ممبئی: بھارت کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کرائم ویب سیریز ’مرزاپور‘ کے تیسرے سیزن کا انتظار کرنے والے مداحوں کیلیے بُری خبر آگئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پرائم ویڈیو انڈیا کی جانب سے انسٹاگرام پر مختصر ویڈیو شیئر کی گئی جس میں اداکار پرمود پاٹھک کو آم کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پرمود پاٹھک نے ویب سیریز میں جے پی یادو کا منفی کردار ادا کیا۔ ویڈیو میں ان سے تیسرے سیریز کی ریلیز سے متعلق سوال کیا جاتا ہے وہ 22 اگست 2024 کی تاریخ بتاتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تاریخ بالکل طے ہے تو سامنے سے کہتے ہیں کہ ’لکھ کر لے لو، یہ سیاستدان کا وعدہ ہے‘۔ ’مرزاپور 3‘ کو جون میں ریلیز کیا جانا تھا لیکن اب اس کیلیے اگست تک انتطار کرنا پڑے گا۔
رواں سال مارچ میں ویب سیریز کے تیسرے سیزن کی پہلی جھلک ایک تقریب میں شیئر کی گئی تھی۔ تیسرے سیزن کا اعلان اس کی کاسٹ میں شامل علی فضل، پنکج ترپاٹھی اور شویتا ترپاٹھی سمیت دیگر ستاروں کی موجودگی میں کیا گیا تھا۔
تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے اداکار علی فضل نے کہا تھا کہ ’مرزا پور 3‘ اپنے ڈیبیو سیزن کی طرح جوہر برقرار رکھے گی، جہاں نئے کردار متعارف کروائے جائیں گے وہیں کچھ پرانے بھی بچھڑیں گے۔
’مرزاپور 3‘ کی شوٹنگ مہینوں پہلے مکمل ہوئی تھی اور تب سے شائقین اس کی ریلیز کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ سیریز کا پہلا سیزن 16 نومبر 2018 کو ریلیز ہوا تھا جبکہ اس کا دوسرا سیزن اکتوبر 2020 میں آیا۔
تیسرے سیزن میں ’منا بھائی‘ کی واپسی سے متعلق پروڈیوسر نے بتایا تھا کہ بدقسمتی سے منا ترپاٹھی اس طرح سیریز میں واپس نہیں آ سکتے ہیں جس طرح لوگ توقع کر رہے ہیں تاہم ویب سیریز میں کچھ ایسا دلچسپ ہے جس کیلیے مداحوں کو انتظار کرنا پڑے گا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ تیسرے پارٹ میں کچھ ایسا ہے جہاں منا بھیا دوبارہ اسکرین پر واپس آ سکتے ہیں۔
ویب سیریز کے پہلے سیزن میں خطرناک گینگسٹر کا کردار نبھانے پر اداکار دیوینندو کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی، تاہم دوسرے سیزن میں منا بھیا کی ہلاکت سے مداحوں صدمہ پہنچا تھا، یہی وجہ ہے کہ تیسرے سیزن میں ان کی واپسی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حرا خان نے کہا ہے کہ میرا اور شوہر کا جو رشتہ ہے اس میں کوئی لڑکا لڑکی نہیں ہے۔
ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے حرا خان کا اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے رشتے میں کوئی لڑکا لڑکی ہے ہی نہیں، ارسلان مجھے ہمیشہ کہتے ہیں کہ آپ کی شادی ایک کام کرنے والی لڑکی سے ہورہی ہے تو آپ ایک آدمی سے شادی کررہے ہو۔
انھوں نے بتایا کہ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ اگر آپ سوچو گے کہ وہ ایک لڑکی ہے تو پھر کام نہیں چلے گا، ہم اپنے اس رشتے میں برابر کے پارٹنر ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ عورت کی عزت اور اس کی ذمہ داریاں سب اپنی جگہ ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ ہم برابر ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل حرا نے ساتھی اداکار ارسلان خان سے شادی کی وجہ بتائی تھی، ایک ویب شو میں شرکت کے دوران انھوں نے شوہر کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ اگر میں نے ارسلان سے شادی نہ کی ہوتی تو شاید میں زندگی میں طویل عرصے تک شادی نہ کرتی۔
اداکارہ نے کہا کہ ارسلان نے میرا زندگی کے مشکل مرحلے میں ساتھ دیا جس کی وجہ سے میں جذباتی طور پر مضبوط رہی اور اسی لیے میں نے انھیں اپنا شریک حیات منتخب کیا۔
خیال رہے کہ اداکارہ حرا اور اداکار ارسلان خان گزشتہ برس فروری میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔
مارکس اور اس کے ہم خیالوں کا یہ تصور بہت صحیح ہے کہ ایک خارجی دنیا کی عملی تشکیل و تخلیق، ایک غیرنامیاتی بے جان عالمِ عناصر کو حسبِ مراد صورت دینا اور اس میں نئی زندگی پیدا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نوعِ حیوانی کا ایک ذی ارادہ ارتقائی رکن ہے۔
وہ (انسان) حیوانات میں ایک ایسی مخلوق ہے جس کی تخیل یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جائے جیسا کہ خود اپنی ذات کے ساتھ اور اپنی ضرورتوں کی طرح اپنے تمام ہم جنسوں کی ضرورتوں کا رفیقانہ احساس رکھا جائے۔ یہ شرف کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں اور اگر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جا سکتا ہے تو اسی بنا پر دنیا میں اور بہت سے جانور ہیں، مثلا شہد کی مکھیاں، مٹے، دیمک اور بھڑ اور چڑیوں میں بیا وغیرہ جو کافی تخلیقی یا تعمیری قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت بے ساختہ اس سے کام لیتے ہیں۔ وہ چھتے، اور گھونسلے ایسی فن کارانہ خوش اسلوبی کے ساتھ بناتے ہیں کہ انسان ان کی نقل بھی نہیں اتار سکتا۔
لیکن یہ ادنی درجے کے جانور جو کچھ کرتے ہیں اپنی ذاتی یا زیادہ سے زیادہ اپنی اولاد کی فوری ضرورتوں کو رفع کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں یک طرفہ ہوتی ہیں۔ انسان کے مساعی اجتماعی قدر لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ حیوانات جو کچھ کرتے ہیں، اپنی قدرتی جسمانی ضرورتوں کے تقاضوں سے مجبور ہو کر کرتے ہیں اور انسان یعنی مہذب انسان اپنی جسمانی ضرورتوں سے آزاد ہو کر تخلیقی فن کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بہترین تخلیق اس وقت کر سکتا ہے جب کہ اس کی ادنی حیوانی ضرورتیں آسودہ ہو چکی ہوں اور وہ ان کے ترددات سے فراغت پا چکا ہو، غیرانسانی مخلوقات اپنی اپنی ذاتوں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے کو پھر سے پیدا کرسکتی ہیں اور انسان سائرِ کائنات کو پھر سے پیدا کر سکتا ہے۔
دوسرے جانوروں کی تخلیقی کوششیں ان کی جسمانی خواہشوں اور ضرورتوں سے براہِ راست متعلق ہوتی ہیں، یعنی وہ اپنے فطری مطالبات کے غلام ہوتے ہیں، برخلاف اس کے انسان اپنی تخلیقات کا پورے احساس و فکر اور مکمل آزادی کے ساتھ سامنا کر سکتا ہے اور ان پر نگاہِ بازگشت ڈال سکتا ہے جو خود اپنی جگہ ایک نئی تخلیقی حرکت ہے۔ جانور صرف اپنی نوع کی ضرورت کو اپنی تخلیقات کا پیمانہ بناتے ہیں، انسان ہر نوع کی ضرورت کے مطابق اور ہر وقت ہر موقع پر موضوع کے اعتبار سے نئے پیمانے مہیا یا ایجاد کر سکتا ہے۔ دوسرے حیوانات کی فنی تخلیق میں جو حسن ملتا ہے وہ اضطراری طور پر اس کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ انسان کو اس حسن کا نہ صرف شعور بلکہ درک بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادے اور اپنی قوت سے اس حسن کو اور زیادہ حسین و جمیل بنا سکتا ہے۔ انسان کی فن کاری نہ صرف ایک مفروضۂ حسن کا اظہار ہوتی ہے بلکہ حسن کے اندرونی ناموس کے مطابق خوب سے خوب تر کی جستجو اور اسے پانے کا نام انسانی لغت میں فن کاری ہے۔
حسن کے وجود اور اس کی اثر آفرینی سے آج تک کوئی انکار نہیں کر سکا ہے۔ لیکن یہ حسن ہے کیا؟ اس سوال نے بڑے بڑے اہل فکر و بصیرت کو حیران رکھا ہے۔ شہرۂ آفاق سائنس داں اور نظریۂ ارتقا کا مبلغ ڈارون مور کی دُم کا راز نہ سمجھ سکا۔ مور کی دم پر اس قرینے کے ساتھ گل کاریاں ہوتی ہیں؟ اس سوال نے ڈارون کی عقل کو چکر میں ڈال رکھا تھا، وہ زندگی کے ہر مظہر کو جہدُالبقا، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح کی روشنی میں سمجھنا چاہتا تھا لیکن محض حیاتیاتی مقصد کے ماتحت حسن یعنی قرینہ یا آہنگ کی تاویل نہیں کی جا سکتی۔
مور کی دُم میں اس توازن اور تناسب کے ساتھ خطوط و الوان کا التزام نہ ہوتا تو بھی حیاتیاتی غرض یعنی نسل کی افزائش اور اس کی بقا کا مقصد تو پوراہی ہوتا رہتا۔ قدرت نے اپنے تخلیقی نظام میں یہ جمالیاتی اسلوب کیوں ملحوظ رکھا؟ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے تاوقتیکہ ہم یہ نہ تسلیم کر لیں کہ قدرت کے اندر وہ آہنگ طبیعی طور پر موجود ہے جسے ہم حسن کہتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ حیوانی اور نباتاتی اور بہ ظاہر بے جان جماداتی دنیا بھی ایک جمالیاتی رخ رکھتی ہے۔ جہاں کہیں بھی زندگی کی قوت ہے وہاں یہ حسن بھی موجود ہے اور زندگی کی بقا اور فروغ کا ضامن ہے۔
متقدمین سے لے کر آج تک لوگ حسن کو بلاوجہ ایک غیر ارضی چیز سمجھتے رہے ہیں اور جو چیز کہ سر بسر انسانی دنیا کی پیداوار ہے اس کو خواہ مخواہ ایک دیو لوک سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ اس ماورائیت نے حسن کو ایک سدیمی (Nebulous) شکل بنا کر رکھ دیا ہے۔ افلاطون نے حقیقت، خیر اور حسن کی سہ گانہ تقسیم کر کے ایک عرصہ تک دنیا کو مبہوت رکھا، لیکن وہ خود بڑی الجھن میں تھا۔ اگر ہم غور سے مطالعہ کریں تو اس کے بیان سے زیادہ اس کے بعض وقت کے سکوت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نظریۂ تصورات کی وجہ سے اپنے نظامِ فکر میں بہت سے تناقصات محسوس کرتا ہے۔ حسن کے بارے میں بھی اس کو اپنی عدم وضاحت کا احساس تھا۔ اس نے عالمِ مثال یا عالمِ تصورات میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس عالمِ اجسام سے باہر ایک عالم ہے، جہاں ہر شے کا ایک ازلی تصور یا نمونہ موجود ہے۔ عالم موجودات کی ہر شے اپنے تصور کی ایک ناقص نقل ہوتی ہے۔ پھر ان تصورات سے بلند اور سب پر احاطہ کئے ہوئے تصورات کا تصور، یا تصورِ اعلیٰ ہے۔ حسن اور خیر اور حقیقت اس تصور اعلیٰ کے تین مختلف رخ ہیں جو عالم اجسام میں الگ پائے جاتے ہیں۔
افلاطون کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرشد سقراط کی طرح حسن کو حقیقت اور خیر کے ماتحت تصور کرتا تھا۔ اس جگہ ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ ہم سقراط اور افلاطون اور ان کے متبعین کے نظریہ تصورات سے آج ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ لیکن ان لوگوں کے بعض متفرق اقوال ایسے ہیں جو حقیقت کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جنہیں آج بھی ہم تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے، مثلاً حسن کے بارے میں سقراط کے دو اقوال ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ حسن وہ چیز ہے جو لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو، دوسرا یہ ہے کہ حسن اس چیز کا نام ہے جو کسی غرض کو پورا کرے اور غرض سے مراد عملی مفاد ہے۔ آج ہم حیرت کر سکتے ہیں کہ جس مفکر نے حیات اور کائنات کے سارے نظام کی بنیاد مادی اور عملی دنیا سے الگ تصورات پر رکھی ہو وہ حسن کا ایسا افادی نظریہ کیسے پیش کر سکا۔
بعد کے اشراقیوں اور صوفیوں نے اسی تصور یا عالمِ مثال کے نظریہ کو اور زیادہ وسعت دی اور ہر ترقی یافتہ زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور مفکروں نے اس سرابی بنیاد پر رنگ برنگ کی نازک اور دل پذیر عمارتیں تیار کیں اور ان لوگوں نے لافانی حسن، ازلی حسن، لاہوتی حسن، حسن مطلق، حسن حقیقی وغیرہ جیسے بت تراشے جن کے آگے سر جھکانے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ کیٹس نے حسن کو حقیقت اور حقیقت کو حسن بتایا اور اسی کے اظہار کو شاعری کہا۔ بیدل بھی حسنِ حقیقت کے قائل ہیں یعنی حسن اور حقیقت کو ایک سمجھتے ہیں اور ہر وقت اور ہر جگہ اسے سامنے موجود مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی جستجو نہ کرنا ہی اس کو پانا ہے۔
حسن کے اس پراسرار تصور نے فکر و احساس کی دنیا میں بڑی بڑی نزاکتیں پیدا کیں اور اس کی بدولت شاعری اور دوسرے فنونِ لطیفہ کے ایسے ناقابلِ فراموش کارنامے وجود میں آئے جن کی تواریخی قدر ہمیشہ مسلّم رہے گی۔
(معروف ادیب، نقاد اور مترجم مجنوں گورکھپوری کے مضمون حسن اور فن کاری سے اقتباسات)
کراچی میں ٹریفک پولیس اہلکار شہری کو موٹر سائیکل سمیت لفٹر میں ڈال کر لے گئے جس کی ویڈیو بھی منظرعام پر آگئی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے صدر میں پاسپورٹ آفس کے قریب ٹریفک پولیس اہلکار اور لفٹر کے عملے نے شہری کو موٹر سائیکل سمیت گاڑی میں ڈالا اور ساتھ لے گئے۔
شہری اپنی موٹر سائیکل اٹھانے سے منع کرتا رہا لیکن ٹریفک پولیس اہلکار نے اس کی ایک نہ سنی۔
واقعہ گزشتہ روز پیش آیا تھا جس کے بعد ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز نے متعلقہ ڈی ایس پی ٹریفک کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہری پہلے لفٹر کے آگے لیٹ گیا تھا بعد میں وہ موٹر سائیکل پر ہی بیٹھ گیا۔
پولیس کا بتانا ہے کہ شہری کو چوکی پر معافی نامہ جمع کروانے کے بعد موٹر سائیکل واپس کردی گئی ہے۔
بقایاجات کی اقساط کرانے والوں کو اب اقساط کی سہولت سے محروم کر دیا گیا۔ صارفین بجلی بلوں کی قسط وار ادائیگی کے ریلیف سے محروم ہو گئے۔
نیپرا نے بجلی صارفین کےلیے بلوں کی قسط کرانے کی سہولت محدود کر دی۔ بجلی صارفین اب سال میں صرف ایک ہی بار بِل کی قسط کراسکیں گے۔
اس حوالے سے نیپرا نے کنزیومر سروس مینوئل میں ترمیم کرتے ہوئے تمام بجلی کمپنیوں کو احکامات جاری کر دئیے۔ نیپرا نے ہدایت کی ہے کہ قسط کرانے کی صورت میں نیا بل کمپیوٹرائز ڈبل ہی جاری کیا جائے۔
نیپرا کا کہنا ہے کہ کےالیکٹرک صارفین پر بھی نئےکنزیومر سروس مینول کا اطلاق ہو گا۔
نئی دہلی: بھارت کے لوک سبھا الیکشن 2024 میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے نریندر مودی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو واضح شکست اور اپنی جیت کا دعویٰ کر دیا۔
کانگریس رہنما راہول گاندھی نے سونیا گاندھی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ واضح ہوگیا انتخابات میں ہمیں مینڈیٹ ملا ہے جبکہ انتخابی نتائح بی جے پی کی واضح ہار ہے۔
راہول گاندھی نے کہا کہ عوام نے نریندر مودی اور اس کی نظریے کو مسترد کر دیا، ’بھارت جوڑو یاترا‘ انتخابات میں جیت کی بڑی وجہ ہے، لڑائی آئین کو بچانے کی تھی اور عوام نے نریندر مودی کو جواب دے دیا، انہیں واضح شکست ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے ڈرانے اور دھمکانے کے سوا کچھ نہ کیا، انہوں نے ہمارے اکاؤنٹس بند کیے اور چیف منسٹر کو جیل میں ڈالا، مجھے یقین تھا بھارتی عوام ایک ساتھ کھڑے ہو کر لڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف بی جے پی نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری کے خلاف الیکشن لڑے، خفیہ ایجنسیاں، بیورو کریسی اور آدھی عدلیہ بھی ہمارے خلاف تھی، ہماری لڑائی بھارتی آئین کو بچانے کی تھی اور عوام ہمارے ساتھ تھی، انتخابات میں ہماری واضح کامیابی جمہوریت کی جیت ہے۔
راہول گاندھی نے کہا کہ بھارتی عوام کا شکر گزار ہوں کہ آئین بچانے کا پہلا قدم اٹھا لیا ہے، بھارتی آئین بچانے کا کام غریب عوام، مزدوروں اور کسانوں نے کیا، کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ہو کر لڑے تمام اتحادیوں کی عزت کی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے فیصلہ دے دیا مودی نہیں چاہیے، انڈیا اتحاد نے الیکشن میں بھارتی آئین کو بچا لیا، بی جے پی نے پارٹیاں توڑیں اور سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا لیکن پھر بھی کامیاب نہ ہوئے۔
پریس کانفرنس میں راہول گاندھی نے کہا کہ حکومت بنانے یا نہ بنانے سے متعلق اتحادیوں کی میٹنگ میں فیصلہ کریں گے، انڈیا اتحاد کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے قبول کریں گے۔
سابق آسٹریلوی اوپنر میتھیو ہیڈن کا کہنا ہے کہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم ویرات کوہلی سے اوپننگ کروائے یا پھر انہیں نہ کھلائے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم اپنا پہلا میچ 5 جون کو آئرلینڈ کے خلاف کھیلے گی جبکہ 9 جون کو پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدمقابل آئیں گی۔
ای ایس پی این سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آسٹریلوی کرکٹر میتھیو ہیڈن نے کہا کہ ویرات کوہلی سے بھارت یا تو اوپننگ کروائے یا پھر انہیں نہیں کھلائے۔
انہوں نے ویرات کوہلی کی بیٹنگ کی تعریف کی اور کہا کہ روہت شرما بھی ایک تجربہ کار کھلاڑی ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ انہیں مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرنے میں کوئی مسئلہ ہوگا۔
میتھیو ہیڈن نے کہا کہ روہت شرما کا ٹی 20 انٹرنیشنل میں ریکارڈ اچھا ہے وہ چار نمبر پر بیٹنگ کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب سارو گنگولی نے بھی کہا کہ ویرات کوہلی سے ورلڈ کپ میں اوپننگ کروانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئی پی ایل میں ویرات کوہلی کی بیٹنگ دیکھنے لائق تھی آپ کو انہیں ورلڈ کپ میں اوپننگ کروانی ہوگی۔
گنگولی نے مزید کہا کہ بھارت کا ورلڈ کپ کا اسکواڈ اچھا ہے، بیٹنگ اور بولنگ میں بہترین کمبی نیشن ہے۔
اسلام آباد: ملک کی بگڑی ہوئی معاشی صورتحال میں سیمنٹ سیکٹر سے اچھی خبر آئی ہے کہ مئی 2024 کے دوران اس کی ایکسپورٹ (برآمد) میں زبردست اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق سیمنٹ برآمد 72.16 فیصد نمایاں اضافہ سے 9 لاکھ 17 ہزار 962 ٹن رہی جبکہ مئی 2023 میں اس کی ایکسپورٹ 5 لاکھ 33 ہزار 215 ٹن رہی تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق سیمنٹ کی فروخت میں مئی 2024 کے دوران 7.83 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، اس کی مجموعی فروخت مئی 2024 میں 4.275 ملین ٹن رہی جبکہ مقامی فروخت 3.357 ملین ٹن رہی۔
رواں سال 11 ماہ میں سیمنٹ کی مجموعی فروخت 41.730 ملین ٹن رہی جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کی مجموعی فروخت 40.516 ملین ٹن رہی تھی۔
ترجمان آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں مسلسل نویں ماہ بھی منفی نمو تشویش کا باعث ہے۔
اس سے قبل اپریل 2024 کے دوران اس کی فروخت 2.943 ملین ٹن رہی تھی جو گزشتہ سال اپریل میں 2.951 ملین ٹن رہی تھی۔ اس کی مقامی فروخت اپریل 2024 کے دوران 2.328 ملین ٹن رہی جو اپریل 2023 میں 2.531 ملین ٹن رہی تھی۔
فرانس میں فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کے طور پر روایتی فلسطینی رومال لینا خاتون کے لیے جرم بن گیا۔
پولیس نے روایتی فلسطینی اسکارف پہنے ایک خاتون کو حراست میں لیا اور جرمانہ کیا جسے کیفیہ کہا جاتا ہے۔ پولیس نے خاتون پر لیون میں ایک غیرقانونی مظاہرے کا حصہ ہونے کا الزام لگا کر کارروائی کا دعویٰ کیا ہے۔
کیفیہ دراصل کیا ہے؟ کیا یہ محض مشرق وسطیٰ کا ایک روایتی اسکارف ہے، فلسطینی مزاحمت کی علامت، یہودی برادریوں کے لیے ایک سمجھے جانے والا خطرہ، یا نفرت انگیز جرائم کا واضح ہدف؟
دنیا بھر میں کیفیہ مظلوم فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کے طور پر پہنا جارہا ہے لیکن اسرائیل کے اتحادی فرانس میں فلسطینیوں کی نشانی یا اظہاریکجہتی کے لیے کوئی علامت بھی قابل جرم بن گیا ہے۔
اس سے قبل بھی ایک 48 سالہ لینگویج ٹیچر کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا تھا جس پر انہوں نے حیرت اور سخت مایوسی کا اظہار کیا۔
فرید حمرت نامی ٹیچر نے پیرس کے دورے پر اپنا کیفیہ پہن رکھا تھا جہاں وہ سیلون مارجولین نامی نامیاتی کاشتکاری کی نمائش میں رضاکارانہ طور پر شرکت کرنے والے تھے لیکن چیزیں منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوئیں۔
پیرس میں اترنے کے اگلے دن وہ کیفیہ پہن کر اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلےاور ٹیکسی کا انتظار کر رہے تھے کہ اس دوران دو بھاری ہتھیاروں سے لیس پولیس اہلکاروں نے انہیں گھیر لیا۔
فرید نے TRT ورلڈ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے کہا، "اگر میں نے غلط اقدام کیا ہوتا تو وہ مجھے گولی مار دیتے۔
تلاشی کے بعد پولیس اہلکاروں نے اس کی شناخت اور پتہ پوچھا اور پھر بغیر کسی وضاحت کے اسے ہتھکڑیاں لگا کر قریبی پولیس اسٹیشن لے گئے۔
حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری کے کوٹے میں کمی کے بعد پاکستان میں کسان گزشتہ چند ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ صوبہ سندھ، اپنی فصل کی ابتدائی پیداوار کے ساتھ، مظاہروں کا مرکز رہا ہے، لیکن تعطل موجودہ سال وہاں گندم کی کٹائی مکمل ہونے کے دو ماہ بعد بھی برقرار ہے۔
سندھ میں قائم ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اکرم خاصخیلی نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “حکومت نے گندم کی خریداری کا ریٹ طے کیا تھا اور اسے گندم کے تھیلے براہ راست کسانوں کو جاری کرنے تھے، لیکن محکمہ خوراک کے کچھ اہلکار مبینہ طور پر یہ تھیلے کک بیکس کے عوض چھوٹے درجے کے تاجروں (پیڑھی) کو فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، پیڑھی والے کاشتکاروں سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ 100,000 روپے (360 امریکی ڈالر) فی 100 کلو گرام کے نرخ سے کم نرخوں پر گندم خرید رہے ہیں،” سرکاری خریداری مراکز کو گندم کی پیکنگ اور فروخت کے لئے گندم کے تھیلے جاری کئے جاتے ہیں۔
حکومتی ناکامیوں اور پہلے سے زیادہ غیر متوقع موسم کے امتزاج سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے
خاصخیلی نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے صورتحال پر بدانتظامی جاری رہی تو اس سے قیمتی فصلوں کو نقصان پہنچے گا، گندم کی دستیابی کے باوجود غذائی عدم تحفظ مزید بڑھے گا۔
عام طور پر، حکومت کی طرف سے کم سے کم امدادی قیمت پر پیداوار کے تقریباً 20 فیصد، یا 5.6 ملین ٹن گندم کی بڑی خریداری، خریدار کو کچھ پیداوار کا یقین دلاتی ہے اور مارکیٹ ریٹ مقرر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن موجودہ مسئلہ میں موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہے اور کس طرح یہ پاکستان کے زرعی شعبے کو بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔
2022 کے سیلاب کے بعد زرعی بحران کے دو سال
موجودہ بحران جولائی تا ستمبر 2022 کے اونچے درجے کےسیلاب سے جڑا ہے جس میں ملک کے ایک تہائی اضلاع ڈوب گئے۔ بتدریج گرم ہوتے سمندر سمیت بہت سے موسمی عوامل، کی وجہ سے شدید بارشیں ہوئیں، جس نے پاکستان کی 15 فیصد زرعی زمین کو معتدل یا شدید طور پر متاثر کیا۔
صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں جوہی جیسے علاقوں میں اس کا اثر کئی موسموں تک رہا۔ ابتدائی تباہی کے چھ ماہ بعد تک پانی بڑی مقدار میں ٹھہرا رہا۔ ایک بیراج بھی ڈھے گیا تھا، اور دو سال تک فعال نہ ہو سکا۔
44 سالہ طالب گدیہی اور ان کے بھائیوں، جو اس علاقے میں مل کر 350 ایکڑ (141 ہیکٹر) زرعی اراضی کے مالک ہیں، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ ان میں سے اکثر نے دو سالوں میں لگاتار چار موسموں تک اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے جدوجہد کی۔
گدیہی نے کہا کہ بیراج کے تباہ ہونے سے اندازاً 100,000 ایکڑ (40,469 ہیکٹر) متاثر ہوا، اور قابل کاشت زمین بنجر ہو گئی ہے۔ “اس صورتحال کے نتیجے میں علاقے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے،” انہوں نے مزید کہا۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے درآمدات بڑھ گئی ہیں
پاکستان بھر میں اس طرح کے اثرات نے ملک کو 2022 میں گلوبل ہنگر انڈیکس میں 99 ویں نمبر سے 2023 میں 102 ویں نمبر پر لانے میں کردار ادا کیا۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے جنوری 2024 کے تجزیے کے مطابق، غربت کی شرح 2022 میں 34 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 39 فیصد ہو گئی، جس کی بڑی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس سے غریب گھرانوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی کے مطابق، 10 ملین سے زیادہ لوگ “اپریل سے اکتوبر 2023 کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلی سطح کا سامنا کر رہے تھے”۔
گندم ملک کی بنیادی خوراک کا 72 فیصد بنتی ہے، اور غذائی تحفظ اور مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نگران حکومت نے 2024 کے قومی انتخابات سے قبل 2023 کے آخر میں گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس وقت تک زرعی شعبہ ٹھیک ہو چکا تھا، اور کسانوں کو معمول سے زیادہ پیداوار کی توقع تھی۔ تاہم، چونکہ حکومت پہلے ہی گندم درآمد کر چکی تھی، اس لئے اب وہ کسانوں سے کم خریدنا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے احتجاج شروع ہورہے ہیں۔”
اسلام آباد میں گلوبل کلائمیٹ چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی) میں زراعت، جنگلات اور زمین کے استعمال کے سیکشن کے سربراہ محمد عارف گوہیر نے مارچ میں احتجاج سے قبل، ڈائیلاگ ارتھ کو گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی وضاحت دی کہ یہ استطاعت کا مسئلہ ہے۔ اناج کی درآمد سے گندم کی قیمت میں گراوٹ آئی، ڈان کے مطابق، “3,000 روپے اور 3,100 روپے فی 40 کلوگرام کے درمیان جو کہ 2024-2025 کے سیزن کے لئے مقرر کردہ 3,900 روپے فی 40 کلو گرام کم سے کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے نمایاں طور پر کم ہے۔” لیکن اس کی وجہ سے دو سال کی سختی کے بعد اچھی کمائی کی امید رکھنے والے کسانوں کی طرف سے احتجاج شروع ہو گیا ہے۔
گوہیر نے کہا، “خوراک کی افراط زر اور تحفظ سے نمٹنے کا حتمی حل درست زراعت کو اپنانے اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے استعمال میں مضمر ہے۔”
لیکن ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے خاصخیلی نے بتایا کہ کسانوں کو اس سلسلے میں بہت کم یا کوئی اعانت نہیں ملتی۔ “شروع سے آخر تک، کاشتکار بے بس ہیں،” انہوں نے کہا۔ “کاشتکاروں کو معیاری بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنی فصلیں کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے فصل کی پیداوار اور غذائی تحفظ متاثر ہوتے ہیں۔”
بدانتظامی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے غذائی تحفظ کو خطرہ
مظاہرے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کی غیر معمولی درجہ بندی دونوں اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کی غذائی تحفظ اور سماجی استحکام کے لئے زرعی پالیسیاں کتنی اہم ہیں۔ بنیادی میٹرکس کے لحاظ سے، ملک نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1947-48 میں، گندم 3,953 ہیکٹر پر بوئی گئی تھی، جس سے 0.848 ٹن فی ہیکٹر پیداوار پر 3,354 ٹن گندم پیدا ہوا تھا۔ 2022-23 تک پاکستان میں 9,043 ہیکٹر پر گندم کی بوائی گئی، جس کی پیداوار 27,634 ٹن تھی جس کی اوسط پیداوار 3.056 ٹن فی ہیکٹر تھی۔
لیکن اگرچہ پاکستان اب دنیا میں گندم پیدا کرنے والا 7 واں بڑا ملک ہے، لیکن یہ انڈیکس منڈی کے مطابق گندم کی اوسط پیداوار کے لحاظ سے صرف 38 ویں نمبر پر ہے، جس کی اوسط پیداوار 3 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ نیوزی لینڈ اس وقت 10 میٹرک ٹن فی ہیکٹر کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ گندم کی اوسط پیداوار رکھتا ہے۔
فیڈرل منسٹری فار نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے تحت کلائمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورس انسٹی ٹیوٹ (سی ای ڈبلیو آر آئی) کے ڈائریکٹر بشیر احمد کے مطابق، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں ایک بڑھتا ہوا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا زرعی شعبہ آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کا 60-70 فیصد برف پگھلنے اور گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے۔
ستمبر 2022 میں، ایک کسان پاکستان کے کوئٹہ کے قریب سیلاب سے تباہ شدہ باغ میں سڑے ہوئے سیب جمع کر رہا ہے۔ گرمی کی لہروں اور سیلاب سے بارشوں بدلتے پیٹرن اور برفانی تودوں کے غیر متوقع پگھلنے تک، موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیائی ملک میں کسانوں کے لیے زندگی مشکل بنا رہی ہیں (تصویر بشکریہ ارشد بٹ/الامی)
احمد نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ اس کے علاوہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے پانی کی دستیابی اور ذخیرہ کو متاثر کیا ہے، شدید اور مختصر دورانیے کی بارشیں مٹی کے کٹاؤ کا باعث بنتی ہیں۔ اس نے پوٹھوہار کے علاقے اور ملک کے شمالی حصوں میں بارش پر منحصر زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
“مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن کے نتیجے میں مختلف فصلوں پر 6-15 فیصد اثر پڑا ہے، خاص طور پر بارش سے چلنے والی فصلیں جیسے گندم، جس میں 15 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا تعلق گرمی کی لہروں اور سیلاب کے اثرات سے نہیں ہے،” احمد نے مزید کہا۔
احمد نے کہا کہ گلگت بلتستان جیسے سرد علاقوں میں، نارنگی جیسے پھل ٹھنڈ کے ناکافی اوقات کی وجہ سے جلدی تیار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، آبپاشی کے لئے پانی کی سپلائی میں کمی نے پنجاب میں زیر زمین پانی پر انحصار بڑھا دیا ہے، جس سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔
حل موجود ہیں، لیکن سوال حکومت کی سپورٹ کا ہے
ویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سکرنڈ، سندھ میں زرعی سائنس کے ڈائریکٹر اور ایگریکلچرل سائنٹسٹ ظفر علی کھوکھر تجویز کرتے ہیں کہ مقامی بیج کی اقسام اپنی موجودہ پیداواری صلاحیت کو دوگنا کر سکتی ہیں۔ تاہم، معیاری بیج کی تیاری میں طلب اور رسد کے مسائل برقرار ہیں۔
کھوکھر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ، “ہمارے ادارے نے 80 من گندم فی ایکڑ (7.43 ٹن فی ہیکٹر) پیدا کرنے والی اقسام تیار کی ہیں، جو مسلسل استعمال سے ثابت ہیں۔ بیج کی ضروری فراہمی کو یقینی بنانا ذمہ دار مینوفیکچررز کے ہاتھوں میں ہے۔ فی الحال، بیج کی کل طلب کا صرف 30 فیصد اعلی پیداوار والے گندم کے بیجوں پر مشتمل ہے، جو حکومتی یا نجی کمپنیاں فراہم کرتے ہیں۔
عامر حیات بھنڈارا، جنہوں نے 2023 میں زراعت کی پیداوار میں بہتری کے لیے وزیر اعظم کی کمیٹی کے رکن کے طور پر کام کیا، نے اس بات پر زور دیا کہ اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ “اگر ماضی کی حکومتیں زراعت کے شعبے میں انتہائی اہمیت کے باوجود جدید تکنیک، ٹیکنالوجی اور انکی کسانوں تک رسائی پر توجہ دینے کو ترجیح نہیں دے سکیں، تو اب وقت آگیا ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔”
ذوالفقار کنبھر کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوئی تھی جسے یہاں پڑھا جاسکتا ہے