تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

پیرس: صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے سرگرم عمل تنظیم اویئر گرلز کو فرانس میں شیراک پرائز سے نوازا گیا۔ یہ انعام ان اداروں یا افراد کو دیا جاتا ہے جو تنازعات کا شکار علاقوں میں اپنی جانوں پر کھیل کر قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

فرانس کے سابق صدر جیکس شیراک کے نام سے منسوب یہ پرائز رواں برس پاکستانی تنظیم اویئر گرلز اور ایک موسیقار طائفے پونٹینیما کوئر کو دیا گیا۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں پر مشتمل یہ طائفہ بوسنیا ہرزگوینیا میں تمام طبقوں کی روایتی موسیقی کو پیش کرتا ہے۔

دوسری جانب اویئر گرلز خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے مصروف عمل ہے۔ اس کی منفرد بات اس تنظیم کا صرف لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہونا ہے اور اس میں کوئی مرد شامل نہیں۔ فیصلہ سازی سے لے کر نچلی سطح کے کارکنان تک، اویئر گرلز کے صوبے میں موجود نیٹ ورک میں صرف لڑکیاں اور خواتین ہیں۔

یہ تنظیم گزشتہ 14 سال سے پختونخواہ میں خواتین کی صحت و تعلیم پر کام کر رہی ہے اور معاشی خود مختاری کے عمل میں ان کی مدد کر رہی ہے۔

تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسس اولاندے نے بھی شرکت کی اور قیام امن کے لیے دونوں اداروں کی خدمات کو سراہا۔

اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں اپنے اس سفر کا احوال بتایا۔

سنہ 2002 میں جب اس ادارے نے عالمی یوم خواتین کے دن سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو اس وقت گلالئی کی عمر صرف 16 سال تھی۔

گلالئی کو اس سے قبل بھی کئی اعزازات مل چکے ہیں جن میں ڈیموکریسی ایوارڈ 2013 بھی شامل ہے۔ انہیں 30 سال سے کم عمر 30 رہنما نوجوانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جبکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن نے انہیں ’تبدیلی کا استعارہ‘ قرار دیا۔

اپنے سفر کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے گلالئی نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی قدامت پسند معاشرتی روایات نے، جس میں عورت کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، انہیں ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی طرف متوجہ کیا جو خواتین کے لیے کام کر سکے۔ ’یہاں پر سب کچھ مردوں کے مزاج کے حساب سے ہوتا ہے۔ گھر کے مرد چاہیں گے تو اس گھر کی خواتین پڑھ سکیں گی اور کوئی کام کرسکیں گی۔ لیکن اگر مرد نہیں چاہیں گے تو عورتوں کو ان کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا‘۔

گلالئی کا کہنا ہے کہ یہاں کے معاشرے میں، اور اس جیسے دنیا کے دیگر کئی معاشروں میں تعلیم بنیادی حق نہیں، ایک سہولت ہے جو صرف قسمت سے مل سکتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس ادارے کے لیے ان کے عزم کو پختہ ان کی کزن کے ساتھ ہونے والے واقعہ نے کیا۔ ان کی ایک کزن جو ان کے ساتھ اسکول میں زیر تعلیم تھی، اسے پائلٹ بننے کا بہت شوق تھا۔ ’اس کے عزائم بہت بلند تھے اور وہ آسمان کو چھونا چاہتی تھی لیکن میٹرک میں جانے سے قبل ہی اس کی شادی کردی گئی‘۔

گلالئی نے بتایا کہ جس شخص سے اس کی شادی کی گئی، وہ نہ صرف عمر میں اس سے دگنا تھا بلکہ شادی کے بعد وہ ایک تشدد پسند شخص ثابت ہوا جس نے بیوی کو حقیقی معنوں میں پاؤں کی جوتی سمجھا۔

گلالئی کے مطابق اس واقعہ نے انہیں بہت دکھ پہنچایا اور انہوں نے سنجیدگی سے پختونخواہ کی لڑکیوں کے لیے ایسا ادارہ قائم کرنے کے لیے کام شروع کردیا جو انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوا سکے۔

خواتین پر زیادتیاں ایک معمول کی بات

گلالئی نے بتایا کہ خواتین کے بنیادی حقوق ان سے چھن جانے سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ خواتین ان زیادتیوں کو اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کر چکی ہیں۔ بقول گلالئی، وہ ان تمام زیادتیوں کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اسے بدلنے کی خواہش تک نہیں رکھتیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’میری کزن کی شادی کردی گئی جس کے باعث وہ اپنی تعلیم بھی نہ مکمل کر سکی۔ جبکہ اس کے بھائی تاحال زیر تعلیم ہیں اور وہ جو پڑھنا چاہتے ہیں انہیں پڑھنے دیا جارہا ہے۔ یہ ہماری طرف ایک عام بات ہے‘۔

گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے لڑکیوں کو اس بات کا شعور دلانا شروع کیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو زیادتی سمجھیں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔

غیر ملکی ایجنٹ

گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو حسب روایت ان کے بارے میں اس قسم کی باتیں پھیلائی گئیں کہ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں، اور بیرونی عناصر کی معاونت سے پاکستانی ثقافت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ ’لیکن اب آہستہ آہستہ لوگوں کو ہماری نیک نیتی کا یقین ہوگیا ہے۔ اب لوگ ہمارے بارے میں خود کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ کی اقدار و ثقافت کے اندر رہتے ہوئے ہم نے کام کیا اور کبھی اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کیا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کی مقبولیت کا ایک سبب اس کے ارکان کا صرف لڑکیوں پر مشتمل ہونا بھی تھا۔ ’بے شمار لڑکیوں نے اسی لیے ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کی کہ انہیں اپنے گھروں سے کام کرنے کی مشروط اجازت تھی کہ وہ مردوں سے میل جول نہیں رکھیں گی۔ اسی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پارہی تھیں۔ اویئر گرلز کے پلیٹ فارم سے انہیں موقع مل سکا کہ وہ کام کرسکیں‘۔

گلالئی کے مطابق خیبر پختونخواہ کی روایات تو اب بھی برقرار ہیں تاہم خیالات میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے۔ کئی والدین نے گلالئی سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو اس ادارے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک کار آمد حصہ بن سکیں۔

یہی نہیں، گلالئی اور ان کی ٹیم جب مخلوط ( کو ایجوکیشن) اسکولوں میں ٹریننگ دینے کے لیے جاتی ہے تو اسکول کی انتظامیہ اصرار کرتی ہے کہ صرف لڑکیوں کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی آگاہی دی جائے، تاکہ یہ آگے چل کر اپنے گھر کی خواتین کو خود مختار بنائیں۔

گلالئی اور ان کی ٹیم کے کام کا دائرہ کار مختلف اسکولوں اور کمیونٹیز میں پھیلا ہوا ہے جہاں یہ کچھ لڑکیوں یا خواتین کو منتخب کر کے ٹریننگ دیتی ہیں۔ وہ لڑکی یا عورت بعد ازاں مزید 10 لڑکیوں کو سکھانے کی پابند ہوتی ہے۔

خود مختاری کا مطلب بے راہ روی نہیں

گلالئی نے بتایا کہ خواتین کی خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر جائیں۔ ایسی خواتین جو غربت کا شکار ہیں، معاشی طور پر خود مختار ہو کر اپنے خاندان کا کارآمد حصہ بن سکتی ہیں۔ ’ہمارے ادارے نے خواتین کو معاشی امداد دینے کے بجائے انہیں خود مختار بنایا۔ انہیں سکھایا کہ کس طرح مختلف کام کر کے وہ معاشی خود مختاری حاصل کرسکتی ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ان خواتین کو نہ صرف خود مختار بلکہ با اعتماد بھی بنایا گیا جس کے بعد اپنے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ضلعی حکومت سے خود رابطہ کیا اور اپنے مسائل ان کے سامنے رکھے۔

گلالئی کا ماننا ہے کہ خواتین اور نوجوان، معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو معاشروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا ادارہ بھی انہی دو طبقوں کو رہنمائی اور حتیٰ الامکان مدد فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

Comments

- Advertisement -