اتوار, مئی 4, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 3777

چنے کی دال کو مزید ذائقہ دار کیسے بنائیں؟ لگائیں یہ خاص تڑکا

0
چنے کی دال

دالیں صحت کیلئے انتہائی مؤثر اور اپنی غذائیت کے اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہیں، یہ گوشت سے کسی طور بھی کم نہیں اس میں وہی اجزاء پائی جاتے ہیں جو گوشت میں موجود ہیں۔

دالیں پکانے کے بہت سے طریقے ہیں جس میں اس کے اندر سبزی کا گوشت ڈال کر بنایا جاتا ہے لیکن صرف دال بنائی جائے تو اس کا بھی اپنا الگ ہی مزہ ہے۔

اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں معروف اداکارہ سعدیہ امام نے چنے کی دال کو مزید ذائقہ دار بنانے کا بہت آسان سا طریقہ بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ میری والدہ نے چنے کی دال اور ملکہ مسور کو ذائقہ دار بنانے کے طریقے بتاتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں جب بھی بناؤ اگر اس میں پودینہ نہیں ڈالا تو اس کا ذائقہ کھلے گا ہی نہیں۔

سعدیہ امام نے بتایا کہ دال کو مکمل طور پر پکانے کے بعد بھگار علیحدہ سے لگائیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک گڈی پودینہ کے پتے۔ ایک بڑی پیاز کے باریک سے ٹکڑے۔ موٹی والی لال مرچ اور ہری مرچ تیل میں ڈال کر اچھی طرح گرم کریں اور پھر دال کی ڈش پر یہ تڑکا ڈال دیں۔

اور جب آپ اس پودینے کی تڑکا لگی دال کو گرم گرم تندور کی روٹی کے ساتھ کھائیں گے تو آپ اس کے دیوانے ہوجائیں گے۔

مشتعل ہجوم سے خاتون کو بچانے والی اے ایس پی شہر بانو رشتہ ازدواج میں منسلک

0

اچھرہ میں مشتعل ہجوم سے خاتون کو باحفاظت بچانے والی خاتون پولیس افسر شہر بانو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔

تفصیلات کے مطابق لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک خاتون کی جانب سے عربی حروف کی پرنٹنگ پر مبنی کرتا زیب تن کیا گیا تھا جس کے بعد مذہب کو بنیاد بنا کر لوگ مشتعل ہوگئے تھے۔ ایسے میں بہادر خاتون پولیس افسر شہر بانو نے مشتعل ہجوم سے مذکورہ خاتون کو باحفاظت نکالا تھا۔

شہربانو نقوی کی مہندی اور شادی کی تقریبات لاہور میں منعقد ہوئیں، بارات پر خاتون پولیس افسر نے سرخ رنگ کا عروسی لباس زیب تن کیا تھا۔

خاتون پولیس افسر کی شادی اشتر نقوی نامی بزنس مین سے ہوئی ہے، اے ایس پی شہر بانو نقوی کی شادی کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔

آرمی چیف کی اے ایس پی سیدہ شہر بانو نقوی کو شاباشی

واضح رہے کہ 26 فروری کو لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک خاتون نے ایسا کرتا پہنا ہوا تھا جس پر عربی زبان میں کچھ حروف لکھے تھے جس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے سمجھا کہ یہ کچھ مذہبی کلمات ہیں اور اس معاملے نے ایک غلط فہمی کو جنم دیا۔

اس پیچیدہ صورتحال کو خاتون اے ایس پی شہربانونقوی نے بڑی بہادری سے سنبھالا تھا اور بہت مذکورہ خاتون کو بحفاظت نکالکر اپنے ساتھ تھانے لے گئی تھیں۔

’جلد ہی یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ہیں‘

0

یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا ہے کہ کئی یورپی ممالک جلد ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ہیں۔

جوزپ بوریل نے ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس کے موقع پر کہا ہے کہ کئی یورپی رکن ممالک سے مئی کے آخر تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی توقع ہے۔

حال ہی میں اسپین، آئرلینڈ، مالٹا اور سلووینا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر اسرائیل سیخ پا ہو گیا۔

نیتن یاہو حکومت نے ان یورپی ممالک سے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے دہشتگردی کی معاونت کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

قاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے آئرلینڈ کے وزیر خارجہ اور دفاع مائیکل مارٹن نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اپنے ملک کے موقف کا اعادہ کیا ہے تاہم اس میں اہم چیلنجز موجود ہیں۔

انہوں نے مصری وزیر خارجہ سامح شکری کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ "اور بھی لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ تسلیم کیا جائے اور وہ سالوں سے تاخیر، تاخیر، تاخیر کی کوشش کر رہے ہیں، اور ہماری حکومت نے شروع میں کہا تھا کہ ہم تسلیم کرنے پر غور کریں گے ہم تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم نے کہا کہ ہم ایسا کریں گے جب ہمیں لگے کہ بہترین وقت آگیا ہے۔

1988 سے اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 139 نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔

امریکا کی جانب سے فلسطین کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کی قرارداد کو ویٹو کر دیا گیا، سیکیورٹی کونسل کے 12 رکن ممالک نے فلسطین کومستقل رکنیت دینے کی حمایت کی تھی۔

سیکیورٹی کونسل ارکان کی اکثریت کی حمایت کے باوجود قرارداد پاس نہ ہوسکی، امریکا کے ویٹو کے بعد فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد منظور نہ ہوسکی۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے امریکا کا اسرائیل کی حمایت میں چوتھی بار ویٹو کا استعمال کیا گیا، فلسطین کو 2012 سے اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر کا درجہ حاصل ہے۔

موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں، رانا ثنا اللہ

0
رانا ثنا اللہ

اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگی رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک شخص کو پالا اور اچھی حکومت کو چلتا کیا معلوم نہیں ایسے شخص سے انہیں کیا امید تھی اب اس پروجیکٹ کو وائنڈ اپ کرنے کا معاملہ چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اس پروجیکٹ کو وائنڈ اپ کریں اور اس کے بعد سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو سیاست کرنے دیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کہہ دے کہ ہم سے رابطہ کریں ہم ان سے رابطہ کرنے کے لیے تیار ہیں، جب یہ ہمیں جیلوں میں ڈال رہے تھے اس وقت بھی بات چیت کے لیے تیار تھے۔

ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جو اتحاد بنایا ہے ان سے جس دن کہیں گے ہم بات چیت کے لیے بیٹھ جائیں گے لیکن بانی پی ٹی آئی دوڑ جائیں گے۔

ن لیگی رہنما نے کہا کہ سیاست دان پہلے بھی اور آج بھی معاملے کو کسی سمت لگنے نہیں دے رہے، ہم آج بھی توجہ نہیں دیتے تو پھر کوئی حادثہ ہی ہے اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کو نواز شریف کی ضرورت ہے، خواہش ہے کہ نواز شریف کو جس طرح پارٹی سے الگ کیا گیا تھا دوبارہ پارٹی صدر بنایا جائے۔

کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے آئی جی سندھ کا بڑا فیصلہ

0

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا ہے کہ سندھ پولیس میں 400 پراسیکیوٹرز بھرتی کرنے کا ارادہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر پولیس آئی او سے مل کر کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، پولیس میں 400 پراسیکیوٹرز بھرتی کرنے کا ارادہ ہے۔ پولیس کو ڈیجٹلائزیشن اور کمپیوٹرائزیشن سے استفادہ کرنا ہوگا۔

سندھ پولیس کے شعبہ تفتیش اور لیگل میں اصلاحات سے متعلق اجلاس ہوا جس میں شعبہ تفتیش اور لیگل کی اپ گریڈیشن اور اسے مزید بہتر بنانے سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔

اس موقع پر آئی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ اندراج مقدمہ کے بعد آٹومیشن سسٹم سے ایف آئی آر پراسیکیوٹر تک پہنچا دی جائے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے ہر قسم کی سپورٹ اور معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ شکایت کنندہ اور گواہان کو ہمیں تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔

اے حمید: اردو ادب کا ایک مقبول نام

0

پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے اے حمید نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈرامہ ‘عینک والا جن’ تحریر کیا اور خوب شہرت پائی۔ یہ اپنے وقت کا وہ مقبول کھیل تھا جسے بچوں ہی نہیں بڑوں نے بھی پسند کیا۔ یہ اے حمید کا ایک حوالہ ہے۔ وہ پاکستان کے ایک بڑے ادیب تھے جنھوں‌ نے نثر کی مختلف اصناف کو اپنایا اور شہرت پائی۔

اے حمید نے کہانی، ناول اور ڈرامے لکھنے کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنے والے واقعات سے بھی بہت کچھ سمیٹا اور انھیں اپنے خوب صورت انداز میں اپنی تخلیقات میں سمویا۔ آج اس معروف قلم کار کی برسی ہے۔معروف ادیب اے حمید نے شاعری اور اردو نثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج تک استفادہ کرتے ہیں۔ وہ 2011ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔

اے حمید کی تاریخِ پیدائش 25 اگست 1928ء ہے۔ ان کا وطن امرتسر تھا۔ ان کا نام عبدالحمید رکھا گیا جو اے حمید مشہور ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید نے ہجرت کی اور پاکستان میں ریڈیو سے بطور اسٹاف آرٹسٹ عملی زندگی شروع کی۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

اے حمید کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا۔ اے حمید کی زبانی جانیے۔

"یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں حسبِ عادت خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کر رہا تھا۔ صبح امرتسر تو شام لاہور میں ہوتی تھی۔”

"والد صاحب مجھے کسی جگہ مستقل ملازمت دلوانے کی فکر میں رہتے تھے۔ میں ان سے خوف زدہ بھی تھا۔ وہ پہلوان ٹائپ آدمی تھے اور ان کو میرے مستقبل کی فکر بھی تھی جو بڑی جائز بات تھی۔ میری حالت یہ تھی کہ کسی جگہ ٹک کر کام کرنا میرے مزاج کے بالکل خلاف بات تھی۔”

"ان کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ سے تنگ آکر میں کلکتہ اور بمبئی کی طرف بھی بھاگ جایا کرتا تھا، کبھی ان کے قابو آ جاتا تو کسی جگہ مہینہ ڈیڑھ مہینے کے لیے نوکری بھی کر لیتا تھا۔ چنانچہ جب میں نے پہلی بار عرب ہوٹل کو دیکھا تو اس زمانے میں اسلامیہ کالج کی لائبریری میں بطور کیئرٹیکر ملازم تھا۔ یہ ملازمت بھی میں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی۔”

"لائبریری کا لائبریرین ایک دُبلا پتلا، گورے رنگ کا کم سخن، بڑی ذہین آنکھوں والا دانشور قسم کا نوجوان جہانگیر تھا۔ پورا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ نوکری میں نے اس لیے بھی کر لی کہ چاروں طرف کتابوں کی الماریاں لگی تھیں۔ لائبریری میں بڑی خاموشی رہتی اور بڑا ادبی قسم کا ماحول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا رنگون کی آوارہ گردیوں سے واپس آیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لائبریری میں کام کرنے کا پہلے کوئی تجربہ ہے؟ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا… ’’جی ہاں! میں رنگون ریڈیو اسٹیشن کی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین تھا۔ حالانکہ مجھے لائبریری کے ٹیکنیکل کام کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ جہانگیر صاحب نے کچھ کتابیں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا…
’’ان کی کیٹے لاگنگ کر دو۔‘‘”

"میری بلا جانے کہ کیٹے لاگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ میں کتابیں سامنے رکھ کر یونہی ان کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ جہانگیر صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ میں اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ کام بالکل نہیں آتا لیکن اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو والد صاحب مجھے بہت ماریں گے۔ مسٹر جہانگیر بڑے شریف النفس اور درد مند انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کیئرٹیکر کی نوکری دے دی۔ میرا کام کتابوں کو اٹھا کر الماری میں رکھنا اور نکالنا تھا۔ مجھے لائبریری کا ماحول اور اسلامیہ کالج کے لمبے خاموش ٹھنڈے برآمدوں میں چلنا پھرنا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن یہ نوکری بھی میں نے دو مہینے کے بعد چھوڑ دی۔”

"پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔”

"پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔ میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے تھے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن ٹاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی۔”

1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

ایک جگہ اے حمید لکھتے ہیں، ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی، کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں۔‘‘

انھوں نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں‌ بھی یادگار چھوڑیں۔ اے حمید کی چند مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

پالتو بلی گھر میں آگ لگنے کا سبب بن گئی

0

چین کے صوبے سیچوان میں پالتو بلی کی غلطی سے گھر میں آگ بھڑک اٹھی اور مالکن کا لاکھوں کا نقصان ہوگیا۔

بلی پالنے کا شوق اکثر لوگوں کو ہوتا ہے اور وہ ان سے کافی مانوس ہوتے ہیں، اس کے ساتھ کھیلتے ہیں لیکن بلی کو گھر پر اکیلے چھوڑ کر جانا خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ چین میں پیش آیا جہاں پالتو بلی نے مالکن کا ایک لاکھ یوآن (36 لاکھ 73 ہزار سے زائد پاکستانی روپوں) کا نقصان کروا دیا۔

رپورٹ کے مطابق مالکن گھر سے باہر گئی ہوئی تھیں اس دوران بلی سے غلطی سے انڈکشن ککر کا بٹن دب گیا اور گھر میں آگ بھڑک اٹھی۔

تاہم فائر فائٹرز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے آگ پر قابو پالیا بعدازاں مالکن کو واقعے کی اطلاع دی گئی۔

فائر فائٹرز نے بلی کو بھی ریسکیو کرلیا لیکن گھر کا قیمتی سامان جل کر خاکستر ہوگیا جس کی قیمت میں 36 لاکھ 73 ہزار سے زائد پاکستانی روپے بنتی ہے۔

واقعے کی پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے صارفین کی جانب سے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’شکریہ، میں اپنے الیکٹرک ککر کو بند کرکے رکھوں گی کیونکہ میرے فلیٹ میں ایک شرارتی بلی گھومتی رہتی ہے۔‘

دوسرے صارف نے لکھا کہ ’میری بلی کی وجہ سے مجھے پانی کا زائد بل ادا کرنا پڑا تھا۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا

0

سی اے اے نے اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے عالمی ہوا بازی کی تنظیم اکاو کے یونیورسل ایوی ایشن سیکیورٹی آڈٹ میں کامیابی حاصل کرلی۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان سول ایویشن نے باآسانی نئے (آئی کیو) بینچ مارک/ معیار 2023 اہداف کو حاصل کیا۔ سول ایویشن (آئی کیو) 2030 کے بیشتر گولز/ مقاصد حاصل کرنے میں بھی کامیابی رہی۔

آئی کیو کا 2023 کے لیے 80 فیصد ہدف مقرر کیا گیا تھا جبکہ پاکستان نے 86 اعشاریہ 73 فیصد کے اسکور سے کامیابی حاصل کی۔ سول ایویشن کا سال 2023 کے لیے یہ اسکور آئی کیو 2030 کے ہدف 90 فیصد کے بہت قریب ہے۔

شہری ہوابازی کی بین الاقوامی تنظیم ICAO نے فروری میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی کا دس روزہ ایوی ایشن سیکیورٹی آڈٹ کیا تھا۔

اس آڈٹ کا مقصد گلوبل ایوی ایشن سیکیورٹی کے معیار کی مسلسل مانیٹرنگ اور آڈٹ کے ذریعے بہتر بنانا ہے۔

اس آڈٹ کی کامیابی نیشنل ایوی ایشن سیکیورٹی ایکٹ 2023 اور ایئرپورٹس عملے، ایئر لائنز، کارگو ایجنٹس، گراؤنڈ ہینڈلرز اور اے ایس ایف کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔

یہ 5 کھانے دوبارہ گرم ہرگز نہ کریں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

0

عام طور پر تقریباً ہر گھر میں ایک وقت میں تیار کیا گیا کھانا دوسرے وقت پر گرم کرکے کھایا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کیا ہوتا ہے؟

آج کے مضمون میں کچھ ایسے ہی چند پکوانوں کا ذکر کیا جارہا ہے جنہیں دوبارہ گرم کرکے کھانا صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔

اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کچھ کھانوں کو جب دوبارہ گرم کیا جاتا ہے تو ان میں موجود غذائیت کی کمی ہونے کے ساتھ کچھ زہریلے مادے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جس کے سبب یہ کھانے مضر صحت ہوجاتے ہیں۔

 انڈے آلو

انڈے

انڈے کو گرم کرنے سے اس میں سالمونیلا نامی مضر صحت بیکٹیریا پیدا ہوجاتا ہے۔بہتر یہی ہے کہ اسے تازہ ہی کھایا جائے، جبکہ دوسری صورت میں اسے کھانا ہاضمے کو متاثر کرسکتا ہے۔

چائے کے شوقین

چائے

چائے کو دوبارہ گرم کرکے پینا نہ صرف اس کے ذائقہ کو خراب کر دیتا بلکہ اس میں پولی فینولز اور کیٹاچین نامی مرکبات بھی خارج ہونے لگتے ہیں جو ہاضمہ کی خرابی کا سبب بن کر ڈائریا اور گیس جیسی دوسرے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔

کھمبی

مشروم

مشروم میں پروٹین کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے اگر اسے درست طریقے سے نہ رکھا جائے تو یہ پروٹین اینزائم اور بیکٹیریا میں ٹوٹ جاتا ہے، یہی وجہ ہے جب اسے گرم کیا جاتا ہے تو یہ بیکٹیریا کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے جس ہاضمے کے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔

آلو

آلو

پکے ہوئے آلو اگر گھر کے درجہ حرارت میں رکھے ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں جب انہیں دوبارہ گرم کیا جاتا ہے تو اس میں سولانائن نامی زہریلا مرکب بننا شروع ہوجاتا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں ہیں کہ پکے ہوئے آلو دوبارہ گرم کر کے استعمال کریں تو انہیں فریج میں رکھیں اور پھر گرم کر کے استعمال کریں۔

پالک

مشروم کی طرح پالک میں بھی نائٹریٹس موجود ہوتا ہے گرم کرنے پر نائٹرائٹس میں تبدیل ہوجاتا ہے، نائٹرائٹس کارسوجینک بننے میں مدد دیتا ہے اس اگر آپ کے پاس بچا ہوا پالک موجود ہے تو اسے ٹھنڈا یا کمرے کے درجہ حرارت میں رکھا ہی کھا لیں گرم کرنے سے گریز کریں۔

سونیا حسین نے اپنی فٹنس کا راز بتا دیا

0
سونیا حسین

شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ سونیا حسین نے اپنی فٹنس کے راز سے پردہ اٹھا دیا۔

اداکارہ سونیا حسین نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے پروگرام میں شرکت کی جہاں میزبان نے ان سے خوبصورتی اور فٹنس سے متعلق سوال کیا۔

میزبان نے سوال کیا کہ جتنا میں آپ کو جانتی ہوں آپ اپنی ڈائٹ بہت اچھے سے فالو کرتی ہیں، کیا ابلے ہوئے انڈے اور سوکھے پتے کھاتی ہیں؟

اداکارہ نے بتایا کہ فی الحال سخت ڈائن پلان سے بریک لے لیا ہے روزانہ اس پر عمل کرنے سے میرا موڈ خراب رہنے لگا تھا، میں اپنے مزاج کو کام پر اثر انداز نہیں ہونے دے سکتی اور اسی وجہ سے اب اپنی ڈائٹ میں کاربوہائیڈریٹس بھی شامل کرلیے ہیں۔

سونیا حسین کا کہنا تھا کہ میں ہفتے میں دو بار ڈائٹ پلان چھوڑ کر اپنی پسند کا کھانا کھاتی ہوں جس میں بریانی اور حلیم شامل ہے۔

اداکارہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کھانے کی بہت شوقین ہیں اور سب کچھ شوق سے کھاتی ہیں۔

اس سے قبل ایک انٹرویو سونیا حسین کا کہنا تھا کہ میں کسی اداکار سے تو بالکل شادی نہیں کرسکتی کیونکہ اداکار خود میں کافی زیادہ مگن رہتے ہیں کہ میری جلد کیسی لگ رہی ہے اور میرے بال کیسے لگ رہے ہیں۔

اداکارہ کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ہی اس طرح اپنے آپ میں مگن رہیں گے تو کوئی ایک دوسرے پر توجہ نہیں دے سکے گا اور پھر رشتے میں کافی مشکلات پیش آئیں گی۔

واضح رہے کہ سونیا حسین نے اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’تیرے بنا میں نہیں‘ میں منفی کردار نبھایا تھا جس کی مرکزی کاسٹ میں عائزہ اعوان اور شہزاد شیخ شامل تھے۔