جمعہ, جون 27, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 822

750 مالیت پرائز بانڈ کا بمپر پرائز کس نے حاصل کیا، اگلی قرعہ اندازی کب؟

0

750 روپے مالیت کے پرائز بانڈ کی آئندہ قرعہ اندازی نیشنل سیونگ سینٹر پشاور میں ہو گی جو 15 اپریل کی صبح 10 بجے کی جائے گی۔

رواں سال 750 روپے مالیت کے پرائز بانڈ کی دوسری قرعہ اندازی پشاور میں منعقد ہوگی۔ 15 اپریل کی صبح 10 بجے نیشنل سیونگ سینٹر میں ہوگی۔ قرعہ اندازی کے بعد مرکز کی جانب سے انعامات جیتنے والے تمام خوش نصیبوں کی فہرست جاری کرے گا۔

750 پرائز بانڈ کے انعامات کی مالیت درج ذیل ہے۔

پہلا انعام (جیک پاٹ): 15 لاکھ روپے (ایک فاتح)

دوسرا انعام: 5 لاکھ روپے (3 فاتحین)

تیسرا انعام: 9,300 روپے (1,696 فاتحین)

انعامات جیتنے والے نیشنل سیونگز کی قریبی برانچوں میں جا کر اپنا انعام حاصل کر سکتے ہیں۔

اس سے قبل رواں برس 2025 کی پہلی قرعہ اندازی ماہ جنوری میں منعقد ہوئی تھی۔ اس قرعہ اندازی میں 15 لاکھ مالیت کا پہلاانعام پرائز بانڈ نمبر 271541 نے جیتا تھا۔

5 لاکھ روپے مالیت کا دوسرا انعام جن تین خوش نصیبوں نے جیتا۔ ان کے پرائز بانڈز نمبر 317904,496553 اور 800663 ہیں۔

جنوری 2025 میں ہونے والی قرعہ اندازی کی مکمل فہرست دیکھنے کے لیے کلک کریں۔

واضح رہے کہ پرائز بانڈ کو پاکستان میں بچت کی سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسے کسی بھی وقت کیش کیا جا سکتا ہے اور یہ میگا کیش پرائز جیتنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

ڈیجیٹل پرائز بانڈز کیسے خریدے جاسکیں گے؟ بڑی خبر آگئی

تمام تر تنقید کے باوجود سلمان خان کی فلم "سکندر” 200 کروڑ کمانے میں کامیاب

0

بالی ووڈ سپراسٹار سلمان خان کی عید پر ریلیز ہونے والی فلم "سکندر” نے ناقدین کی تمام تر تنقید کے باوجود 200 کروڑ روپے کا ہندہ عبورکرلیا۔

اس عیدالفطر پر بھی بالی ووڈ کے بھائی جان سلمان خان نے اپنے مداحوں کےلیے نئی فلم ریلیز کی تھی مگر پچھلے کئی سالوں کی طرح ان کی فلم ناقدین اور شائقین کی داد سمیٹنے میں بری طرح ناکام رہی تھی، اکثر لوگوں نے سلمان خان کی ایکٹنگ اور کہانی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تاہم تمام تر تنقید بھی سلمان بھائی کی فلم کو عالمی باکس آفس پر 200 کروڑ روپے کا ہندسہ عبور کرنے سے نہ روک پائی، فلم نے اپنی ریلیز کے 9 دنوں میں دنیا بھر سے 200.93 کروڑ بھارتی روپے سمیٹ لیے ہیں۔

فلم کے پروڈیوسر ساجد نڈیاڈ والا نے فلم کے 200 کروڑ روپے کمانے کی خبر انسٹاگرام پوسٹ میں شیئر کی، فلم نے پیر کو ہندوستان میں 2.48 کروڑ اور بیرون ملک 1 کروڑ روپے کمائے۔

پروڈیوسر نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ سکندر کو اپنے جشن کا حصہ بنانے کے لیے آپ کا شکریہ، ہم آپ کی محبت کے شکر گزار ہیں،”

سلمان خان کے مداح اس بات سے کافی پرجوش ہیں کہ فلم نے 10 دنوں سے پہلے ہی 200 کروڑ روپے کا ہندسہ عبور کر لیا ہے، سکندر نے بھارت میں اب تک 123 کروڑ روپے جبکہ بیرون ملک سے 77 کروڑ روپے کی کمائی کی ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی بہنیں دوبارہ اڈیالہ جیل ملاقات کے لیے جانے پر بضد

0
پی ٹی آئی

راولپنڈی: بانی پی ٹی آئی کی بہنیں دوبارہ اڈیالہ جیل ملاقات کے لیے جانے پر بضد ہیں۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق عمران خان کی بہنوں سمیت 11 کارکنان نے خود گرفتاری دے دی، بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنیں اور کارکنان شادی ہال کے لان میں بیٹھ گئے۔

صاحبزادہ حامد رضا، عالیہ حمزہ، شفقت اعوان بھی ساتھ موجود ہیں، نیاز اللہ نیازی، راجہ یاسر حسنین، حامد خان بھی عمران خان کی بہنوں کے ساتھ موجود ہیں۔

ایس ایچ او صدر بیرونی اعزاز عظیم نے علیمہ خانم اور دیگر بہنوں کو گھر جانے کی پیشکش کی ہے تاہم علیمہ خان بضد ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہماری بھائی سے ملاقات کروائی جائے نہیں تو ادھ رہی رہیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شادی ہال کے گیٹ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

دوسری جانب صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے عمران خان کی بہنوں سمیت کسی خاتون کو گرفتار نہیں کیا، علیمہ خانم ودیگر نے پولیس گاڑی سے ’آن لائن کار سروس‘ حاصل کی، وہ اور ہمنوا خود ہی پولیس وین میں بیٹھیں اور خواجہ سروس اسٹیشن پر اتر گئیں۔

انہوں نے کہا کہ فوٹیج سے اس ڈرامہ بازی کی اصلیت دکھائی دے رہی ہے، عمران خان سے جھوٹی ہمدردیاں دکھانے کے لیے فلاپ شو کیا گیا ہے۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ عمران خان شاہی انداز میں جیل کاٹ رہے ہیں، بشریٰ بی بی جیل میں بی کلاس ملنے کے باوجود بہترین سہولیات مانگ رہی ہیں۔

پکاسو: ایک باکمال مصوّر جو دنیا سے امن و سلامتی کا خواہاں تھا

0

پابلو پکاسو وہ شہرۂ آفاق مصوّر ہے جس کا نام دنیا میں امن کے پیام بر کی حیثیت سے بھی لیا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اس عظیم مصوّر کو لینن پرائز دیا گیا اور اس کے فن پارے مہنگے داموں فروخت ہوئے۔ 8 اپریل 1973ء کو پکاسو نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

ہسپانوی مصوّر پکاسو کو فنِ مصوّری میں اس کی انفرادیت نے آج بھی زندہ رکھا ہے اور اس اس کی تخلیقات دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں سجی ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے میوزیموں میں پکاسو کے شاہ کاروں کے لیے گوشہ مخصوص ہے۔

پابلو پکاسو 1881ء میں ملاگا، اسپین میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ایک آرٹ ٹیچر تھے۔ پکاسو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی ذہانت کا حامل طالب علم تھا۔ اس کا خاندان جس زمانے میں بارسلونا منتقل ہوا تھا، تب فرانس اور شمالی یورپ سے آرٹ اور اس فن کے متعلق نئے اور جدید تصورات پر مباحث شروع ہوچکے تھے۔ پکاسو کم عمری ہی میں ڈرائنگ میں‌ دل چسپی لینے لگا تھا۔ والد نے اپنے بیٹے کا شوق دیکھا تو اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے خاکہ نویسی اور ڈرائنگ سکھانا شروع کر دی۔ انھوں نے پکاسو کو آرٹ اکیڈمی میں داخلہ دلوایا۔ وہاں پکاسو نے باقاعدہ ڈرائنگ اور فائن آرٹ سیکھنے کے ساتھ بڑے بڑے مصوّرں کے بارے میں پڑھا اور ان کے فن کو جاننے کی کوشش کی۔ اس نے پکاسو میں بھی فن مصوّری میں نام پیدا کرنے کی جوت جگائی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب پکاسو تجریدی آرٹ کی دنیا میں نام ور ہوا۔

نئی صدی 1900 عیسوی کا آغاز ہوا تو پکاسو پیرس چلا گیا جہاں بڑے بڑے مصوّر اور آرٹ کے قدر دان بھی موجود تھے۔ اس وقت تک پکاسو بھی اپنا فنی سفر شروع کرچکا تھا اور پیرس میں اس نے وہاں کی معاشرت اور زندگی کو کینوس پر جگہ دی۔ پکاسو اسپین میں اس فن کی باریکیوں اور رنگوں کا استعمال اچھی طرح سیکھنے کے بعد جب پیرس پہنچا تو یہاں اسے فن و فکر کے نئے زاویوں کو سمجھنے اور مصوّری کو نئے انداز سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 1907ء میں اس کی ملاقات ایک اور مصوّر براک سے ہوئی۔ انھوں نے مل کر بڑا کام کیا اور پھر جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ اس دوران پکاسو نے مختلف سیاسی نظریات، سماجی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا اور اسے خود بھی بہت کچھ سہنا پڑا جس کو پکاسو نے اپنی تصویروں میں اجاگر کیا۔ پکاسو نے پیرس کے مشہور فن کاروں سے تعلقات استوار کر لیے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی سے پکاسو نے فن مصوّری میں مزید تجربات کرتے ہوئے اپنے فن کو نئی بلندیوں‌ پر لے گیا۔

’’گورنیکا‘‘ اس کا وہ شاہ کار ہے جو 1937ء میں سامنے آیا جس میں کٹے ہوئے سر والے بیل، کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کی ایک شکل کے ذریعے پکاسو نے فاشزم اور جنگ کی بربریت اور تباہ کاریوں کی انتہائی مؤثر تصویر پیش کی۔ یہ فن پارہ دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ پکاسو نے جنگ اور اس کی تباہ کاریاں دیکھی تھیں اور اسی لیے وہ امن کا داعی بن گیا تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہٹلر کی مخالف قوتوں کا مددگار رہا۔

پابلو پکاسو نے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی فکر اور زاویۂ نگاہ سے دنیا کو متاثر کرنے والے سیکڑوں تصویریں اور خاکے بنائے جو آج بھی اس کے فن کی عظمت اور امن و سلامتی کے پیغام کے طور پر محفوظ ہیں۔ پکاسو کی امن پسندی اور اس کے لیے عملی کوششوں پر ہی اسے لینن پرائز سے نوازا گیا تھا۔

عظمیٰ بخاری نے بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کو گرفتار کرنے کی تردید کردی

0
رمضان پیکج آڈٹ رپورٹ ، عظمیٰ بخاری

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کو گرفتار کرنے کی تردید کردی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق صوبائی وزیر عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے عمران خان کی بہنوں سمیت کسی خاتون کو گرفتار نہیں کیا، علیمہ خانم ودیگر نے پولیس گاڑی سے ’آن لائن کار سروس‘ حاصل کی، وہ اور ہمنوا خود ہی پولیس وین میں بیٹھیں اور خواجہ سروس اسٹیشن پر اتر گئیں۔

انہوں نے کہا کہ فوٹیج سے اس ڈرامہ بازی کی اصلیت دکھائی دے رہی ہے، عمران خان سے جھوٹی ہمدردیاں دکھانے کے لیے فلاپ شو کیا گیا ہے۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ عمران خان شاہی انداز میں جیل کاٹ رہے ہیں، بشریٰ بی بی جیل میں بی کلاس ملنے کے باوجود بہترین سہولیات مانگ رہی ہیں۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ فتنے فساد کے نام نہاد چیلے اڈیالہ جیل کے باہر رنگبازی کرنے پہنچے ہیں، ایک طرف یہ معافیاں مانگتے ہیں دوسری طرف سازشیں کرتے ہیں، تحریک فساد کا کارکن بھی ان کی فسادی سیاست سے تنگ آچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیڈر شپ انقلاب فرام ہوم لاتی تھی، کارکن سڑکوں پر ذلیل ہوتے تھے اب لیڈر شپ انقلاب فرام ہوم، کارکنوں کے ذلیل ہونے کا سلسلہ بند ہوگیا۔

کراچی ڈیفنس میں غیرملکی فوڈچین پر مشتعل افراد کا حملہ

0

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس خیابان اتحاد میں واقع غیرملکی فوڈ چین پر مشتعل افراد نے حملہ کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق درجنوں مشتعل افراد نے غیرملکی فوڈ چین کے ریسٹورنٹ پر پتھراؤ کیا اور نعرے بازی کرتے رہے۔

مشتعل افراد نے فوڈ شاپ کے باہر گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔

 ایس ایس پی ساؤتھ کا کہنا ہے کہ مشتعل افراد نے فوڈشاپ میں توڑ پھوڑ کی اور گیٹ کا شیشہ توڑا گیا، اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچی اور توڑ پھوڑ میں ملوث متعدد افراد کو حراست میں لے لیا۔

ایس ایس پی نے بتایا کہ ایک شخص کو ہتھوڑے سمیت حراست میں لیا گیا ہے جب کہ پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور صورتحال کنٹرول میں ہے۔

شہر میں دوسرے مقامات پر ایسے ہی حملوں کی اطلاعات پر پولیس کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آ سکے۔

بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کوحراست میں لینا غیرقانونی اور غیرآئینی ہے، بیرسٹرگوہر

0

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کوحراست میں لینا غیرقانونی اور غیرآئینی ہے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملنے کے لیے آنے پر علیمہ خانم اور دیگر بہنوں کو حراست میں لینے پر چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا کہ علیمہ خانم کو حراست میں لینے کی مذمت کرتاہوں، عدالتی حکم ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے فیملی کی ملاقات ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جیل انتظامیہ کی شرائط پر ملاقات کا کوئی آرڈر نہیں، ہماری جانب سےکوئی پتھراؤنہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دھرنے کی کوئی کال نہیں دی تھی، ہم صرف بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کی حمایت میں یہاں آئے تھے۔

خیال رہے کہ اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی رہنماؤں اورکارکنان کو گرفتار کرلیا گیا، بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنوں کو حراست میں لے لیاگیا، پولیس نے علیمہ خانم، نورین خان، عظمیٰ خان کو وین میں بٹھا دیا۔

صاحبزادہ حامد رضا، حامدخان سمیت 11 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا، پی ٹی آئی رہنماعالیہ حمزہ، شفقت اعوان بھی زیرحراست ہیں۔

نیاز اللہ نیازی، راجہ یاسر حسنین، حامد خان کو بھی حراست میں لے لیاگیا، پی ٹی آئی رہنما اور کارکنان اڈیالہ جیل کے باہراحتجاج کےلئے جمع ہوئے تھے۔

تیسری تکبیر

0

بازار کی طرف دروازہ کھول کر میں بیٹھک میں اخبار پڑھ رہا تھا۔ پروفیسر اسد کی بیوی آئی اور مجھے سلام کر کے بڑی تیزی سے اندر چلی گئی۔

تھوڑی دیر بعد میری بیوی نے آکر مجھے بتایا کہ پروفیسر اسد کے ہاں اس کے بیٹے مجی کو پکڑنے کے لیے پولیس آئی ہے۔ اس نے اس سے وجہ پوچھی تو میری گھبرائی ہوئی بیوی نے کہا کہ مجی کی ماں نے اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا اور وہ لوگ مجھے بلا رہے ہیں۔

معاملہ محلے داری کا تھا اس لیے میرا جانا بہت ضروری تھا۔ میں نے فوراً اخبار بند کر دیا اور پروفیسر اسد کے ہاں چلا گیا۔ اس کے گھر کے سامنے محلے کے چیدہ چیدہ آدمی جمع تھے۔ سب انسپکٹر اور دو سپاہی چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ سپاہی پروفیسر اسد کا حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ میاں امین سب انسپکٹر کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور پروفیسر اسد محلے داروں سے مصروف گفتگو تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ میری طرف لپکا۔

’’یار غضب ہو گیا، یہ لڑکا بہت بدمعاش ہے، کم بخت نے آج یہ دن بھی مجھے دکھا دیا۔‘‘

پروفیسر اسد سے کچھ پوچھنے کی بجائے میں نے سب انسپکٹر کو اپنا نام و نسب بتا کر اس ہنگامے کی وجہ پوچھی۔ اس نے خدا معلوم کس کو گالیوں سے نوازتے ہوئے پرچہ میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔۔ مجیب اسد ولد پروفیسر اسد علی سکنہ ہاشمی محلہ، ہمارے ہمسائے مسٹر اکمل کو سیٹیاں مارنے کے الزام میں ماخوذ تھا۔

بات بڑی دلچسپ تھی کیونکہ مسٹر اکمل پچاس برس کا آدمی تھا۔ لیکن مجی سے اس بچپنے کی امید نہ کی جا سکتی تھی۔ وہ خاصا سلجھا ہوا انسان تھا، جانے کس ترنگ میں آکر اس نے یہ حرکت کی تھی۔

میں نے ایس۔ آئی سے کہا، ’’جناب یہ کوئی قابل مواخذہ بات نہیں۔ اس میں کیا تُک ہے کہ سیٹی بجانے پر کسی کو گرفتار کر جائے۔ بالفرض اگر اس نے مسٹر اکمل کی طرف دیکھ کر سیٹی بجائی بھی تھی تو کونسی آفت آگئی۔ میں بھی دو بچوں کا باپ ہوں، میرے سر کے بال قریب قریب سفید ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی مجھے سیٹی مارے تو بخدا تھانے میں رپورٹ لکھوانے کے بجائے کسی رقص گاہ میں جاکر ناچوں گا کہ میں ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔‘‘

’’آپ نے یہ تو پڑھا نہیں۔‘‘ یہ دوسری رپورٹ تھی۔ مجی، مسٹر اکمل کا لیٹربکس کھول کر خط نکالنے کے الزام میں بھی ماخوذ تھا۔ اس سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔۔۔ بہرحال اگر اس نے کسی وجہ سے خط نکالے تھے تو یہ قضیہ بھی آپس میں طے ہو سکتا تھا۔

مسٹر اکمل اور پروفیسر اسد محلّے کے شریف ترین آدمیوں میں شمار ہوتے تھے۔ جانے مسٹر اکمل نے کس وجہ سے پروفیسر کی عزت گندی نالیوں میں بہائی۔ میری سمجھ میں ابھی تک کچھ نہ آیا تھا۔ مجی کو اس کے لواحقین نے کہیں روپوش کر دیا تھا اور اب سب انسپکٹر اس کو ساتھ لے جانے پر مصر تھا۔

مسٹر اکمل ابھی تک نہیں آیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے مکان کی طرف دیکھا، اس کی بیوی دروازے کی چق اٹھائے دیکھ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے میاں امین کو مسٹر اکمل کے گھر بھیجا کہ اس کو بلا لائے اور خود معاملہ رفع دفع کرانے کے لیے سب انسپکٹر کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔

مسز اکمل نے میاں امین سے کہلوا بھیجا کہ آدھا گھنٹہ ہوا وہ دفتر گئے ہیں۔ مسٹر اکمل کا اتنی جلد دفتر جانا غیرمعمولی بات تھی۔ میں نے اس کے دفتر ٹیلیفون کرکے پوچھا تو چپراسی نے بتایا کہ ابھی چپراسیوں کے سوا کوئی نہیں آیا۔

میں نے سب انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معنی خیز انداز میں اس کا کندھا دبایا اور اسے تھوڑی دور تک اپنے ساتھ لے گیا۔ چند ایک منٹوں کے بعد جب ہم لوٹے تو اس نے سپاہیوں سے کہا، ’’اب یہاں کون اتنی دیر تک مغزماری کرے اور کام بھی تو کرنے ہیں۔۔۔ کل آئیں گے۔‘‘

پھر اس نے پروفیسر اسد کو تاکید کی کہ مجرم کل یہاں موجود ہونا چاہیے۔ سپاہیوں نے ہتھکڑی اٹھائی۔ حقے کے لمبے لمبے کش لیے اور چلے گئے۔

محلے کے لوگوں میں طے پایا کہ شام کے وقت میاں امین کے گھر میں مسٹر اکمل اور دیگر احباب کو بلا کر سمجھوتا کرا دیا جائے۔

مسٹر اکمل کی حالت بہت قابل رحم تھی کیونکہ وہ اپنی بیوی کے سامنے یوں ہو جاتا جیسے لومڑی کے سامنے خرگوش، وہ زن مرید تو نہ تھا لیکن کوئی نہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی، اس کے ساتھ بالکل سوتیلے بچوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ جب وہ نئے نئے اس محلے میں آکر بسے تھے تو محلے کی عورتوں کا خیال تھا کہ مسز اکمل ایسی اچھی اور نیک دل خاتون شاید ہی کوئی ہو۔ وہ اس کے سلیقے اور خوش نما لباس سے زیادہ اس کے برتاؤ سے متاثر تھیں۔ مسٹر اکمل بڑا فرماں بردار قسم کا خاوند تھا اور سب عورتوں کا خیال تھا کہ سب بیویوں کے خاوند ایسے ہی ہونے چاہئیں۔

اس کی تینوں جوان بیٹیاں سردیوں کے دنوں میں بالکنی میں بیٹھ کر دھوپ سینکا کرتیں۔ گرمیوآں‌ کی شامیں بھی وہ اسی بے پردہ جگہ میں گزارتیں اور باہر آنے جانے والے کو دعوت نگاہ دیتیں۔ جب وہ بن سج کے کسی غرض سے باہر نکلتیں تو محلے کے نوجوانوں کی آنکھیں مجبور ہو جاتیں کہ وہ کچھ نہیں تو کم از کم ایک نگاہ اٹھاکر ہی دیکھ لیں۔ یوں اور بھی کئی نوجوان بڑی دور سے سونگھتے ہوئے آتے اور سارا دن بالکنی کی طرف نظریں گاڑے، بلوں کے مانند، بالکنی میں بیٹھی ان چڑیوں کی طرف بھوکی نگاہوں سے دیکھتے۔ مسٹر اکمل کی چڑیاں ان آوارہ بلّوں سے بہت لطف اندوز ہوتیں۔

جب محلے میں ان بلّوں کی آمد و رفت زیادہ ہو گئی اور ان کی نگاہیں دوسرے مکانوں کی طرف اٹھنے لگیں تو لوگ دبی دبی زبان میں اعتراض کرنے لگے۔ مسٹر اکمل اپنی بیوی سے بازپرس کیے بغیر جس طرح بھی ممکن ہوتا ان لوگوں کو مطمئن کر دیتا۔ شاید اس لیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرنے کی اس میں جرأت نہیں تھی۔ لیکن جب مسٹر اکمل کی غیر حاضری میں ان کے دروازے کے سامنے ہر روز نئی چمکیلی کاریں آنے لگیں تو محلے کی بڑی بوڑھیوں نے مسز اکمل کی شرافت، سلیقے اور برتاؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے صاف طور پر اس سے کہہ دیا کہ بہن! اپنی بیٹیوں کے چلن ٹھیک کرو۔ ان کے باعث محلے کے شرفا کی عزت کو گھن لگ رہا ہے۔

مسز اکمل یہ سن کر مصنوعی سناٹے میں آ گئی۔ ’’آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ میری بیٹیاں اور ایسی ہوں۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر میری بچیاں میک اپ کرکے باہر جاتی ہیں تو کوئی حرج نہیں، آج کل سب لڑکیاں بناؤ سنگار کرتی ہیں۔۔۔ کون ہے جو اپنے کو سنوارنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ماشاء اللہ میری لڑکیاں خوبصورت ہیں اسی لیے آپ لوگ جلتی ہیں۔ اس محلے میں کوئی بھینگی، کوئی لنگڑی۔۔۔ کسی کا سر بڑا ہے تو کسی کا رنگ توے کے مانند۔۔۔ جبھی تو لوگ میری بیٹیوں کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘

جب ان چمکیلی کاروں کا حوالہ دیا گیا تو مسز اکمل نے انہیں بتایا کہ ان کاروں میں اس کے وہ رشتہ دار آتے ہیں جن کے ساتھ بعض خاندانی جھگڑوں کے باعث تعلقات بگڑ چکے تھے۔ لیکن بفضل خدا اب تعلقات سنور چکے ہیں۔۔۔ اور کھاتے پیتے آدمی ہیں۔

مسز اکمل نے ہر طرح انہیں قائل کرنا چاہا، لیکن بڑی بوڑھیاں مطمئن نہ ہوئیں۔ بلکہ شام کے وقت محلے کے معززین مسٹر اکمل سے ملے اور اس کی شکایت کی۔ اس نے بہت نادم ہوکر کہا۔ ’’میں اپنی بیوی سے دریافت کروں گا۔‘‘

مسٹر اکمل نے بڑی ہمت کرکے اپنی بیوی سے پوچھا، تو وہ برس پڑی، ’’میں نے تم سے کئی مرتبہ کہا کہ میرے معاملات میں دخل نہ دیا کرو۔‘‘

’’بیگم، عزت کا سوال ہے۔‘‘

بھاڑ میں جائے تمہاری عزت۔۔۔ گھر میں جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں، ان کا خیال نہیں؟ ساڑھے تین سوروپیہ ماہوار میں کس کس کی شادی کرو گے۔۔۔؟ اپنی عزت کے ساتھ بیاہو گے کیا۔۔۔؟‘‘

’’تمہارے اسی قسم کے دلائل نے مجھے پہلا محلہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب یہاں کی بنی بنائی عزت کو تو تباہ نہ کرو۔‘‘

’’شادی پیسے کے ساتھ ہوتی ہے عزت کے ساتھ نہیں۔ لوگ پیسہ دیکھتے ہیں۔ میرے والدین نے تمہارے پاس رقم دیکھ کر کی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ تم چند ہی سالوں میں کنگلے ہو جاؤ گے۔۔۔ ورنہ میں تم سے کبھی شادی نہ کرتی۔‘‘

اور حقیقت بھی یہی تھی۔ اگر مسز اکمل کو علم ہوتا کہ اس کی تیسری بیٹی کی پیدائش تک مسٹر اکمل کی ساری جائیداد بک جائے گی اور نوکری کرنا پڑے گی تو وہ کبھی اس کے ساتھ شادی نہ کرتی۔ اس میں مسٹر اکمل کا کوئی قصور نہ تھا۔ کیونکہ اس کی مسز نے اس کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کھول کر فضول خرچی کی اور اپنی سب عادتیں چھوڑ کر ریس کھیلنے کی عادت کو برقرار رکھا۔ پھر اس کی پہلی دو بیٹیوں کے باعث اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔ اس زمانے میں فراوانی تھی اس لیے ہر چیز پر کھلا خرچ ہوتا تھا لیکن جب تیسری لڑکی پیدا ہوئی تو مسٹر اکمل قریب قریب دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اس لیے اپنے آبائی شہر میں جائیداد کا آخری مکان بیچا اور یہاں چلا آیا۔ مہینہ دو مہینہ بے کار رہنے کے بعد اسے پرائیوٹ فرم میں نوکر مل گئی۔

مسز اکمل کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا حساب تھا۔ وہ اپنے میکے اس لیے نہ جا سکتی تھی کیونکہ وہاں طبلے کی تھاپ پر جوانی بکتی تھی اور اس کی جوانی کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔ مسٹر اکمل کی ساڑھے تین سو کی آمدن میں گزارہ مشکل تھا۔ وہ ہر روز اپنے خاوند کو جلی کٹی سناتی، طعنے دیتی۔ وہ خاموش رہتا اور پھر کئی کئی دن تک ان کی آپس میں گفتگو نہ ہوتی۔

اب مسز اکمل کی صرف ایک خواہش تھی کہ اس کی بیٹیاں پریوں کا روپ دھار لیں۔ وہ سارا روپیہ اپنی بیٹیوں کو خوبصورت بنانے میں صرف کرتی، جس سے اس کو دماغی سکون حاصل ہوتا اور وہ یوں محسوس کوتی گویا اپنے چہرے پر ماضی کا غازہ تھوپ رہی ہے۔ اپنی تیسری بیٹی کے جوان ہونے پر مسز اکمل نے بہترین لباس پہننا شروع کر دیا۔ مسٹر اکمل کی غیر حاضری میں اس کی پہلی بیٹی کے تین چار دوست اس سے ملنے کے لیے آنے لگے۔ آخر کب تک….. محلے والے سب کچھ جان گئے اور پھر مجبوراً انہیں وہ محلہ چھوڑنا پڑا۔

مسٹر اکمل اپنے محلے والوں کی طرح جانتا تھا کہ ساڑھے تین سو روپے میں اتنے اچھے لباس اور میک اپ کا قیمتی سامان کیوں کر آ سکتا ہے اور اس کی بیوی ریس کورس کیوں کر جا سکتی ہے؟ خدا معلوم انہوں نے اپنی بیوی کو ڈانٹنے کی بجائے خاموشی مناسب کیوں سمجھی؟

مسز اکمل نے دوسرے محلے میں آتے ہی اپنی شرافت کی دھاک بٹھاکر مختلف گھروں میں جھانکا کہ ایسا گھر مل جائے جس پر وہ اپنے دانت تیز کر سکے لیکن اس کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ محلے میں کوئی اتنا دولت مند نہیں تھا جس کے بیٹے اس کی بیٹیوں کو شاپنگ کرا سکتے اور اسے ریس کورس لے جا سکتے اور یہی وجہ تھی کہ اس کو ان لوگوں پر کوئی اعتراض نہ تھا جو اس کی بیٹیوں کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں گھر تک چھوڑنے آتے تھے۔۔۔ مبادا کسی کے ساتھ کوئی سلسلہ ہو جائے۔ مسٹر اکمل کو اپنی مسز کے مشاغل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنی غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ دینے کو تو وہ طلاق بھی دے سکتا تھا، لیکن اسے اپنی تینوں بیٹیوں کا خیال آ جاتا تھا اور اس رات اس نے پہلی مرتبہ اپنی بیوی سے اس سلسلے میں دریافت کیا تھا تو اس نے بیٹیوں کی شادی کے مسئلے کو ڈھال بناکر سامنے رکھ دیا تھا جس پر مسٹر اکمل کے وار بے اثر تھے۔

اگلے دن مسٹر اکمل محلے داروں کو کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ان لوگوں نے اس سے تعلقات قریب قریب منقطع کر لیے اور مسٹر اکمل کی حیثیت محلے میں بالکل ایسی ہو گئی جیسے حقے میں سڑے پانی کی۔

محلے کے نوجوانوں کی ہر محفل میں کسی نہ کسی بہانے مسز اکمل کی ان تکبیروں کا ذکر ضرور ہوتا لیکن مجی ہمیشہ خاموش رہتا۔ اس کے دوست اسے مذاق کرتے، پھبتیاں کستے اور وہ یہی کہتا، ’’مجھے ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے اسے بڑا دکھ سا ہوتا، کیونکہ اس کے ذہن میں ہر وقت یہ سوال گونجتا رہتا تھا کہ یہ لڑکیاں ایسی کیوں ہیں؟ پھر بھی وہ اپنے دل کے دکھ کو اپنے دوستوں کے سامنے اس جواب کی صورت میں زبان پر لاکر خود کو بہت ہلکا سا محسوس کرتا۔ پھر وہ سوچتا، اس میں ان بیچاری لڑکیوں کا کیا قصور ہے؟ مسز اکمل نے ان کی لچکیلی۔ ہڈیاں جس شکل میں موڑ دیں، مڑگئیں۔ پھر اس کے ذہن میں ایک اور سوال ابھرتا۔ اگر کوئی چاہے تو کیا ان ہڈیوں کو اپنی اصلی صورت میں نہیں لا سکتا؟

جب بھی وہ مسز اکمل کے گھر کے سامنے سے گزرتا تو اس کی آخری تکبیر کی گنگناہٹ اس کا تعاقب کیا کرتی، لیکن وہ ہمیشہ یہی سمجھتا کہ یہ تکبیر بھی ایک عام دعوتی رقعہ ہے۔ اس کے پاس کئی مرتبہ کلثوم کی نگاہوں کے پریس میں چھپے ہوئے رقعے آئے، جانے کس وجہ سے وہ ان کے پروف تک نہ پڑھ سکا۔

ایک دن محلے کے تمام گھروں میں مسٹر اور مسز اکمل کی طرف سے ان کی دو بڑی بیٹیوں کی شادی کے دعوت نامے موصول ہوئے۔ دونوں کی شادی میں ایک ہفتے کا وقفہ تھا۔
محلے کی اکثریت کی طرح مجی کا ارادہ بھی شادی میں جانے کا نہیں تھا۔

پہلی لڑکی شادی سے ایک روز پہلے وہ اس کے گھر کے سامنے اور میاں امین کے گھر کے نیچے گامے کی دوکان سے سگریٹ خرید کر واپس آ رہا تھا کہ مسٹر اکمل کے نوکر نے اس کو ایک کاغذ دیا۔ مجی کے استفسار پر لڑکے نے مسٹر اکمل کے مکان کی طرف دیکھا اور جواب دیے بغیر بھاگ گیا۔ مجی نے اس مکان کی طرف نظریں اٹھائیں، بالکنی میں کلثوم کھڑی تھی۔ مجی نے فوراً رقعہ پڑھا، لکھا تھا ’’آپ کل شادی میں ضرور آئیں۔‘‘ اس نے دوبارہ کلثوم کی طرف دیکھا۔۔۔ کلثوم کی نگاہیں مجی کے دل میں اترنے لگیں۔
’’آپ ضرور آئیں، آپ کو آنا چاہیے۔‘‘

اس نے کاغذ جیب میں رکھا اور چلا آیا۔ وہ سوچتا رہا کہ اسے جانا چاہیے یا نہیں۔ جب اس کے دل میں التجا سے بھری دو آنکھیں اترنے لگتیں تو وہ اپنے دل کو ٹٹولتا اور فیصلہ کر لیتا کہ ضرور جائے گا۔ لیکن جب اس کی ماں اور چمکیلی کاروں کا تصور ذہن میں آتا تو وہ کہتا، ’’یہ سب بکواس ہے، فراڈ ہے۔ کلثوم میرے لیے نہیں، وہ خالصتاً اپنی ماں کی جائیداد ہے جس کو میں خرید نہیں سکتا اور اس کی ماں کے نزدیک محبت کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘

صبح تک اس کا ارادہ جانے کا نہیں تھا۔ مگر جانے پھر کس خیال سے اس نے وہ سوٹ نکال کر پہنا جو اس نے نوکری کے انٹرویو کے لیے پہنا تھا اور مسٹر اکمل کے ہاں چلا گیا۔
وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مسٹر اکمل نے پروفیسر اسد کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ طبیعت خراب ہونے کے باعث نہیں آسکے۔ مسٹر اکمل سمجھ گیا کہ مجی جھوٹ بول رہا ہے۔

شادی کا اتنظام بہت اچھا تھا۔ مسز اکمل بہت خوش تھی اور اس کی خوشی نواب زادہ اکبر علی کے ساتھ آئے ہوئے بینڈ کی صورت میں چیخ رہی تھی اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی اپنی روح حجلۂ عروسی بن گئی ہے۔ اس کی سالہا سال کی محبت کا پھل، اس کا پانی پہلی تکبیر کی آواز کے رس کی صورت میں ٹپک رہا تھا۔

باراتی کھانا کھا رہے تھے، شہنائیاں چیخ رہی تھیں، کلثوم نے نوکر کے ذریعے مجی کو بلایا اور اوپر اپنے کمرے میں لے گئی۔ اس کی ماں نچلی منزل میں مہمانوں کے پاس تھی۔

مجی نے کہا، ’’فرمائیے۔‘‘

’’آپ کو ہمارے ہاں آکر خفت تو محسوس نہیں ہوئی۔‘‘

مجی خاموش تھا۔ کلثوم نے کہا، ’’مجھے اپنی امی پسند نہیں، مجھے اپنے گھر سے نفرت ہے، میں یہاں سے کہیں چلی جانا چاہتی ہوں۔۔۔ اب امی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھنے کی میری باری ہے۔۔۔ مجھے شوکت سے نفرت ہے۔‘‘

پھر کلثوم نے مجی کو بتایا کہ اس کو اس سے بہت محبت ہے اور وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

اس دن مجی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ کلثوم کی نگاہوں کے پیغام صرف اس کے لیے تھے۔ وہ اپنی بہنوں سے مختلف ہے، وہ اپنی ماں کی ضد ہے، وہ اس کو غلط سمجھتا رہا ہے۔۔۔ آذر کے ہاں اب بھی ابراہیم پیدا ہو سکتے ہیں، مسز اکمل ایسی عورتوں کے ہاں کلثوم ایسی لڑکیاں پیدا ہو سکتی ہیں، مریم کی طرح پاک اور میرا بائی کی طرح مقدس۔۔۔ کلثوم کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

ایک ہفتے کے بعد دوسری تکبیر بھی بڑی دھوم دھام سے پڑھ دی گئی۔

مسز اکمل کی موجودگی میں ان دونوں کا آپس میں ملنا قریباً ناممکن تھا۔ اس لیے یہ ایک دوسرے کو طویل خط لکھ کر اپنے ذہنوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ پھر مجی نے اس سے کہا کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے ملنے کے بہانے اس سے ملنے آ جایا کرے۔ کلثوم کی کوئی سہیلی نہ تھی، شوکت بی۔ اے کے امتحان میں مصروفیت کے باعث صرف دوپہر کے وقت کھانے پر ملنے کے لیے آتا تھا۔ کلثوم نے کہا کہ وہ شام کے وقت شوکت سے ملنے کے لیے اس کے ہوسٹل جایا کرے گی۔ اس کی ماں نے اس کو اجازت دے دی۔

وہ شوکت سے ملنے کے بہانے مجی کے ساتھ سیر کرنے کے لیے جاتی رہی۔ مسز اکمل اپنی بیٹی کی طرف سے مطمئن تھی کیونکہ آخر وہ اپنی بری بہنوں کی طرح مسز اکمل ہی کی بیٹی تھی۔ اس لیے اس نے شوکت سے اس کی شاموں کے بارے میں کچھ نہ پوچھا۔۔۔ اور شوکت کو ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی تھی کہ وہ شام کے بارے میں امتحان کے دنوں میں سوچتا۔

پھر اس کے امتحان ختم ہو گئے اور وہ دوسرے ہی دن دوپہر کے علاوہ شام کو بھی آیا۔ مسز اکمل نے حیرانی سے کہا، ’’وہ تو آپ ہی سے ملنے گئی ہے۔‘‘ شوکت نے لاعلمی کا اظہار کیا تو مسز اکمل نے متفکر ہوکے پوچھا، ’’تو کیا وہ کل بھی آپ کے ہوسٹل نہیں آئی۔۔۔؟‘‘
اس نے نفی میں سر ہلا دیا اور مسز اکمل کا تجربہ کار ذہن معاملے کی تہ تک پہنچ گیا۔ اس رات کلثوم لوٹی تو اس کی ماں نے اسے خوب پیٹا۔ جب اس کے جسم پر نیلے نشان پڑ گئے تو اس نے بتایا کہ وہ مجی کے ساتھ جاتی رہی ہے۔ مسز اکمل نے اس کے دودھیا جسم پر اور نیلے داغ ڈالے تو اس نے مجی کے لکھے ہوئے تمام خطوط اس کے حوالے کردیے۔ مسٹر اکمل دوسرے کمرے میں اپنے دفتر کا کام کرتے ہوئے سب کچھ سن رہا تھا۔

اس نے کہا، ’’بچی کو ختم کر کے دم لو گی کیا۔۔۔؟‘‘

مسز اکمل چیخی، ’’تم اپنے کام سے کام رکھو جی۔۔۔ بکواس نہ کرو۔‘‘

اور مسٹر اکمل مزید بکواس کیے بغیر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کلثوم اس دن کے بعد پھر کبھی مجی سے ملنے نہ آئی۔ کیونکہ مسز اکمل کبھی اس کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی تھی۔ مجی نے دو ایک مرتبہ نوکر کے ذریعے اس کو خط بھیجے لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ پھر جب شوکت کی نیلی اولڈس موبیل کنور ٹیبل ہر وقت مسز اکمل کے ہاں رہنے لگی اور دونوں ماں اور بیٹی اس کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے جانے لگیں تو مجی کو ایسا محسوس ہوا جیسے کلثوم کے وعدے اور محبت اس کے اصل کردار پر میک اپ تھے جس کو شوکت کے سرمائے نے دھو دیا ہے۔

مسز اکمل اپنے اس امام کے ذریعہ سے جلد از جلد تیسری تکبیر پڑھنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کو ان خطوں کا فکر کھائے جا رہا تھا جو کلثوم نے مجی کو لکھے تھے۔ مبادا مجی ان خطوں کی آڑ میں کلثوم کو اس کے سسرال میں بدنام کرنے کی کوشش کرے اور شادی کے بعد ردِّعمل کے طور پر اس کی زندگی اجیرن کر دے۔۔۔ وہ دن رات اس سے خط حاصل کرنے کی ترکیبیں سوچتی رہتی۔ مگر اس کا تجربہ کار ذہن اس عقدے کو حل کرنے سے قاصر تھا۔

ایک دن مجی اپنے کمرے میں بیٹھا ماضی کے دھندلکے میں یادوں کے دیے جلا رہا تھا کہ کلثوم کے نوکر نے آکر ایک خط دیا۔ خط بہت مختصر تھا۔ وہ فوراً اس کے گھر گیا۔ اس کے آتے ہی کلثوم نے بڑی درشتی سے کہا، ’’مجیب صاحب میرے خط لوٹا دیجیے۔‘‘ لیکن اس کی آنکھوں میں وہی پیار اور وحدت تھی جو مجی کے لیے مخصوص تھی اور جسے مجی بہت دور سے محسوس کر لیا کرتا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔۔۔ ’’لیکن کلثوم۔۔۔‘‘

’’میں کچھ اور سننا نہیں چاہتی۔۔۔ بس آپ میرے خط واپس کر دیجیے۔‘‘ اس نے آنکھوں کے پیار کو حدت میں جلانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

جب مجی کسی طرح نہ مانا تو اس نے بڑی التجا سے کہا، ’’میرے مستقبل کو تباہ نہ کیجیے۔۔۔ اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے تو میرے خط لوٹا دیجیے۔۔۔‘‘

’’تمہارے خط میری زندگی کا سرمایہ ہیں، میری زندگی ہیں۔۔۔ کلثوم! میں مجبور ہوں۔‘‘ پھر اس نے کہا، ’’بس، اس لیے بلایا تھا۔‘‘

کلثوم کی آنکھوں میں پیار حدت کی شدت سے پگھل کر بہہ نکلا۔ جب اس نے نظریں اٹھائیں تو مجی جا چکا تھا اور اس کی ماں دروازے کا پردہ اٹھا کر کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’تم نے خود ہی اپنا مستقبل تباہ کیا ہے۔۔۔ نہ اس حرامی سے یارانہ رکھتیں نہ آج یہ دن دیکھنا پڑتا۔ اب میں اس سے زیادہ اور کیا کر سکتی ہوں کہ اس سنپولیے کو تمہارے لیے میں نے خود بلایا تھا۔‘‘ مسز اکمل نے کچھ اس انداز سے کہا، جس انداز سے وہ مسز اکمل بننے سے پہلے گفتگو کیا کرتی تھی۔

اس کے بعد اس نے مجی کو مختلف لوگوں کے ذریعے بدنام کرنا شروع کر دیا کہ شاید مجی اس سے متاثر ہوکر خط واپس کردے۔ پروفیسر اسد کے پاس نت نئی شکایتیں آنے لگیں۔ جس کے باعث وہ اپنے بیٹے سے بہت تنگ آ گیا۔ وہ اپنے بیٹے سے ان شکایات کی صداقت کے بارے میں دریافت کرتا، مگر مجی خاموش رہتا۔ جب وہ اپنے باپ کے سوالوں سے اکتا گیا تو اس نے کہا، ’’اگر آپ کوان باتوں پر یقین ہے تو ٹھیک ہے۔‘‘

پروفیسر اسد کو مجی سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اپنے شریف باپ کی عزت کو اس طرح داغے گا۔ محلے کے نوجوان جب بھی اس سے ملتے تو کہتے، ’’یار تم بڑے چھپے رستم نکلے، خوب عیش کرتے ہو اور سناؤ تمہاری ساس کا کیا حال ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘

مجی یہ سب کچھ سن کر مسکرا دیتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کلثوم اس کو کیوں بدنام کر رہی ہے اور اس کے محلہ داروں کا انداز طنزیہ کیوں ہے۔ وہ دل ہی دل میں کہتا، ’’کچھ بھی ہو کلثوم۔۔۔! خطوں کو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا، تمہارے خط میری روح ہیں۔‘‘

جب مسز اکمل کی مجی سے خط حاصل کرنے کی ساری ترکیبیں بالکل اسی طرح اکارت گئیں جیسے کلثوم کے دل سے مجی کا نقش مٹانے کی تو پولیس میں رپورٹ درج کرا کے اپنا آخری حربہ استعمال کیا۔ مسٹر اکمل اپنی بیوی کے احکام اس طرح بجا لایا جیسے وہ کوئی غیر مرئی ہستی تھی۔ وہ اسی وقت گیا اور جو کچھ اس کی بیوی نے اس کو سکھایا تھا اس نے طوطے کے مانند رٹا ہوا سبق تھانے میں دھرا دیا اور مسز اکمل نے ادھر مجی کو پیغام بھیج دیا کہ اگر وہ خطوط لوٹا دے تو رپورٹ واپس لی جاسکتی ہے۔ مجی کے سر پر ضد کا بھوت سوار تھا۔ وہ روپوش ہوگیا اور اب پولیس اسے ڈھونڈ رہی تھی۔

سہ پہر کے وقت معززین میاں امین کے گھر جمع ہوئے چونکہ مسٹر اکمل اپنی بیوی کے منع کرنے کے باعث نہ آیا تھا اس لیے کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تھا۔

دن ڈھلے مجی گھر آیا، پروفیسر اس کو دیکھتے ہی ڈانٹنے لگا۔ وہ خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ پروفیسر کے سامنے دلائل پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

پروفیسر اسد نے آخر میں کہا، ’’آخر تم اس بازاری عورت کی بازاری لڑکی کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو۔۔۔ تمہاری وجہ سے میں اتنا بدنام ہوا ہوں۔ اگر تم اس لڑکی کو نہیں چھوڑ سکتے تو تم ایسے ناہنجار کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘ وہ خاموش تھا۔

’’تم جو چاہو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔‘‘ پروفیسر اسد نے خدا معلوم غصے میں کہا تھا یا سنجیدگی سے، بہرحال مجی اٹھا۔ اس نے اپنی الماری کھول کر کلثوم کے خطوط لیے اور اپنے باپ سے کچھ کہے بغیر مکان سے باہر آگیا۔ وہ خود اس قبرستان میں نہیں رہنا چاہتا تھا جہاں اس کو ہروقت اپنی محبت کی قبر پرجلتی ہوئی اگربتیوں کی خوشبو آتی رہتی تھی۔

کلثوم کے خط اس کے سینے کی جیب میں دھڑک رہے تھے، وہ آخری بار اس سے ملنا چاہتا تھا، آخری بار۔۔۔ پھر شاید زندگی میں اس سے کبھی نہ مل سکے۔۔۔ وہ اس کو صرف بتانا چاہتا تھا کہ دیکھ کلثوم۔۔۔! تمہارے لیے اپنے گھر سے بھی نکال دیا گیا ہوں اور تم۔۔۔ آخر تم لڑکی ہو، قلوپطرہ اور ہیلن آف ٹرائے کی جنس سے۔۔۔ جو کسی کی بھی نہ ہو سکیں۔

پھر آدھی دنیا کو آسمان سے ابلتے ہوئے اندھیروں نے لپیٹ لیا اور وہ اس کے گھر کے سامنے کھڑا ہو کر اس سے ملنے کے پیچیدہ مسئلے کا حل سوچنے لگا۔ اس نے کلثوم کے نوکر کو دیکھا جو ہاتھ میں کٹورا پکڑے دودھ دہی کی دکان سے آ رہا تھا۔ اس نے کاغذ پر کچھ لکھا اور اس کے نوکر کو بلاکر دے دیا۔

قریباً پانچ منٹ بعد نوکر نے آکر کہا، ’’گیارہ بجے احاطے میں۔‘‘ گیارہ بجے مکان کی پچھلی طرف احاطے میں کلثوم آئی۔ مجی لمحہ بھر کے لیے اپنی نگاہوں سے اس کے دل کو ٹٹولتا رہا۔ پھر جانے اس کو کیا سوجھی کہ اپنی جیب سے تمام خط نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم نے بھی اپنے آپ کو اپنی بہنوں کی طرح شو کیس میں بکنے کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میں قیمت ادا نہ کر سکا۔‘‘

’’مجی۔۔۔! مجھے دنیا کی سب سے عزیز چیز کی قسم، مجھے تمہاری قسم میں بے قصور ہوں۔‘‘

’’اپنی ماں سے کہو کہ تمہارے خط فریم کرا کے ڈرائنگ روم میں لٹکا دے، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ اس کی بیٹی محبت کرنے میں کتنی ماہر ہے۔‘‘

’’مجی۔۔۔‘‘

’’میں جا رہا ہوں۔۔۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’مجھے علم نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑا۔

کلثوم نے اس کا بازو تھام کر کہا، ’’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘ دوسری صبح جب مسز اکمل کو معلوم ہوا کہ تیسری تکبیر کوئی دوسرا امام پڑھ گیا ہے تو اس کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے گنبدوں میں تریڑیں آ گئی ہیں۔

مسٹر اکمل اسی روز اپنے تباہ شدہ معبد کو لے کر کسی دوسرے محلے میں چلے گئے۔

(اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور ادیب ڈاکٹر انور سجاد کی تحریر کردہ ایک کہانی)

جان ابراہم کی فلم ’دی ڈپلومیٹ‘ پر خلیجی ممالک میں پابندی عائد

0
جان ابراہم دی ڈپلومیٹ

بالی ووڈ اداکار جان ابراہم کی فلم ’دی ڈپلومیٹ‘ کی ریلیز پر خلیجی ممالک میں پابندی عائد کردی گئی۔

اداکار جان ابراہم کی فلم دی ڈپلومیٹ 14 مارچ کو سنیما گھروں کی زینت بنی اور وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ کی وجہ سے اس کی شروعات اچھی نہیں رہی، فلم نے ابتدائی ہفتے کے آخر میں صرف 13.3 کروڑ روپے اور پہلے ہفتے میں 19.15 کروڑ کا بزنس کیا۔

تاہم فلم نے ایک ہفتے بعد اچھی کمائی کی اور سلمان کی ’سکندر‘ کا مقابلہ کیا جو 30 مارچ کو ریلیز ہوئی۔

تاہم دی ڈپلومیٹ مشکل میں پڑ گئی کیونکہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔ تاہم جان نے ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ فلم میں لوگوں اور ممالک کی تصویر کشی کے بارے میں میکرز حساس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں اور فلم میکرز کو لوگوں اور ممالک کی تصویر کشی کے بارے میں حساس ہونا چاہیے، ہم نے فلم کے لیے کسی کو دھوکا نہیں دیا ہے۔

جان ابراہم نے کہا کہ یہ پاکستان مخالف فلم نہیں ہے، ہم نے ایک ایماندار پاکستانی وکیل اور ایماندار جج دکھایا ، یہاں تک کہ جو گشت کرنے والی گاڑیاں ہمیں بارڈر پر لے جارہی ہیں ان میں بھی ایماندار پولیس اہلکار تھے، وہ دراصل دوسرے لڑکوں کے خلاف لڑ رہے ہیں لہٰذا ہم نے کسی بھی طرح سے کسی کی توہین نہیں کی۔

جان ابراہم نے فلم کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے ناقادین اور ناظرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سامعین ہمیشہ اچھی فلمیں تلاش کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ شیوم فائر کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی ڈپلومیٹ پاکستان میں بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ اور سعدیہ خطیب کے گرد گھومتی ہے جو بھارت واپسی کی خواہش مند خاتون عظمیٰ احمد کا کردار ادا کرتی ہیں۔

کراچی کنگز کی پی ایس ایل 10 کیلیے بھرپور تیاریاں جاری

0

پاکستان سپر لیگ کی مقبول ترین لیگ کراچی کنگز کی دسویں سیزن کے لیے بھرپور تیاریاں جاری ہیں دوسرے روز بھی پریکٹس سیشن کیا۔

دنیا کی مقبول ترین لیگز میں سے ایک پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دسویں ایڈیشن کا آغاز 11 اپریل سے ہو رہا ہے۔ لیگ میں سب کی پسندیدہ فرنچائز کراچی کنگز نے پی ایس ایل ٹرافی پر نظریں جما لیں اور حریفوں سے مقابلے کے لیے کمر کس لی۔

کراچی کنگز نے پی ایس ایل کی ٹرافی ایک بار پھر اٹھانے کے عزم کے ساتھ بھرپور تیاریاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔کھلاڑیوں نے ہیڈ کوچ روی بوپارا کی نگرانی میں مسلسل دوسرے روز بھی نیشنل اسٹیڈیم میں پریکٹس کی۔

بولرز نے نئے کوچ شان ٹیٹ کے ساتھ نیٹ پریکٹس کی اور لائن ولینتھ پر کام کرتے ہوئے بولنگ خامیوں کو دور کیا۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Karachi Kings (@karachikingsary)

کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبال بھی نیشنل اسٹیڈیم پہنچے اور ہیڈ کوچ روی بوپارا سمیت ٹیم آفیشلز اور کھلاڑیوں سے ملاقات کی۔

دوسری جانب کراچی کنگز کے غیر ملکی اسٹارز کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے کے کے کپتان ڈیوڈ وارنر، افغانستان کے محمد نبی، بنگلہ دیش کے لٹن داس، نیوزی لینڈ کے ایڈم ملن اور ٹیم سائفرٹ نے اسکواڈ کو جوائن کر لیا ہے۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Karachi Kings (@karachikingsary)

ہیڈ کوچ روی بوپارا کہتے ہیں کراچی کنگز کیساتھ طویل عرصے سے تعلق ہے۔ ہمارا مقصد بہترین کرکٹ کھیلنا ہے۔ ڈیوڈ وارنر کی شمولیت نے ٹیم مضبوط تر بنا دی ہے۔ ہمارا اسکواڈ متوازن ہے اور جیت کے لیے پر امید ہیں۔

واضح رہےکہ پی ایس ایل 10 کا آغاز 11 اپریل سے ہونا ہے۔ ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ کا مقابلہ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں دو مرتبہ کی فاتح لاہور قلندرز سے ہوگا۔

ٹورنامنٹ چار شہروں کراچی، لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں کھیلا جائے گا جس کا فائنل 18 مئی کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول ہے۔ پی ایس ایل 10 کا میلہ 37 دن تک جاری رہے گا جس میں مجموعی طور پر 34 میچز کھیلے جائیں گے۔

PSL 10 اے اسپورٹس پر براہ راست نشر کیا جائے گا