اشتہار

لوک داستانوں پر بننے والی فلمیں

اشتہار

حیرت انگیز

قدیم داستانیں، حکایات اور لوک کہانیاں ہر زبان کے ادب کا حصّہ ہیں جو کسی خطّے کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور اقوام کے طور طریقوں اور ان کے مشاہیر کا تعارف بھی کرواتی ہیں اور انسان کے صدیوں‌ پر پھیلے ہوئے سفر کو ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں اور زبانوں میں لوک ادب صدیوں سے عوام النّاس میں مقبول ہے۔ ان میں رومانوی داستانیں اور عشق و محبّت کے لازوال قصّے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان داستانوں کے کردار برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

یہ لوک داستانیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی کتابی شکل میں زندہ رہیں جب کہ دورِ جدید میں انھیں ڈراموں اور فلموں کی شکل میں محفوظ کیا گیا اور اس میڈیم کے ذریعے خاص طور پر رومانوی داستانوں کو لازوال شہرت اور مقبولیت ملی۔ یہاں ہم ان مشہورِ زمانہ لوک داستانوں کی بات کر رہے ہیں جن پر فلمیں بنائی گئیں اور یہ کہانیاں بہت مقبول ہیں۔

- Advertisement -

پاکستان کی لوک داستانیں
پنجاب کی مشہورِ زمانہ "ہیر رانجھا” ، "سوہنی مہینوال” ، "مرزا صاحباں” اور "دُلا بھٹی ” کے رومانوی قصے، وادیِ مہران کی "سسی پنوں”، "عمر ماروی”، "نوری جام تماچی” اور "سورٹھ” جیسی داستانوں کو فلم کے پردے پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان اور پختونخوا کے علاقوں سے "یوسف خان شیر بانو” ، "آدم خان درخانئی” اور "موسیٰ خان گل مکئی” کی رومانوی کہانیوں پر بھی فلمیں بنیں۔ یہ علاقائی لوک داستانیں ہیں جب کہ اردو زبان میں "انار کلی” اور "شیخ چلی” وغیرہ مشہور کہانیاں ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ داستانیں حقیقی ہیں یا من گھڑت اور ان کے کردار بھی کسی کے ذہن نے تخلیق کیے تھے۔

برصغیر میں لوک فلمیں
برصغیر پاک و ہند میں داستانِ لیلیٰ مجنوں کو 1922ء میں زبردست شہرت ملی کہ اسے فلمایا گیا تھا۔ اردو ادب کی مشہور ترین داستان انار کلی کو اس کے چھے سال بعد پردے پر پیش کیا گیا جس پر ایک ناول لوگ پڑھ چکے تھے۔ تقسیم سے قبل خاموش فلموں کے دور میں پنجاب کی لوک داستانوں میں سے پہلی داستان سسی پنوں 1928ء میں فلمائی گئی۔ پنجاب کی مشہور لوک کہانیوں میں سے پہلی فلم سوہنی مہینوال بھی اسی سال جب کہ اگلے سال مرزا صاحباں اور ہیر رانجھا کو فلمایا گیا۔ ناطق فلموں کا دور آیا تو لاہور میں پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا 1932 میں بنائی گئی۔ تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں بھی یہ قصے کہانیاں متعدد بار سنیما پر پیش کیے گئے۔

1970ء کی دہائی میں پشتو فلموں کے ابتدائی دور میں پہلی فلم یوسف خان شیر بانو ایک لوک داستان تھی جس میں یاسمین خان اور بدرمنیر نے ٹائٹل رول کیے تھے۔ اگلے سال اسی جوڑی کو فلم آدم خان درخانئی میں بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی جو مشہور زمانہ لوک کہانیاں سنیما کے پردے پر پیش کی گئیں۔

ہیر رانجھا
ہیر رانجھا پاکستانی لوک داستانوں میں سب سے مقبول رہی ہے۔ اسے پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر سید وارث شاہؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لوک داستانوں میں یہ واحد رومانوی داستان ہے جس میں دو مشہور کہانیاں ہیں۔ ایک "ہیر اور رانجھا” کی اور دوسری "سہتی اور مراد” کی۔ پاکستان میں صرف پندرہ برس کے دوران اس کہانی کو پانچ بار فلمایا گیا جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لازوال داستان پر پہلی بار ہدایت کار نذیر نے 1955 میں ہیر کے نام سے فلم بنائی جس میں سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی نے مرکزی کردار کیے تھے۔

دوسری مرتبہ ہدایت کار ایم جے رانا نے اسی کہانی کے ایک ثانوی کردار یعنی سہتی پر 1957 میں فلم بنائی جس میں مسرت نذیر اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔

تیسری مرتبہ ہدایت کار جعفر بخاری نے اسی کہانی کو ہیر سیال کے نام سے 1965 میں پیش کیا جس میں فردوس اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔ پانچویں اور آخری فلم ہدایت کار مسعود پرویز کی تھی جسے 1970 میں ہیر رانجھا کے نام سے ایک شاہکار فلم قرار دیا گیا۔ اجمل نے فلم میں "کیدو” کے روپ میں اس کردار کو گویا امر کر دیا۔

سسی پنوں
اس کہانی کو پنجاب کے قدیم شاعروں نے بڑے خوب صورت انداز میں منظوم پیش کیا۔ ہاشم شاہ نامی شاعر کا کلام سب سے زیادہ مقبول ہوا جس کو ایک مخصوص دھن میں گایا بھی جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے "سسی پنوں” کی کہانی پر مبنی فلم سسی 1954 میں بنائی گئی جو پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم بن گئی۔ ہدایت کار داؤد چاند کی اس یادگار فلم میں پاکستان کی پہلی سپراسٹار ہیروئن صبیحہ خانم نے "سسی” کا ٹائٹل رول کیا جب کہ ہیرو سدھیر "پنوں” کے کردار میں سامنے آئے تھے۔

تقسیم کے بعد اسی نام سے فلم سندھی زبان میں بھی بنائی گئی۔ یہ 1958 کی بات ہے جب کہ باقی تین فلمیں پنجابی زبان میں تھیں جن میں 1968 میں ایک فلم، دوسری 1972 اور پھر 2004 میں بنائی گئی۔

سوہنی مہینوال
پنجاب کی مشہور لوک داستان "سوہنی مہینوال” پر ہدایت کار ایم جے رانا کی اردو فلم سوہنی 1955 میں ریلیز ہوئی جس میں صبیحہ خانم اور سدھیر نے مرکزی کردار نبھائے۔ اس مقبولِ عام کہانی کو ہدایت کار ولی صاحب نے دوسری بار سوہنی کمہارن کے نام سے 1960 میں بنایا جس میں بہار اور اسلم پرویز نے شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ 1973 میں اسی داستان پر نیم مزاحیہ فلم بنائی گئی جب کہ چوتھی بار ہدایت کار رضا میر نے ممتاز اور یوسف خان کو فلم سوہنی مہینوال میں مرکزی کردار سونپے اور یہ 1976 میں ریلیز ہوئی۔ اسے 2004 میں بھی فلمایا گیا لیکن یہ اتفاق ہے کہ سوہنی مہینوال کی کوئی بھی فلمی پیشکش بڑی کام یابی سے محروم رہی۔

تقسیم سے قبل بھی سوہنی مہینوال کی کہانی کو پانچ مرتبہ فلمایا گیا تھا۔ اور یہ اس دور میں ہندوستان کے تینوں بڑے فلمی مراکز بمبئی، کلکتہ اور لاہور میں الگ الگ بنائی گئی تھی۔

مرزا صاحباں
پاکستان کی لوک داستانوں میں "مرزا صاحباں” کا قصہ بڑا مشہور ہوا جسے
پاکستان میں پہلی بار ہدایت کار داؤد چاند نے اردو زبان میں اسی نام سے پیش کیا تھا۔ 1956 کی اس فلم میں مسرت نذیر اور سدھیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ دوسری مرتبہ ہدایت کار مسعود پرویز نے اور
اسی کہانی پر 1982ء میں بھی فلمایا گیا۔ تقسیم سے قبل "مرزا صاحباں” کی کہانی کو پانچ بار فلم بند کیا گیا تھا۔

بدیسی لوک داستانیں
پاکستان کی لوک داستانوں کے علاوہ دوسرے خطے کی داستانوں اور بدیسی لوک کہانیوں کو بھی فلمی پردے پر پیش کیا گیا جن میں خاص طور پر فارسی اور عربی داستانیں اور کہانیاں شامل ہیں۔ عربی ادب سے "لیلیٰ مجنوں” ، "وامق عذرا” اور "الف لیلہ” وغیرہ کی داستانیں اور فارسی ادب سے "شیریں فرہاد” اور "گل بکاؤلی” جیسی داستانیں اور کہانیاں بھی اردو میں ترجمہ ہوئیں اور ان پر پاکستان میں فلمیں بنائی گئیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں