جمعرات, مئی 15, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 207

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے پاسپورٹ کی تجدید کی فیس کتنی ہے؟

0

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شہری اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے لیے جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل اور دیگر شہروں میں دفاتر جاسکتے ہیں۔

سعودی عرب میں پاکستانی مشن کے پاس پاسپورٹ کی خدمات فراہم کرنے کے لیے مکمل طور پر آپریشنل مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ آفس موجود ہے۔

یہ ایک مخصوص فیس کے ڈھانچے کے تحت پاسپورٹ کی تجدید اور مسائل کے لیے عام اور فوری خدمات پیش کرتا ہے۔

پانچ سال کی میعاد کے ساتھ 36 صفحات پر مشتمل پاسپورٹ کی عام فیس 84 ریال ہے جبکہ فوری درخواست کی صورت میں یہ 140 ریال ہے۔

تاہم 10 سالہ میعاد کے ساتھ اسی پاسپورٹ کی فیس عام درخواست کے لیے 126 ریال اور فوری درخواست کے لیے 210 ریال ہے۔

پانچ سال کی میعاد کے ساتھ 72 صفحات پر مشتمل عام فیس 154 سعودی ریال ہے اور یہ فوری درخواستوں کے لیے 252 ریال ہے۔ اسی طرح 10 سال کی میعاد کے ساتھ ایک ہی پاسپورٹ کی عام فیس 231 ریال ہے جبکہ ارجنٹ فیس 378 ریال ہے۔

پانچ سال کی میعاد کے ساتھ 100 صفحات کے پاسپورٹ کی عام فیس 168 ریال ہے اور فوری فیس 336 ریال ہے۔ 10 سال کی میعاد کے ساتھ ایک ہی پاسپورٹ کی عام فیس 252 ہے جبکہ فوری فیس 504 ریال ہوگی۔

دریائے سندھ ہمارا ہے، اس پر ہمارا پانی بہے گا یا اُن کا خون، بلاول بھٹو کا بھارت کو سخت پیغام

0
پیپلز پارٹی حیدرآباد

پی پی پی چیئرمین نے کہا ہے کہ دریائے سندھ ہمارا ہے اور رہے گا بھارت کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس پر ہمارا پانی بہے گا یا ان کا خون۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سکھر میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پہلگام فالس فلیگ آپریشن پر بھارت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مودی نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلیے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت بھی مانتا ہے کہ دریائے سندھ ہمارا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اٹھ کر کہیں کہ ہم سندھ طاس معاہدہ نہیں مانتے۔ ہم دریائے سندھ کے محافظ ہیں اور ہر قیمت پر اس کا تحفظ کریں گے۔سرحد پر ہماری افواج بھارت کو منہ توڑ جواب دے گی۔

پی پی چیئرمین نے کہا کہ بھارت کی آبادی زیادہ ہے، لیکن پاکستان کے عوام غیور ہیں اور ڈٹ کر مقابلہ کرینگے۔ بھارت کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دریائے سندھ ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گا۔ اس دریا سے ہمارا پانی بہے گا یا ان کا خون بہے گا

ان کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ پر ایک اور حملہ بھارت کی طرف سے ہوا ہے، لیکن ہر پاکستانی دریائے سندھ کا سفیر بن کر دنیا کو پیغام دے گا کہ سندھو پر ڈاکا

نامنظور ہے۔ پاکستان کے چار صوبے چار بھائی ہیں اور یہ ساتھ مل کر مودی کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لیتا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کے جو ارادے ہیں، اس کے خلاف ہم وزیراعظم اور حکومت کے شانہ بشانہ ہیں۔ ہم وفاق کی آواز بنیں گے اور کسی کو عوام کے حق پر ڈاکا مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

پی پی چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو واقعہ ہوا، اس کی ہم نے بھی مذمت کی کیونکہ ہم خود بھی دہشتگردی سے متاثڑ ہیں۔ تاہم بھارت اور مودی سرکار اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا رہا ہے۔

بلاول بھٹو نے دریائے سندھ سے نہریں نکالے جانے والے مسئلہ پر کہا کہ مسلم لیگ ن اور پی پی کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے اور ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ دریائے سندھ پر مزید نہریں نہیں بنائی جائیں گی۔ اس معاہدے پر ن لیگ اور پی پی رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے طے کیا ہے کہ پی پی کی مرضی کے بغیر کوئی نئی نہر نہیں بنے گی۔ وفاق کا اس منصوبے سے پیچھے ہٹنا جیالوں کی کامیابی ہے۔

پی پی چیئرمین نے کہا ہے کہ معاہدے میں لکھا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی مرضی کے بغیر نہر نہیں بنے گی۔ حکومت نے اس کا اجلاس 2 مئی کو طلب کیا ہے اور طے ہوا ہے کہ اگر سی سی آئی اجلاس میں جن منصوبوں پر اتفاق نہ ہوا انہیں واپس بھیجا جائے گا۔مشترکہ مفادات کونسل اجلاس میں ہم دریائے سندھ پر نہروں کا منصوبہ ختم کر دیں گے۔

کراچی کنگز کے فاسٹ بولر ایڈم ملن پی ایس ایل 10 سے باہر

0

کراچی کنگز کے فاسٹ بول ایڈم ملن انجری کے باعث پی ایس ایل 10 سے باہر ہوگئے۔

کراچی کنگز کے فاسٹ بولر ایڈم ملن گھٹنے کی انجری کے باعث ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 10 کے باقی میچوں سے باہر ہو گئے ہیں۔

انہیں انجری لاہور قلندرز کے خلاف  کنگز کے رواں سیزن کے دوسرے میچ کے دوران ہوئی۔

ملن ٹیم کے ساتھ موجود رہے اور ان کی رکوری  کا عمل جاری رہا تاہم میڈیکل ٹیم کی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ اس سیزن میں مزید شرکت نہیں کر سکیں گے۔

ان کی جگہ کراچی کنگز نے عارضی طور پر نوجوان وکٹ کیپر بیٹر اور پاکستان انڈر 19 ٹیم کے کپتان سعد بیگ کو شامل کیا ہے۔

سعد بیگ پہلے ہی کین ولیمسن کی جزوی ریپلیسمنٹ کے طور پر ٹیم کا حصہ بن چکے تھے اور اس سیزن میں دو میچز میں شرکت کر چکے ہیں، جن میں انہوں نے 29 رنز اسکور کیے، جن میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف ایک جارحانہ اننگز بھی شامل ہے۔

کراچی کنگز کی انتظامیہ نے ایڈم ملن کی جلد صحت یابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور ٹیم کے لیے ان کی خدمات پر شکریہ ادا کیا۔

بنوں میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 6 خوارج مارے گئے

0

بنوں میں سیکیورٹی فورسز کے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں 6 خوارج مارے گئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر بنوں میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا۔

آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 6 خوارج ہلاک اور 4 زخمی ہوگئے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ علاقے میں پائے جانے والے خوارج کے خاتمے کے لیے سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

واضح رہے کہ سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع سوات میں انٹیلی جنس بیسڈ مشترکہ آپریشن کیا تھا، سیکیورٹی اہلکاروں کی خوارج کے ٹھکانے پر مؤثر کارروائی کے نتیجے میں 4 خوارج مارے گئے تھے۔

  آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے خوارج کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا، ہلاک خوارج علاقے میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے

ادب میں فارمولا بازی

0

شعر و ادب کے حسن و قبح کو پرکھنے کی کسوٹی کسی زمانے میں محض زبان و بیان اور قواعد عروض کے چند بندھے ٹکے اصول تھے۔ مشاعروں، نجی صحبتوں اور ادبی معرکہ آرائیوں سے لے کر درس گاہوں تک انہیں اصولوں کی حکمرانی تھی۔

پھر ایک ایسا دور آیا جب شعری ادبی تحقیقات کو اس تنگنائے سے باہر نکلنے کا موقع ملا اور موضوع و معنی کی قدر و قیمت سے بحث ہونے لگی۔ اردو میں نقد و انتقاد کو صحیح معنوں میں اسی وقت سے پروان چڑھنے کے لیے ایک سازگار فضا میسر آئی مگر یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہماری ادبی تنقید نے روز اوّل سے ہی اخلاقی اور افادی اقدار پر اس قدر توجہ کی کہ شعری اور ادبی تصانیف کے فنی حسن اور تخلیقی و جمالیاتی تقاضوں کو ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ ادب کی تخلیق نہایت پیچیدہ عمل ہے۔ بسا اوقات ایک ایسا شعر یا نثر پارہ جو اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت مفید، معقول اور صالح سماجی یا اخلاقی اقدار کا حامل ہو، بے کیف اور بے اثر معلوم ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف داغ اور جرأت کا کوئی فاسقانہ شعر سن کر منھ سے بے اختیار واہ نکل جاتی ہے۔

آخر وہ کون سا جادو ہے جو ایک معمولی اور مبتذل خیال یا تجربے کو حسین بنا دیتا ہے اور وہ کون سا عنصر ہے جس کی غیرموجودگی ایک اعلیٰ و ارفع معنی کو تاثیر اور لذت سے محروم کر دیتی ہے۔ اردو تنقید حالی کی افادی و اخلاقی تنقید سے لے کر موجودہ دور کے ادبی دبستانوں تک نہ جانے کتنی منزلیں طے کرچکی ہے مگر ادبی تخلیق کے اس راز کو دریافت کرنے میں عموماً ناکام رہی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اندر شعر و ادب سے لطف اٹھانے اور اس سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہی نہ ہو یا ہماری جمالیاتی اور تخلیقی حس بالکل کند ہو گئی ہو۔ عام طور پر ہمارا رویہ اس سلسلے میں نارمل ہوتا ہے، خاص طور پر اس شخص کا جو محض ادب کا ایک قاری یا سامع ہو اور شعر یا ادبی تحریر اس کی ذہنی تسکین کے لیے غذا کا کام کرتی ہو مگر ہمارے یہاں گزشتہ تیس برس میں جس طور پر اردو کے ادیبوں اور نقادوں کے ادبی مزاج کی تشکیل ہوئی ہے، اس نے ادبی لطف اندوزی کی راہ میں طرح طرح کی دیواریں کھڑی کردی ہیں۔ نظریہ، فلسفہ، عقیدہ، سماجی افادیت، صحت مندی، رجائیت، اجتماعی شعور اور نہ جانے کتنی اصطلاحات جن کو ہم نے ضرورت سے زیادہ اپنے اوپر طاری کر لیا ہے۔

ہماری ادبی تاریخ کا یہ دور تحریکوں کا دور رہا ہے۔ ادبی تحریکوں سے ادب کے ارتقا میں یقیناً مدد ملتی ہے مگر تحریک زدگی، کبھی کبھی ہم کو اصل ادب سے دور بھی کر دیتی ہے۔ کوئی تحریک اگر چند فارمولوں اور فیشنوں یا چند تنقیدی مفروضات کو ہی ادب کی اساس سمجھنے لگے تو اس تحریک کے سائے میں پروان چڑھنے والا ادیب اور شاعر اپنے شخصی تجربات اور باطنی کیفیات پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے حقیقی جذبات اور دلی وارادت کی نفی کر کے ان خیالات پر اپنی تحریروں کی بنیاد رکھنے لگتا ہے جو دراصل اس کی تخلیقی شخصیت سے فطری مناسبت نہیں رکھتے۔

ترقی پسند ادب کی تحریک کے عروج و زوال سے آج کے ادیبوں کی نسل بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس تحریک کے سائے میں جس تنقید کو فروغ ہوا وہ شعر یا افسانہ پڑھنے سے پہلے یہ معلوم کرتی تھی کہ یہ ادیب یا شاعر کون ہے؟ اس پر ترقی پسندی کا لیبل لگا ہوا ہے یا نہیں؟ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا رکن ہے یا نہیں؟ اگر رکن ہے تو سیاسی جماعت سے کس حد تک وابستہ ہے جس کے نظریے یا فلسفے کو ترقی پسندی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو وہ چاہے جس طرح کی چیز لکھے، اس کا ذکر نمایاں طور پر ہوتا تھا۔ اس کی جماعتی وابستگی یا وفاداری اس کے تمام ادبی گناہوں اور فنی کوتاہیوں کا بدل بن جاتی تھی۔

رفتہ رفتہ یہ لے اتنی بڑھی کہ بعض اوقات کسی ادیب کی تحریر کے لیے یہی سند کافی تھی کہ وہ کسی ترقی پسند رسالے میں چھپی ہے۔ بعض رسالے تحریک کے سرکاری آرگن کی حیثیت رکھتے تھے اور اس میں چھپنے والا تمام مواد نقادوں اور ادیبوں کے لیے قابل قبول سمجھا جاتا تھا۔ تحریک پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جب بعض رسالوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ گویا ان رسالوں میں لکھنے والا خواہ، اس کی تحریر ترقی پسندہی کیوں نہ ہو، اس کی ترقی پسندی مشکوک سمجھی جائے گی۔ منٹو اور عسکری نے ’’اردو ادب‘‘ کے نام سے رسالہ نکالا تھا یا وہ رسالے جن سے میرا جی اوران کے حلقے کے لوگ وابستہ تھے، اسی ذیل میں آتے تھے۔

ادب میں جدیدیت کا میلان دراصل اسی غیر ادبی مسلک سے انحراف اور رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ صحیح معنوں میں جدید ادیب وہ ہے جو زندگی اور اس کے مظاہر کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں آزادانہ طور پر دیکھنے اور برتنے کی کوشش کرتا ہے اور تخلیقی عمل کو غیر فطری فارمولوں اور مفروضوں سے الگ رکھ کر فطری نشوونما کا موقع دیتا ہے۔ ایسا ادیب چاہے وہ کسی درجے کا ہو اور اس کے موضوعات کا دائرہ خواہ وسیع ہو یا محدود، سب سے پہلے ادب کے تخلیقی اور جمالیاتی تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کے یہاں اپنے دور کی آگہی اور ہوش مندی ہے اور اس نے زندگی کو رسمی اور روایتی زاویوں سے دیکھنے کے بجائے اس کی حقیقتوں کا از سر نو انکشاف کیا ہے تو اس کی تحریر میں تازگی اور ندرت ضرور ہوگی۔

مگر ہمارے یہاں تحریکوں نے ادبی مزاج پر ایسا گہرا اثر ڈالا ہے کہ بہت سے وہ ادیب بھی جو اپنے آپ کو جدیدیت کا نمائندہ کہتے ہیں، جدیدیت کو ترقی پسندی کی طرح ایک فارمولا یا فیشن سمجھتے ہیں اور ادبی تخلیق میں اسی منصوبہ بندی سے کام لے رہے ہیں جو ترقی پسندوں کی خصوصیت تھی۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ بھی سوچنے لگے ہیں کہ فلاں شخص جدید ہے یا نہیں یعنی اس نے اپنے جدید ہونے کا اعلان کیا ہے یا نہیں؟ فلاں ادیب کس رسالے میں اپنی چیزیں چھپواتا ہے؟ اگر ایک ادیب یا شاعر مسلسل ’’شب خون‘‘ یا کسی ایسے ہی رسالے میں چھپتا رہا ہو لیکن اتفاق سے ’’گفتگو‘‘، ’’حیات‘‘ یا اسی قبیل کے کسی اور پرچے میں اس کی تحریر چھپ جائے تو اس کی ’’جدیدیت‘‘ مشکوک سمجھی جاتی ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کے جدید ادیبوں اور گزشتہ دور کے تحریکی ادیبوں کے ادبی مزاج میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح ادب کی ایک مصنوعی فضا میں سانس لے رہے ہیں جو ان کے لیے آئندہ چل کر مہلک ثابت ہوگی۔ جدیدیت کا صحیح راستہ تویہ ہوگا کہ کسی پر لیبل نہ لگایا جائے، نہ کسی رسالے کو جدیدیت کا سرکاری ترجمان سمجھا جائے۔ کوئی تحریر اپنے طرز احساس، رویے اور اسلوب اظہار کی بنا پر ہی جدید کہلانے کی مستحق ہوگی۔ اگر ایسی تحریر ہمیں مخدوم، سردار جعفری، کرشن چندر کے قلم سے بھی نظر آئے تو اسے جدید کہنا ہوگا۔ کسی ادیب یا شاعر کو ہم ایسی اکائی نہیں فرضی کرسکتے جو محض ایک خصوصیت کا حامل ہو اور دوسری خصوصیت کبھی اس میں پیدا ہی نہ ہو۔

زندگی کی طرح خود انسان بھی متحرک اور تغیرپذیر ہے۔ ایک ہی ادیب ایک تخلیق میں قدامت کا حامل ہو سکتا ہے تو دوسری تخلیق میں جدیدیت کا۔ اسی طرح اس کی کوئی تحریر ناکام ہوسکتی ہے تو دوسری کامیاب۔ ادب اور ادبی تنقید کو جمالیاتی معیاروں کے علاوہ دوسرے تمام مفروضات سے بالاتر ہونا ہوگا۔ جدید نسل کو اسی ادبی مزاج اور تخلیقی رویے کو آگے بڑھانا ہے ورنہ جدیدیت بھی کچھ دنوں میں ایک تحریک بن کر رہ جائے گی اور اس کے خلاف بھی وہی رد عمل ہوگا جو گزشتہ تحریکوں کے خلاف ہوا۔

(شاعر اور جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں سے ایک خلیل الرحمٰن اعظمی کی تحریر)

حیرت انگیز ویڈیو: سورج کے گرد روشنی کا ہالہ کہاں دیکھا گیا؟

0

چاند کے گرد ہالہ (روشنی کا دائرہ) تو اکثر وبیشتر نظر آتا رہتا ہے لیکن دنیا کو روشنی سے منور کرنے والے سورج کے گرد یہ ہالہ دیکھا گیا۔

عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب میں سورج کے گرد ایک روشن ہالے نے شہریوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا جب کہ یہ ہالہ کیسے بنتا ہے ماہرین فلکیات نے بتا دیا۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنوبی ضلع صبیا میں شہریوں نے افق پر یہ نا قابل یقین منظر دیکھا گا۔ شہریوں نے دنیا کو روشنی سے منور کرنے والے سورج کے گرد ایک روشن دائرہ (ہالہ) دیکھا جس کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔

 

اس تاریخی فلکیاتی منظر کو نہ صرف واضح طور پر دیکھا گیا بلکہ ماہرین نے اس کو دستیاویزی صورت میں ریکارڈ بھی کیا۔

اس حوالے سے سعودی فلکیاتی انجمن کے سربراہ انجینئر ماجد ابو زہرہ نے بتایا کہ اس فلکی منطر کو ’’22 درجے کا ہالہ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس کا زاویائی نصف قطر 22 ڈگری کو ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سورج کے گرد روشنی کا حلقہ اس وقت بنتا ہے جب سورج کی روشنی بلند اور باریک بادلوں میں موجود چھ کونوں والے برف کے ذرات (کرسٹل) میں سے گزرتے ہوئے منعکس اور منکسر ہوتی ہے۔ یہ بادل عام طور پر سائرس بادل کہلاتے ہیں، جو سرد اور بلند فضائی طبقات میں پائے جاتے ہیں۔

ابو زہرہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس مظہر کو پانی کے قطروں سے بننے والے مظاہر مثلاً قوس قزح یا سورج کے تاج (Solar Corona) سے الگ سمجھنا ضروری ہے، کیوں کہ ان کی شکل اور سائنسی وجوہات مختلف ہیں۔

کرین پر ’جھولا‘ جھولتے شخص کی ویڈیو دیکھ کر لوگ حیران

0

امریکا میں کرین پر جھولا جھولتے شخص کی ویڈیو نے لوگوں کو حیران کردیا جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

وائرل کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص امریکا کے شہر آسٹن کے مرکز میں تعمیراتی کرین سے جھول رہا ہے جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔

ویڈیو کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔

فاکس 7 آسٹن کی رپورٹ کے مطابق آسٹن پولیس کو کال کی گئی کہ ایک شخص کرین سے لٹکا ہوا ہے جب افسران پہنچے تو انہوں نے ایک شخص کو بظاہر عمارت کے اوپری حصے میں کرین کے کنارے سے نیچے گرتے ہوئے پایا اور احتیاط کے طور پر علاقے کو خالی کرالیا گیا۔

کچھ ہی دیر بعد وہ شخص کرین کی سیڑھی سے نیچے اترا اور اونچی عمارت میں داخل ہوا۔

Someone took this crane in Austin, TX for a swing
byu/Master_Jackfruit3591 innextfuckinglevel

رپورٹ کے وقت فرد کی شناخت معلوم نہیں تھی اور کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی تاہم تفتیش ابھی جاری ہے۔

اس ویڈیو کو جیک زیمرمین نامی ایک شخص نے فلمایا تھا اور اس نے تیزی سے آن لائن توجہ حاصل کرلی، جس سے مختلف ردعمل سامنے آئے۔

ایک کرین آپریٹر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بطور کرین آپریٹر، یہ مجھے پریشان کرتا ہے۔ دوسرے صارف نے لکھا کہ ’یہ مشکل نہیں ہے، بس طاقت اور علم کی ضرورت ہے۔‘

بوکھلاہٹ کا شکار بھارتی فضائیہ نے بھیانک غلطی کر دی

0

پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی ناکامی سے بھارتی فضائیہ بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔

جنگی جنون میں مبتلا بھارتی فضائیہ کی بھیانک غلطی سامنے آگئی۔ جنگی طیارے نے اپنے ہی علاقے میں مواد گرا دیا۔

واقعہ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے علاقے شیوپوری میں پیش آیا جہاں جنگی جہاز نے ’ٹینک‘ آبادی پر گرا دیا جس کے نتیجے میں سے آبادی اور املاک کو شدید نقصان پہنچا جب کہ متعدد مکانات تباہ ہو گئے۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ واقعہ بھارتی فضائیہ کی غیرذمہ داری اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔

ایئر فورس نے ایک بیان میں ڈراپ ٹینک کے "نادانستہ” گرنے سے املاک کو ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ فضائیہ نے وجہ معلوم کرنے کے لیے انکوائری کا حکم دیا ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ املاک کو پہنچنے والے نقصان کا معاوضہ مقررہ طریقہ کار کے ذریعے فراہم کیا جائے گا۔

انڈین میڈیا کے مطابق گوالیار سے تقریباً 135 کلومیٹر دور شیو پوری میں "غیر دھماکہ خیز فضائی اسٹور” گھر کی چھت پر گرا۔ عینی شاہدین نے اس سے قبل بتایا تھا کہ ایک نامعلوم بھاری چیز صبح 11 بجے کے قریب استاد منوج ساگر کے مکان کی چھت پر گری۔ حکام نے بتایا کہ گھر کے دو کمروں کو مکمل طور پر نقصان پہنچا اور ملبہ قریب کھڑی کار پر گرا۔

تان سین اور ہرن والی حکایت

0

برصغیر میں تان سین کو علم موسیقی کا بادشاہ سمجھا گیا ہے۔ تان سین سے متعلق اکبر کے دور کے مؤرخین نے بھی لکھا ہے اور بعد میں‌ آنے والوں نے بھی، لیکن اکثر ایسے واقعات اور حکایات بھی سننے کو ملتی ہیں جن کی صداقت نہایت مشکوک ہے۔ خاص طور پر تان سین کا راگ سن کر ہرنوں کا اس کے گرد جمع ہوجانا یا موسم میں تغیر۔ البتہ تان سین کو عظیم فن کار سبھی مانتے ہیں۔ 26 اپریل کو تان سین چل بسا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ تان سین نے علم موسیقی کی تعلیم و تربیت کے مراحل گوالیار کے ایک مکتب میں مکمل کیے تھے۔ یہ اس وقت کے ایک راجا مان سنگھ تنور کا قائم کردہ مکتب تھا۔ کچھ عرصے راجاؤں کے درباروں سے جڑے رہنے کے بعد تان سین کو بادشاہ اکبر نے اپنے نورتنوں میں شامل کرلیا تھا۔ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ تان سین ہندو تھے۔ لیکن "آئینِ اکبری” میں شیخ ابو الفضل نے آپ کو میاں تان سین لکھا۔ یہ ایک قسم کا وہ لقب ہے جو کسی مسلمان کے لیے برتا جاتا تھا۔ شاید اسی سبب تان سین کو ایک قبرستان میں ابدی آرام گاہ ملی۔ سچ یہ ہے کہ تان سین کی زندگی کے ابتدائی حالات، اس کا مذہب، پیدائش اور درست تاریخِ وفات بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ہندوستانی موسیقی کا بادشاہ تھا۔ ابوالفصل نے اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ پچھلے ہزار سال میں شاید ہی کوئی کاونت ایسا پیدا ہوا ہوگا۔

خیال ہے کہ تان سین کا اصل نام ترلو چن داس تھا۔ وہ ذات کا گوڑ برہمن تھا۔ اس کے باپ کا نام بعض کتابوں میں مکرند پانڈے ملتا ہے جو گوالیار کے رہنے والے تھے۔ تان سین موضع بھینٹ میں پیدا ہوا۔ سینہ بہ سینہ اقوال اور روایات سے محققین نے قیاس کیا کہ تان سین 1524ء میں پیدا ہوا تھا۔ اور یہ برصغیر میں صدیوں سے رائج بکرمی تقویم کے مطابق 1582ء بنتا ہے۔

محققین کے مطابق تان سین نے کئی راگ اور راگنیاں اختراع کی تھیں۔ میاں توری، میاں سارنگ، میاں کی ملہار اور درباری کانگڑا اس کی چند تخلیق ہیں جو اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک کلاسیکی موسیقی زندہ ہے۔ تان سین سے دو تصانیف سنگیت سارا اور راگ مالا بھی منسوب ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ تان سین دربارِ اکبری میں 1562ء میں پہنچا اور نغمہ سرا ہوا تو اکبر کو بھا گیا۔ وہ اس سے بہت مثاثر ہوا اور بہت زیادہ انعام دیا۔

تان سین کی وفات کا سنہ 1589ء بتایا جاتا ہے۔ اس گلوکار کو حضرت محمد غوث گوالیاریؒ کے مقبرہ کے قریب دفنایا گیا اور کہتے ہیں کہ تدفین کے وقت اکبر کے حکم پر ہندوستان کے تمام بڑے مغنی بھی موجود تھے۔

تان سین کے فن کے متعلق ایک حکایت بھی زبان زد عام رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی گائک بیجو باورا تھا جو راگ کی دھن میں ہمیشہ مست رہتا اور اس پر موسیقی کا جنون تھا۔ ایک روز تان سین گوالیار کے گھنے جنگل میں راگ الاپ رہا تھا کہ بیجو بھی ادھر آ نکلا۔ دونوں نے آمنے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ بیجو نے اساوری راگ الاپنا شروع کیا۔ اس راگنی کی تاثیر یہ بتائی جاتی ہے کہ اسے سن کر ہرن جمع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہرن راگنی سن کر ان کے پاس آگئے تو بیجو نے اپنے گلے سے سونے کا ہار اتار کر ایک ہرن کے گلے میں ڈال دیا۔ وہ خاموش ہوا تو سب ہرن واپس جنگل میں چلے گئے۔ بیجو نے تان سین کو چیلنج کیا کہ تمھیں جب استاد مانوں گا کہ میرا سنہری ہار جس ہرن کے گلے میں تھا، اسے یہاں آنے پر مجبور کردو۔ یہ سن کر تان سین ایک راگ الاپنا شروع کیا جو راگ میان کی ٹوڑی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس راگ کی تاثیر بھی وہی ثابت ہوئی جو ساوری کی تھی۔ ہرنوں کا وہی گروہ پھر نمودار ہوگیا اور انہی میں وہ ہرن بھی شامل تھا جس کے گلے میں بیجو نے ہار ڈالا تھا۔ تب بیجو نے تان سین کے روبرو زانوئے ادب تہ کیا اور اسے اپنا استاد تسلیم کرلیا۔

سعودی گروپ کے ایئر بس کے ساتھ اہم معاہدے پر دستخط

0
سعودی گروپ

سعودی گروپ نے ایئربس کے ساتھ ایک بڑے معاہدے پر دستخط کردیے۔

سعودی گروپ نے اپنے فضائی بیڑے میں 20 نئے وائیڈ باڈی اے 330 این ای او طیارے شامل کرنے کے لیے ایئربس کے ساتھ ایک بڑے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس میں کم لاگت والے کیریئر فلائیڈیل کے 10 فرم آرڈر بھی شامل ہیں۔

اس معاہدے کا مقصد فضائی بیڑے کی جدید کاری اور آپریشنل رسائی کو بڑھانا ہے، اس معاہدے کے پاکستان کے لیے خاص طور پر علاقائی روابط، سیاحت اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اپنی بہترین کارکردگی، طویل اڑان، اور غیر معمولی استعداد کے لیے مشہور، اے 330 این ای او ماڈل اپنی آپریشنل رسائی کو بڑھانے اور مزید منازل متعارف کرانے کے لیے گروپ کی حکمت عملی کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔

سعودی عرب اور پڑوسی ممالک بشمول پاکستان کے درمیان ہوائی سفر کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کیلئے ان طیاروں کی ترسیل 2027 میں شروع ہوگی۔

اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان، علاقائی تجارت، سیاحت اور سفر میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر فلائٹ کنیکٹیویٹی میں اضافہ اور ہوا بازی اور سیاحت کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ تعاون سے مستفید ہوگا۔

سعودیہ گروپ کی توسیع سعودی عرب کے وژن 2030 کے مطابق ہے، جس کا مقصد 250 مقامات کو جوڑنا اور لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے،اس وژن کے تحت ممکنہ طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سیاحوں کی بڑھتی ہوئی آمدورفت بھی شامل ہے۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب فرانس کے شہر ٹولوس میں واقع ایئربس فیکٹری میں سعودیہ گروپ کے ڈائریکٹر جنرل انجینئر ابراہیم العمر اور کمرشل ایئر کرافٹ بزنس کے سی ای او کرسچن شیررکی موجودگی میں منعقد ہوئی۔

معاہدے پر سعودیہ گروپ میں فلیٹ مینجمنٹ کے نائب صدر صالح عید اور ایئربس میں کمرشل ہوائی جہاز کی فروخت کے ایگزیکٹو نائب صدر بینوئٹ ڈی سینٹ-ایکسپری نے دستخط کئے۔

سعودیہ گروپ کے ڈائریکٹر جنرل انجینئر ابراہیم العمرنے کہا کہ ”یہ معاہدہ ہمارے فضائی بیڑے کو جدید اور وسعت دینے کی ہماری حکمت عملی میں ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتاہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تعلق 105 طیاروں کے لیے ایئربس کے ساتھ گزشتہ سال کے تاریخی معاہدے پر استوار ہے۔ یہ قدم سعودی وژن 2030 کے تحت ہماری قومی حکمت عملیوں سے ہم آہنگ ہے، جس کا مقصد 250 مقامات کو جوڑنا اور 2030 تک 330 ملین سے زیادہ مسافروں اور 150 ملین سیاحوں کے سفر کو آسان بنانا ہے۔“

سعودیہ گروپ میں اس وقت 194طیارے تجارتی، کارگو اور لاجسٹکس مقاصد کیلئے استعمال ہورہے ہیں، جبکہ 191 نئے طیاروں کی فراہمی کے ساتھ ان خدمات میں مزید توسیع ہوگی۔یہ ترقی سعودی عرب کے معاشی وژن کی حمایت کرتی ہے اور پاکستان کے ساتھ فضائی رابطے بڑھانے کے نئے مواقع فراہم کرتی ہے۔