٹی سارہ پیدا ہوئی۔ بعد ازاں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی ہوگئی، جس کے بعد عرفان شریف نے بینش بتول نامی پاکستانی خاتون سے شادی کی تھی۔ سارہ کے قتل کے وقت اس معصوم کی عمر صرف 10 سال تھی۔
سارہ قتل کیس کیا ہے اور اس میں کب کیا ہوا؟
سارہ کی کہانی بڑی دردناک ہے۔ 2 سال قبل اگست 2023 میں 10 سالہ معصوم بچی سارہ کے قتل کا کیس سامنے آیا، جس نے برطانیہ سمیت پوری دنیا کو ہلا دیا۔ اس قتل کا سب سے دردناک پہلو یہ تھا کہ بچی کو اس کے والد عرفان شریف اور سوتیلی والدہ بینش بتول نے قتل کیا تھا اور قتل سے قبل بچی کو دو سال تک غیر انسانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔
قتل کے بعد یہ خاندان قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے پانچ بچوں سمیت فرار ہوکر پاکستان آ گیا۔ تاہم ملزمان کو انٹرپول کے ذریعہ پاکستان واپس لایا گیا اور اس میں پنجاب پولیس نے اہم کردار ادا کیا۔ لندن ایئرپورٹ پہنچنے پر دونوں ملزمان (سارہ کے والد اور سوتیلی والدہ) کو گرفتار کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی پولیس نے مقتول بچی کے چچا فیصل ملک کو بھی قتل کے جرم میں معاونت کرنے پر گرفتار کر لیا۔
سارہ قتل کیس کا یہ مقدمہ لندن کی کرمنل کورٹ میں چلا اور پراسیکیوشن نے جب عدالت میں شواہد پیش کیے تو عدالت میں ہر شخص بچی پر ہونے والے مظالم کا سن کر لرز گیا۔ پراسیکیوشن کے مطابق 10 سالہ بچی کو قتل سے قبل دو سال تک مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے جسم پر کاٹنے، استری سے جلانے سمیت دیگر بھیانک تشدد کے نشانات پائے گئے۔
عدالت نے سارہ قتل کیس میں اس کے والدین کو مجرم قرار دیتے ہوئے مرکزی مجرم والد عرفان شریف کو 40 سال قید کی سزا سنائی۔ سزا پوری ہونے پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ وہ باہر آ سکتا ہے یا نہیں۔ اسکے ساتھ ہی عدالت نے بچی کی سوتیلی ماں بینش بتول کو 33 اور مقتول بچی کے چچا فیصل ملک کو 16 سال قید کی سزا سنائی۔
سارہ اب واپس تو نہیں آ سکتی۔ لیکن اس کے نام سے بچوں کے تحفظ کے لیے بننے والے اس قانون کو اگر برطانوی پارلیمنٹ منظور کر لیتی ہے تو پھر اس قانون کے تحت کسی اور سارہ کو اس طرح کے انجام کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
برطانیہ میں مقیم کمیونٹی بھی اس بل کو سپورٹ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس طرح سے سخت قوانین بننے چاہئیں۔ اس سے جہاں بچوں کی حفاظت ہو سکے گی، اس کے ساتھ ہی کمیونٹی میں بھی شعور پیدا ہوگا۔
مہوش حیات نے کہا کہ شادی کے فیصلے میں کوئی جلد بازی نہیں کروں گی اور ابھی شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اداکارہ نے ہدایتکاری کے میدان میں قدم رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ڈرامہ سیٹ پر ہدایتکاروں کی باریکیاں غور سے دیکھتی ہیں تاکہ مستقبل میں بطور ہدایتکارہ خود کو تیار کر سکیں۔
انہوں نے پاکستانی شوبز انڈسٹری میں موجود دوہرے معیار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مرد فنکاروں کو عمر بڑھنے کے باوجود نوجوان اداکاراؤں کے ساتھ کام کرنے کی آزادی ہے، جبکہ خواتین کو ان کی عمر پر جانچا جاتا ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ خاتون کی صلاحیت اور محنت کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ مغربی انڈسٹریز میں عمر کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ بالی ووڈ میں فٹنس کو سراہا جاتا ہے۔
لوگوں نے جہاز کو آسمان پر اڑتے دیکھا ہوگا یا ایئرپورٹ پر کھڑے ہوئے مگر لاہور شہر کے بیچوں بیچ پی آئی اے کا جہاز حیران کن منظر پیش کرتا ہے۔
لاہور کے مرکزی علاقے میں صرف پی آئی اے کا طیارہ ہی کھڑا نہیں بلکہ بہت سارے لوگ جن میں بچے اور بڑے سب شامل ہیں۔ جوش وخروش سے سیڑھیاں چڑھتے جہاز کے اندر جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے لاہور کے ایک پرانے شہری نے جہاز کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کا یہ طیارہ 70 سال پرانا ہے اور تقریباً 40 سال سے تو لاہور میں اسی مقام پر کھڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 1987 میں یہ جہاز کراچی سے لاہور لایا گیا تھا۔ دو سال تک ایئرپورٹ پر کھڑا رہنے کے بعد اس کو یہاں منتقل کر دیا گیا۔
ایک نوجوان جس شہر کے بیچوں بیچ جہاز دیکھ کر حیران رہ گیا وہ تجسس میں یہاں آیا اور اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے پہلے یہی سنا تھا کہ لاہور میں ایک ہی علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے، لیکن جب یہاں سے گزرے تو پتہ چلا کہ یہاں بھی ایک ایئرپورٹ ہے تو دیکھنے کے لیے آ گئے۔
ایک اور شہری جو اپنے بچوں کے ساتھ یہاں تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ اپنے والد کے ساتھ یہاں آتے تھے اور اب وہ اپنے بچوں کو یہاں ساتھ لاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں کھڑا پی آئی اے کا یہ جہاز ان افراد کے لیے جنہوں نے کبھی جہاز میں سفر نہیں کیا یا سوار نہیں ہوئے۔ تجربہ حاصل کرنے کے لیے اچھی چیز ہے۔
بچے جہاز میں آکر خوش ہیں لیکن سب سے زیادہ خوشی ان بچوں کو ہو رہی ہے۔ جنہیں کھڑی کے ساتھ والی سیٹ ملی ہے، لیکن جہاز کی اس کھڑی سے ان بچوں کو بادلوں کے بجائے لاہور کی سڑکیں ہی نظر آتی ہیں۔
جہاز میں آنے والے تمام بڑے ہوں یا بچے جہاز کی سیٹوں پر بیٹھ کر خود کو مسافر تصور کرتے ہیں۔ خوب انجوائے کرتے ہیں اور جہاز میں سفر کا تصور کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اداکارہ اسما عباس کا کہنا ہے کہ اینٹی ایجنگ ایکشن نہ لگوائیں بڑھاپے کو قبول کریں۔
شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ اسما عباس نے یوٹیوب چینل پر بھارتی اداکارہ شیفالی جریوالا کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیفالی کی 42 سال کی عمر میں اچانک موت ہوئی، اس موت پر دل دکھا کوئی کہیں بھی ہو اس طرح کی ناگہانی موت اور اتنی جوان موت بہت تکلیف دہ ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ اینٹی ایجنگ ایکشن لگواتی تھیں، بڑھاپے کو قبول کرلیں اس سے کچھ نہیں ہوتا، عمر کو کم کرنے کا کیا جنون ہے اس سے پہلے بھارت کی مشہور اداکارہ سری دیوی کی بھی موت ہوئی تھی۔
اسما عباس نے کہا کہ سری دیوی نے بھی بہت سی چیزیں کروائی ہوئی تھیں کچھ بھی ہو یہ ایک غیر قدرتی چیزیں ہیں جو آپ کی صحت متاثر اور دل کو کمزور کرتے ہیں، پتا نہیں زندگی بھر جوان رہنے کا کیا شوق ہے، کیسے انسان زندگی بھر جوان رہ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے شیفالی جریوالا اچانک انتقال کرگئی تھیں، 27 جون کو انہیں ممبئی میں ان کی رہائش گاہ سے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے مردہ قرار دیا۔
برطانیہ کی حکومت نے فلسطین ایکشن سمیت 3 تنظیموں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر دیا۔
خبر ایجنسی کے مطابق فلسطین کی حامی تنظیم فلسطین ایکشن پر پابندی کے لیے برطانوی وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ میں مسودہ پیش کر دیا۔
فلسطین ایکشن گروپ کے کارکنان برطانوی بیس میں گھس گئے تھے۔ دو فوجی طیاروں پر سرخ پینٹ اسپرے کر کے غزہ جنگ میں برطانوی حمایت پر احتجاج کیا تھا۔
برطانوی حکومت کا مؤقف ہے کہ قومی سلامتی اور ماہرین کی سفارش پر پابندی کا اقدام کیا گیا ہے۔
برطانوی ہوم سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کوبرداشت نہیں کریں گے جو ملکی سلامتی کیلئےخطرہ ہیں، پارلیمنٹ میں بل پاس ہونے کی صورت میں گروپ غیرقانونی ہو جائے گا۔
فلسطین ایکشن گروپ نے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس میں پولیس کےساتھ جھڑپوں میں 13 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
فلسطین ایکشن گروپ نے حکومتی کارروائی کو غیر مناسب قرار دیا ہے۔
اپریل میں لندن میں لاکھوں برطانوی شہریوں نے فلسطین کی آزادی کیلئے مارچ کیابرطانوی عوام نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سے فلسطین کی آزادی کے لیے مارچ کا آغاز کیا۔ لندن کی سڑکیں ’’فری فری فلسطین‘‘ اور ’’اسٹاپ کلنگ ان غزہ ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھیں۔
عوام نے برطانوی پارلیمنٹ کے باہر اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ مارچ برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ سے ہوتا ہوا ہائیڈ پارک تک پہنچا۔
شرکا نے فلسطین کے پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے تھے جبکہ برطانوی عوام نے اسرائیل مخالف بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔
کراچی کے علاقے شریف آباد میں مبینہ پولیس مقابلے میں گبول برادری کے نوجوانوں کی موت پر نبیل گبول نے سندھ حکومت کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دے دیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی نبیل قبول کا کہنا ہے کہ پولیس نے گبول برادری کے تین نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں قتل کیا اگر پولیس کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او شریف آباد نے مبینہ مقابلے میں نوجوانوں کو قتل کیا ہے۔
نبیل گبول نے کہا کہ وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار سے بات کی ہے اور اے آئی جی کراچی جاوید اوڈھو نے بھی انکوائری کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ یہ ڈکیت نہیں تھے، ویڈیوز موجود ہیں کہ انہیں جب پکڑا گیا تو وہ زندہ تھے۔
نبیل گبول نے کہا کہ میں سندھ حکومت، پیپلزپارٹی اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے کہا کہ یہ پیپلزپارٹی کے لوگ ہیں جو انتظار میں ہیں کہ میں انہیں کال دوں اور احتجاج کریں۔
پی پی رہنما نے کہا کہ فوری طور پر ایس ایچ او شریف آباد کو معطل کیا جائے نہیں تو ہم سندھ پولیس کے خلاف احتجاج کرکے ساری شاہراہیں بند کردیں گے۔
آج محمد نجمُ الغنی خاں کا نام اب صرف ادبی تذکروں میں ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ نئی نسل کے لیے وہ ایک نامانوس شخصیت بھی ہیں اور شاید ہی کسی نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو، لیکن یادِ رفتگاں کے ذیل میں اس نادرِ روزگار شخصیت کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ نجم الغنی خان یکم جولائی 1941ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے ممتاز محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر بھی تھے۔
ان کی وجہِ شہرت علمی و ادبی کام ہی نہیں بلکہ وہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا جاتا ہے۔ نجمی ان کا تخلّص تھا اور تعلق رام پور سے تھا جس کے سبب وہ اپنے نام کے آگے رام پوری بھی لکھتے تھے۔
مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں نجم الغنی خاں کو شروع ہی سے وہ ماحول ملا جس میں وہ مطالعہ کے عادی بنے اور پھر لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
نجم الغنی خان کے والد جب رام پور سے نکلے اور ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو وہیں اپنے فرزند کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ 23 برس کی عمر میں نجم الغنی خاں اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کی غرض سے رام پور منتقل ہوگئے۔ وہاں مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا اور 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں کیا۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں بہت سا علمی و ادبی کام کیا۔
محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ انھیں تاریخ سے خاص شغف تھا۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخ پر مبنی کتب تحریر کیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتابوں اور مختصر رسالوں کے ساتھ علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کی شاعری بھی دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔
علم و ادب کے علاوہ نجم الغنی خان نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اپنائے رکھا اور اس میدان میں اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں یکجا کیا تاکہ اس پیشے کو اپنانے والے استفادہ کرسکیں۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔
نجم الغنی خاں نجمی کی علمی و تاریخی موضوعات پر مبنی کتابوں میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض) اور مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔
بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کے لیے خوشخبری ہے کہ اب پاکستان میں ہی انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس صرف 5 منٹ میں حاصل کر سکتے ہیں۔
بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو یہ سہولت لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فراہم کی گئی ہے جہاں پنجاب ٹریفک پولیس نے پاکستان کا پہلا سہولت کاری کیوسک نصب کر دیا ہے۔ اس تاریخ ساز منصوبے کا افتتاح چیف ٹریفک آفیسر لاہور ڈاکٹر محمد اطہر وحید نے کیا۔
افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے CTO لاہور نے روشنی ڈالی کہ یہ کیوسک سمندر پار پاکستانیوں اور مسافروں کی خدمت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جنہیں اکثر اوقات وقت کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چیف ٹریفک آفیسر لاہور اطہر وحید نے اس سہولت کو بیرون ملک جانے والے مسافروں کے لیے بہترین سہولت قرار دیتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ اس سہولت سے مسافروں کو بہت فائدہ پہنچے گا، پروسیسنگ کا وقت کم ہو گا اور ضروری دستاویزات کو مزید قابل رسائی بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ایسے کیوسک کو ملک کے دیگر ایئرپورٹس پر بھی نصب کرنے کا منصوبہ ہے۔
واضح رہے کہ یہ انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس پاکستانی ڈرائیورز کو دنیا کے 132 ممالک میں قانونی طور پر گاڑی چلانے کا اہل بناتا ہے۔
انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی شرط:
انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس صرف ان ہی افراد کو جاری کیا جاتا ہے، جن کی درخواست کے ساتھ باقاعدہ درست مقامی ڈرائیونگ لائسنس ہوتا ہے۔
انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس فیس:
انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس کی فیس ہر گاڑی کے لیے مختلف ہے۔ فیس کی تفصیلات جاننے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔