پیر, جون 30, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 3

میزبان اور میزبانی….

0

اردو ادب میں‌ عام انسانی رویوں اور عادات کے ساتھ انسانوں کے میل جول اور رشتے ناتوں یا مختلف بندھن سے جنم لینے والے مختلف کرداروں کو ادیبوں‌ نے طنز و مزاح اور شگفتہ و دل چسپ پیرائے میں‌ جس طرح بیان کیا ہے، وہ ہونٹوں‌ پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ یہ مہمان اور میزبان کے تعلق سے ایک ایسی ہی دل چسپ تحریر ہے۔

میزبان اُس حواس باختہ انسان کو کہتے ہیں جو عموماً اپنے سے بڑے یا اہم آدمی کو کسی خاص موقع پر شرفِ میزبانی بخشنے کے بہانے گھر بھر کو مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کرانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

اس کے ساتھ گھر والوں کی وہی حالت ہوتی ہے جو گیہوں کے ساتھ گھن کی ہوا کرتی ہے۔ گھر بھر میزبانی کی چکّی میں پس کر اچھا خاصا گھن چکر بن جاتا ہے۔

علمُ الانسان کے ماہرین نے میزبان کی تشریح یوں کی ہے، ’’دورِ جدید کا ایسا انسان جس کے ایک ہاتھ میں جھاڑن، دوسرے میں جھاڑو ہوتی ہے۔ اسے دوسروں کی صفائی پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس لیے صفائی کے بعد وہ خود بھی جھاڑ پونچھ کرتا ہے کہ دروازے، کھڑکیاں ٹھیک سے صاف ہیں؟ کہیں جالا تو باقی نہیں۔ کسی صوفے یا کرسی پر گرد تو نہیں۔ اس سلسلے میں وہ مہتر سے باورچی تک کے فرائض ادا کرتا ہے۔ عموماً اس قسم کا انسان شہروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

میزبان کا آغاز مہمانی سے ہوتا ہے۔ میزبان پر مہمان اسی طرح نازل ہوتے ہیں جیسے گنہ گاروں پر عذاب۔ کسی مہمان نے میزبان کے لیے کیا پھڑکتا ہوا مصرعہ کہا ہے، ہمارے بھی ہیں میزباں کیسے کیسے!

مشرقی تہذیب میں میزبانی اب سے پچاس سال پہلے تک خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی، جس کا فن یہ تھا کہ پیٹ بھروں کو کھلایا جائے اور مربھکوں کو مار مار کر ہنکا دیا جائے۔ یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔ میں بنیادی طور پر میزبان ہونے کے مقابلے میں مہمان ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ نہ تو میں مہمان ہوتے ہی اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ’’گرم پانی سے غسل میری کمزوری ہے۔‘‘ نہ یہ کہتا ہوں کہ’’میں چائے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ پیتا ہوں جس میں کم از کم پاؤ بھر بالائی ہو جس کو معتدل بنانے کے لیے اس میں آدھ پاؤ پستہ اور بادام پیس کر ملا دیا جائے اور محض دو انڈے توڑ کر ان کی زردی ڈال دی جائے۔‘‘ نہ میں میزبان پر انکشاف کرتا ہوں کہ اصلی گھی میری کمزوری ہے۔ ڈالڈا گلا پکڑ لیتا ہے۔ گوشت میں کہاں کھاتا ہوں، اس لیے جانور بٹیر سے چھوٹا نہ ہو اور مرغ سے بڑا نہ ہو۔ یوں میں بھی مرغ پر تیتر کو ترجیح دیتا ہوں۔ نہ میں جاتے ہی میزبان کو پان کا ڈبہ تھماتے ہوئے فرمائش کرتا ہوں، ’’بھئی اس میں پان، چھالیہ، زردہ، قوام، الائچی وغیرہ بھروا دو۔

میں تو بس جاتے ہی کہہ دیتا ہوں کہ بھئی تکلف کی ضرورت نہیں۔ گھر میں جو سبزی، دال، بھات، روٹی ہو وہی کھلا دو۔ اہتمام سے تکلف اور غیریت کی بُو آتی ہے۔‘‘

مجھے جہاں بھی جانا ہوتا ہے بس ذرا بن سنور کر تیار ہو کر جاتا ہوں۔ میزبان نے جو وقت دیا ہے اس سے دو یا ڈھائی گھنٹہ بعد ٹھاٹھ سے پہنچتا ہوں۔ نہ مہمان دار کو شرمندگی کہ ابھی تو اس نے نہ کوئی تیاری کی تھی، نہ کوئی صاحب تشریف لائے۔

پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ میزبان جو بے صبری سے منتظرتھا کہ موصوف تشریف لائیں تو چرندم خورندم کا خوش گوار سلسلہ شروع کیا جائے وہ بھی خوش ہوگیا جس کا مفید نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاطر مدارات کا سلسلہ واپسی تک جاری رہتا ہے۔

(معروف ہندوستانی مزاح نگار احمد جمال پاشا کے قلم سے)

پاکستانی پاسپورٹ درجہ بندی میں 2021 کے بعد سب سے اوپر پہنچ گیا

0
طاقتور ترین پاسپورٹ

پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں بہتری آگئی، گرین پاسپورٹ کی درجہ بندی 2021 کے بعد سب سے بلند مقام پر پہنچ گئی ہے۔

ہینلی پاسپورٹ انڈیکس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا پاسپورٹ اب پہلے سے بہتر درجے پر آچکا، 2025 میں پاکستانی پاسپورٹ نے اہم سنگ میل حاصل کرتے ہوئے دنیا کے ٹاپ 100 پاسپورٹس میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ عالمی درجہ بندی میں 2021 میں 113ویں نمبر پر تھا، تاہم اب گرین پاسپورٹ کو درجہ بندی میں ٹاپ 100 پاسپورٹس کے اندر رکھا گیا ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک جانیوالے 2 افغان مسافر گرفتار

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت پاکستان کو پہلے سے زیادہ ممالک ویزا فری اور ویزا آن ارائیول کی سہولت دے رہے ہیں۔

خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ درجہ بندی میں بہتری بین الاقوامی اعتماد کا ثبوت ہے، درجہ بندی میں بہتری پاکستان کی سفارتی کوششوں کا ثبوت ہے، رپورٹ عالمی سطح پر پاکستان کی رسائی اور ساکھ میں بہتری کا اشارہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی شہریوں کو دنیا تک رسائی میں آسانی ہوگی، سفارتکاری میں پاکستان کے مقام کو مزید مستحکم کرنے کی سمت مؤثر قدم ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ ٹاپ 100 میں شامل ! اب کتنے ممالک کا ویزہ فری ہوگا؟

گیس فکسڈ چارجز میں بڑا اضافہ، عوام پر کتنا بوجھ پڑے گا؟

0

گیس صارفین کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ گیس کی قیمت برقرار رکھی گئی ہے تاہم فکسڈ چارجز میں 100 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق بجٹ کے بعد عوام پر گیس کا بم پھوڑ دیا گیا ہے۔ اوگرا نے صارفین کے لیے گیس کی قیمت تو برقرار رکھی ہے، تاہم فکسڈ چارجز میں 50 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اوگرا نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

اوگرا نوٹيفکیشن کے مطابق نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے فکسڈ چارجز 500 روپے بڑھا دیے گئے ہیں جب کہ 1.5 کیوبک میٹر کھپت والے نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے فکسڈ چارجز 1500 روپے کر دیے گئے ہیں۔

اوگرا نے 1.5 کیوبک میٹر سے زائد والے نان پروٹیکٹڈ صارفین کے فکسڈ چارجز میں سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے اور ایسے صارفین کے فکسڈ چارجز میں ایک ہزار روپے اضافہ کر کے فکسڈ چارجز 2 ہزار روپے کر دیے گئے ہیں۔

پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے فکسڈ چارجز میں 200 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے اور اب ان صارفین کو فکسڈ چارجز کی مد میں 400 روپے کے بجائے 600 روپے ادا کرنا ہوں گے۔

گیس کے بلوں میں فکسڈ چارجز کے اضافے سے عوام بالخصوص غریب طبقہ کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

واضح رہے کہ اوگرا نے آج گیس کے بلک صارفین، پاور سیکٹر اور انڈسٹری کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق گیس کی قیمتوں میں یکم جولائی سے اضافہ ہوگا۔

ذرائع کے مطابق گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس اور صنعتی صارفین کے لیے قیمتوں میں دس فیصد اضافہ کی منظوری دی گئی ہے۔

مانگے کی چیز برتنا!

0
urdu adab حسرت چراغ حسن حسرت اردو ادب

چراغ حسن حسرت کا یہ مضمون اُن کے قلم کی شوخی و ظرافت اور مزاح کی طاقت سے ایک نہایت دل پذیر تحریر کے ساتھ ہمارے سماجی رویوں پر گہری چوٹ ہے۔ حسرت نے یہ شگفتہ پارے کئی سال پہلے تحریر کیے تھے، مگر اس کی افادیت آج بھی وہی ہے، جو اس دور میں رہی ہوگی۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد کے مقبول ترین قلم کاروں میں سے ایک تھے۔

حسرت اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

اصل مضمون تو بیری پین کا ہے، اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔ بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے چلے آئیں ہیں کہ معنی کہتے چلے جائیں گے۔

میں نے عہد جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیات مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔۔۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنی ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔ مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہو کے رہ گیا۔

یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت موثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔ چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

آخر زندگی کا مقصد اس کے سوا اور ہے بھی کیا کہ خوش ہونے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر مانگے کی چیز برتنا زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے اور اللہ کی مخلوق کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تو اسے برا کون کہتا ہے۔ وہ تو ایک طرح کی عبادت ہے عبادت۔

اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادوں کی مانگے تانگے کی چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو خوش کرنے کا کام کیسے لیا جائے یا لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی کوٹھی ہے اور کوٹی میں کوئی مالی ہے تو اس سے گھاس چھیننے کا کھرپا مانگ لائیے۔ اس بات پر چونک نہ پڑیے۔ حاشا و کلا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کو گھسیارا یا مالی سمجھتا ہوں یا میرے نزدیک کھرپا آپ کے مصرف کی کوئی چیز ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہو کہ جب آپ مالی سے کھرپا مانگیں تو اسے اس خیال سے کتنی طمانیت حاصل ہوگی کہ اس کا کھرپا بھی بڑے کام کی چیز ہے یعنی وہ اپنے پڑوسی سے عاریتاً کھرپا دے کے اس کی گردن اپنے بار احسان سے جھکا سکتا ہے۔

آپ کو مالی کھرپا دینے سے ہر گز انکار نہیں کرے گا۔ اور انکار کرنے کی وجہ بھی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تو الٹا آپ کا احسان مند ہوگا کہ احسان اٹھانا گوارا کر لینا بیچارے مالی کے لئے کتنا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ وہ مہینوں لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہے گا۔ برسوں اس کے گن گائے گا۔ جس سے کہے گا کہ یہ صاحب جو پڑوس میں آکے ٹکے ہیں بہت شریف آدمی ہیں، ابھی کچھ دن ہوئے کہ مجھ سے کھرپا مانگ کر لے گئے تھے، جانے کیا ضرورت تھی، چاہتے تو نوکر کو بھیج دیتے، لیکن وہ خود آئے اور کھرپا مانگ کر لیے گئے اور یہ نہیں بلکہ چلتے وقت اس طرح میرا شکریہ ادا کیا کہ جیسے میں کہیں کا نواب ہوں اور جب بچے رات کو سوتے وقت کہانی کے لیے ضد کریں گے تو مالی اپنے پڑوسی بابو صاحب اور اپنے کھرپے کا قصہ لے بیٹھے، اور خدا جانے کتنی نسلوں تک یہی واقعہ کس قدر تغیر و تبدل کے ساتھ روتے بچوں کو بہلانے اور منانے کے کام آتا رہے گا۔

یہ جو کچھ میں نے کہا ہے مثال کے طور پر کہا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ صرف مالی سے مانگیے اور کھرپا ہی مانگیے۔ مالی ہی سے نہیں اڑوس پڑوس میں جتنے لوگ ہیں سب سے مانگیے۔ راستہ چلتوں سے مانگیے۔ دوکانداروں پر اعتماد کریں تو ان سے مانگیے۔ درزی سے انگشتانہ قینچی، سوئی یا ہو سکے تو کپڑے سینے کی مشین مانگ لائیے۔ بڑھئی سے بسولا، لوہار سے ہتھوڑا، سقے سے مشک غرض کہ جس گھر پر اداسی چھائی ہوئی نظر آئے وہاں سے کوئی نہ کوئی چیز مانگ لائیے۔ اکثر لوگوں کی زندگی تو اس خیال نے تلخ کر رکھی ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے۔ نہ مال ہے نہ دولت، نہ اثاثہ نہ جائیداد، نہ وہ کسی پر احسان کرنے کے قابل ہیں نہ کوئی احسان اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی چیز مانگنا ان پر احسان کرنا ہے کیونکہ اس طرح ان کا بھی کوئی مصرف ہے۔ وہ بھی دوسرے انسانوں پر احسان کر سکتے ہیں۔ غرض مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے تو آپ بھی خوش دوسرے بھی خوش۔ دوسروں کو یہ احساس کہ وہ احسان کرنے کے قابل ہیں اور آ پ کو یہ احساس کہ آپ لوگوں کے احسان اٹھا کے ان کی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

اب فرمائیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہوگی کہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مانگے کی چیز برتنے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں۔ کیسی ہی ضرورت کیوں نہ آپڑے کسی سے مانگیں گے نہیں۔ اس عادت نے ان کی طبیعت میں اکل کھرا پن پیدا کردیا ہے۔ مزاج میں شگفتگی نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس رو ہی دیں گے۔ گھر میں بیوی سے چخ چلتی ہے، باہر ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان سے ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں ان کی زندگی ہمیشہ تلخ رہے گی۔

مجھے ایک شخص نے بتایا ہے کہ ان کا بچپن سے یہی حال ہے۔ اسکول میں تھے، جب بھی مانگے تانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اس میں کچھ زیادہ قصور نہیں۔ تربیت ہی ناقص ہوئی ہے ورنہ کون ہے جو اسکول میں مانگے کی چیز برتنے کو معیوب سمجھے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں جہاں اور بہت سی باتیں سکھائی جاتی ہیں وہاں مانگے کی چیزیں برتنا بھی سکھایا جاتا ہے اور سکھایا کیا جاتا ہے خود آجاتا ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے قلم، دوات، کتاب، پنسل، ربڑ مانگ کر برتتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔ لیکن اسکولوں میں چیزیں مانگنا محض اختیاری مضمون ہے لازمی مضمون قرار دے کر اسکول کے نصاب میں شامل کر لیا جائے اور یہی نہیں بلکہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کو تربیت دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں۔

مانگے کی چیزیں برتنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چیزوں کو احتیاط سے برتنے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ اپنی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دوسرے کی چیز کو برتتے وقت انسان بڑی احتیاط کرتا ہے اور جو لوگ بچپن ہی سے مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ اپنی چیزیں بھی احتیاط سے برتنے لگتے ہیں۔

غرض یہ کہ اگر آپ چیزیں برتنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو مانگے تانگے کی چیزیں استعمال کیجیے اور اگر آپ نے بہت سی ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں اور انہیں برتنے کا سلیقہ نہیں آیا تو جو کوئی مانگنے آئے اسے بے تکلف دے ڈالیے۔ اس طرح آپ کی چیزیں محفوظ رہیں گی۔ اور اس زمانے میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ نئی چیز یں نہ خریدی جائیں اور پرانی چیزوں ہی سے کام لیا جائے اور اگر کوئی صاحب اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی طریقہ نہیں سوجھتا تو میری خدمات حاصل کریں۔

شام کے صدر احمد الشارع پر قاتلانہ حملے کی تردید

0
شام احمد الشرع

دمشق نے شامی صدر پر قاتلانہ حملے کی خبروں کی تردید کی کر دی۔

شام نے اتوار کو ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی جس میں صدر احمد الشارع پر جنوبی صوبے درعا کے دورے کے دوران قاتلانہ حملے کی خبریں دی گئیں۔

وزارت کے ایک ذرائع نے سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کو بتایا کہ ” گردش کرنے والی میڈیا رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شامی فوج اور ترک انٹیلی جنس نے صدر شارع پر درعا کے دورے کے دوران ایک قاتلانہ حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔”

تاہم سانا نے مبینہ کوشش کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

شام میں جنوری میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد صدر شارع کی قیادت میں ایک نئی عبوری انتظامیہ تشکیل دی گئی تھی۔

تقریباً 25 سال تک شام پر حکومت کرنے والے بشارالاسد دسمبر میں روس فرار ہو گئے، جس سے اقتدار پر بعث پارٹی کی دہائیوں سے جاری گرفت کا خاتمہ ہو گیا جو 1963 میں شروع ہوئی تھی۔

تنزانیہ میں دو بسوں میں تصادم، آگ لگنے سے 38 افراد جھلس کر ہلاک

0

مشرقی افریقی ملک تنزانیہ میں بس کے تصادم اور اس کے بعد آگ لگنے سے کم از کم 38 افراد ہلاک ہو گئے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق تنزانیہ میں بس اور منی بس کے درمیان خوفناک تصادم کے بعد دونوں گاڑیوں آگ لگنے سے مکمل جل گئیں۔

اتوار کو ایوان صدر کے ایک بیان کے مطابق حادثہ، ہفتے کی شام کلیمنجارو کے علاقے صاباسابا میں پیش آیا۔  بس کا ایک ٹائر پنکچر ہونے سے ڈرائیور گاڑی پر سے کنٹرول کھو بیٹھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حادثے میں کل 38 افراد ہلاک ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ مرنے والوں کی لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔

ایوان صدر نے مزید کہا کہ اٹھائیس افراد زخمی ہوئے جن میں سے چھ اب بھی علاج کے لیے اسپتال میں ہیں۔

صدر نے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے المناک حادثے پر اظہار افسوس کیا ہے اور زخمیوں کے بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اسلام آباد جانے کیلئے تیار رہیں، پاکستان میں انقلاب برپا کریں گے، فضل الرحمان

0
فضل الرحمان

بٹگرام: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اب ہماری تحریک چلےگی، اسلام آباد جانے کیلئے تیار رہیں، پاکستان کے اندر انقلاب برپا کریں گے۔

تفصیلات کے مطابق سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمان نے بٹگرام میں شعائراسلام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجتماع سے ثابت ہوگیا عوام جے یوآئی کےساتھ ہیں، جے یو آئی پاکستان میں انقلاب برپا کرے گی، اب ہماری تحریک چلےگی، قوم کی وحدت کے لئے ہماری کوشش جاری رہے گی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم پُرامن لوگ ہیں، ہمیں اسلام آباد پر قبضے کیلئے مجبور نہ کریں، ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے امریکا کو شکست دی ہے، ہم آئین، قانون کی پیروی کرتے ہوئے ملک کیلئے کوشش کرینگے۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ملک آئین کی پٹڑی سے اتررہا ہے، ہم ملک کو آئین کی پٹڑی سے اتارنے والوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ہیں، آگے بڑھیں گے اور پاکستان کے اندر انقلاب برپا کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ مغرب کو کہتا ہوں کہ فلسطین پر جنگ بندی کیوں نہیں کرتے، ایران نے جب اسرائیل کے اوسان خطا کیے تو پھر کہا گیا جنگ بندی کرو۔

فضل الرحمان نے کہا کہ پاک فوج نے بھارت کو نیست ونابود کیا تو پھر ٹرمپ نے کہا جنگ بندی کریں، عراق، فلسطین، شام، افغانستان اور لیبیا میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔

سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ عوام کے بغیر ملک میں کوئی حکمرانی نہیں مانتے، جے یو آئی نے اُس حکومت کو چلنےدیا نہ اِس حکومت کو چلنے دیں گے، یہ حکومتیں نہیں چلیں گی، عوام کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کیا جائے۔

جے یو آئی کارکن میدان عمل میں ہونگے، کامیابی مقدر بنے گی، مان لو تمہارے اندر سیاسی بصیرت نہیں، سیاسی لحاظ سے تم بالکل کورے ہو۔

فضل الرحمان نے کہا کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام کا فیصلہ غلط اور یکطرفہ ہے، قبائل ناراض ہیں، فاٹا کے انضمام پر میں نے تحریری طور پر سوالات اٹھائے تھے، آج وہ اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کی کراچی میں سیاسی ملاقاتوں نے ہلچل پیدا کردی

سانحہ سوات کے بعد ریسکیو 1122 کو ’’زندگی بچانے والی‘‘ کتنی جیکٹس فراہم کی گئیں؟

0

دل خراش سانحہ سوات کے بعد متعلقہ ادارے ہوش میں آ گئے ہیں اور ریسکیو 1122 کو زندگی بچانے والی جیکٹس فراہم کر دی گئی ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات کے بعد وزیراعلیٰ کی ہدایت پر تمام ادارے الرٹ ہیں اور ریسکیو 1122 کو دو ہزار لائف سیونگ جیکٹس فراہم کر دی گئی ہیں۔

ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق حساس اضلاع کو پہلے ہی 1200 لائف جیکٹس فراہم کر دی گئی تھیں جب کہ مزید 10 ہزار لائف جیکٹس کے آرڈرز بھی جاری کیے گئے ہیں۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے نے عوام الناس کو ہدایت کی ہے کہ وہ دریاؤں اور ندی نالوں کے قریب جانے سے گریز کریں۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں دریائے سوات پر تفریح کے لیے گئے ایک ہی خاندان کے 18 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔ ان میں سے 11 لاشیں نکال لی گئیں۔ چار کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی دریائے سوات میں مختلف مقامات پر 75 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔

کے پی حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی جب کہ دریائے سوات کے آس پاس کے تمام ہوٹلز اور ریسٹورنٹس بند کرا دیے گئے تھے۔

واقعہ کے بعد کے پی حکومت کے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ حادثے کے فوری بعد ریسکیو سرگرمیاں شروع کر دی گئی تھیں۔ تاہم عینی شاہدین کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے دو گھنٹے تک وہاں کوئی نہیں پہنچا تھا

دریائے سوات حادثہ، عینی شاہدین نے دل دہلا دینے والا آنکھوں دیکھا حال بتا دیا

 دریں اثنا آج سے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر دریائے سوات کے کنارے سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔

آج کی کارروائی میں ہوٹلز، فوڈ اسٹریٹ، ریسٹورنٹس سمیت 30 سے زائد تجاوزات مسمار کی گئیں۔ دوران آپریشن ہوٹل مالکان اور عملے کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا جس کی زد میں آکر تین اہلکار زخمی ہو گئے۔ پولیس نے مزاحمت کرنے پر 8 افراد کو حراست میں بھی لیا۔

ترجمان وزیراعلیٰ کے مطابق تجاوزات کے خلاف آپریشن میں ضلع انتظامیہ، پولیس اور متعلقہ ادارے شامل ہیں۔ دریائے سوات کے کنارے غیر قانونی مائننگ مکمل طور پر بند کی جا رہی ہے، جس کے بعد دریائے سوات کے اطراف بیریئرز کی تعمیر کا بھی آغاز کیا جائے گا۔

عوام کیلیے خوشخبری، کراچی سمیت ملک بھر کیلیے بجلی سستی ہونے کا امکان

0

غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں ستائے عوام کے لیے بڑی خوشخبری ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی سستی ہونے کا امکان ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق پاور ڈویژن نے ملک بھر میں یکساں ٹیرف کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں ایک روپے 16 پیسے کمی کا امکان ہے۔ نیپرا پاور ڈویژن کی اس درخواست پر یکم جولائی کو سماعت کرے گا۔

پاور ڈویژن کی جانب سے آئندہ مالی سال کیلیے بنیادی ٹیرف میں کمی کی جو تجاویز تیار کی گئی ہیں۔ ان میں گھریلو صارفین کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیرف 48.84 سے کم ہو کر 47.69 روپے ہو جائے گا۔

ان تجاویز میں 50 یونٹ تک کے گھریلو لائف لائن صارفین کیلیے 3.95 روپے فی یونٹ ٹیرف برقرار رکھنے اور 51 سے 100 یونٹ تک لائف لائن صارفین کیلیے ٹیرف 7.74 روپے فی یونٹ برقرار رکھنے کی تجویز ہے۔

اس کے علاوہ 100 یونٹ تک پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کا ٹیرف 1.15 روپے کمی سے 10.54 روپے فی یونٹ کرنے، 101 سے 200 یونٹ تک پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کا ٹیرف 13 روپے ایک پیسے جب کہ 100 یونٹ تک نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کا ٹیرف 22 روپے 44 پیسے کرنے کی تجویز ہے۔

101 سے 200 یونٹ تک کا ٹیرف ایک روپے 16 پیسے کمی سے 28.91 روپے فی یونٹ کرنے، 201 سے 300 یونٹ کا ٹیرف 1.16 روپے کمی سے 33.10 روپے فی یونٹ، 301 سے 400 یونٹ کا ٹیرف 1.16 روپے کمی سے 37.99 روپے فی یونٹ کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ 401 سے 500 یونٹ کا ٹیرف 1.14 روپے کمی سے 40.22 روپے فی یونٹ، 501 سے 600 یونٹ کا ٹیرف 1.16 روپے کمی سے 41.62 روپے فی یونٹ، 601 سے 700 یونٹ کا ٹیرف 1.16 روپےکمی سے 42.76 اور 700 یونٹ سے زیادہ کا ٹیرف 1.05 روپے کمی سے 47.69 کرنے کی تجویز ہے۔

واضح رہے کہ نیپرا نے آئندہ مالی سال کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں ڈیڑھ روپے فی یونٹ کمی کی منظوری دی تھی اور اس نے یکساں ٹیرف کے تعین کے لیے اپنا فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوایا تھا۔

نیپرا نے کراچی سمیت ملک بھر کے بجلی صارفین کو خوشخبری سنا دی

ن لیگ کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کو حکومت میں شمولیت کی دعوت

0

پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دیدی، اس سلسلے میں بات چیت بھی ہوئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان پہلے مرحلے میں وفاقی حکومت میں شامل ہونے پر گفت و شنید ہوئی ہے، تاہم ن لیگ کی پی پی سے پنجاب حکومت میں شمولیت پر ابھی بات نہیں ہوئی۔

حکومت میں پی پی کی شمولیت سے متعلق ذرائع نے بتایا کہ ن لیگ کی پیپلزپارٹی سے حکومت میں شمولیت پرچند ہفتے پہلے بات ہوئی ہے۔

بلاول بھٹو نے وزیراعظم کی ملاقات کی دعوت قبول کرلی

اس سے قبل بھی اس طرح کی خبریں آچکی ہیں کہ پیپلزپارٹی پر حکومت کا حصہ بننے کیلئے بیرونی، اندرونی دباو بڑھ رہا ہے، ن لیگ نے پیپلزپارٹی کو حکومت میں شامل کرنے کےلیے ماضٰ میں بھی رابطے کیے ہیں۔

پیپلزپارٹی کو براہ راست اور دوستوں کے ذریعے پیغامات بھجوائے جاتے رہے ہیں، حکومت بننے کے بعد سے ن لیگ نے شمولیت کیلئے پی پی سے متعدد بار رابطے کئے۔

پی پی زرائع کا کہنا تھا کہ ماضی میں آصفہ بھٹو کی حلف برداری کے دن بھی حکومت کا حصہ بننے کی آفر ملی تھی، جس میں پیپلزپارٹی کو وفاق، پنجاب حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش کی گئی۔

حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان برف جلد پگھلنے کا امکان