کشمیر النسل پنڈت برج موہن دتاتریہ اردو زبان کے ایک بڑے عاشق تھے جنھیں ہم ایک ادیب، شاعر، ڈرامہ نویس، ناول نگار اور انشا پرداز کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے ان کا جذبہ اور کاوشیں قابلِ رشک ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہیں۔ برج موہن دتاتریہ اردو زبان میں تحقیق، تصنیف و تالیف پر مشتمل بڑا خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔
آج پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ وہ ایک شان دار شخصیت کے مالک اور نہایت شائستہ آداب تھے۔ ان کی خوش اخلاقی اور ملن ساری ہی کی تعریف نہیں کی جاتی تھی بلکہ انھیں ہر قسم کے تعصب اور حسد سے دور رہنے والا بڑا انسان مانا جاتا تھا۔ ان کے والد پنڈت کنہیا لال ریاست نابھ میں افسر پولیس تھے۔ برج موہن دتاتریہ چھوٹے تھے جب وال چل بسے۔ برج موہن نے اپنے شوق اور محنت سے تعلیم حاصل کی اور الطاف حسین حالی کے شاگرد بنے۔
پنڈت کیفی کو شعر و سخن کا ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ انھوں نے کم عمری ہی سے شعر کہنا شروع کیا اور شاعری کی ابتدا رواجِ زمانہ کے مطابق غزل گوئی سے کی لیکن جدید رجحانات اور تحریکات کے زیرِ اثر نیچرل شاعری پر توجہ کی۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل اور نظم ہی ان توجہ کا مرکز رہی ہیں۔
پنڈت کیفی نے لسانیاتی موضوعات پر کئی مضامین قلمبند کیے جو کیفیہ کے نام سے سنہ 1942ء میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ اس کتاب کو اردو لسانیات کے ابتدائی اہم کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علمِ لسانیات، قواعد، محاورہ اور روز مرہ سے برج موہن دتاتریہ کو ابتدا ہی سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے انشا کی کتاب ”دریائے لطافت” ترجمہ بھی کیا اور پنڈت کیفی کا یہ ترجمہ بہت سلیس، رواں اور بامحاورہ ہے۔
معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق نے پنڈت برج موہن دتاتریہ کے بارے میں لکھا، انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔ بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔
ابتدا میں اپنے کلام(شاعری) پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔
پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلّی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپّے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلّی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔
پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔
اردو زبان کے اس عاشق کی تصانیف میں منشورات (لیکچرز و مضامین، 1934ء)، واردات (شعری مجموعہ، 1941ء)، پریم ترنگنی (مثنوی)، توزک ِ قیصری (منظوم تاریخِ ہند، 1911ء)، راج دلاری (ڈراما، 1930ء)، خمسۂ کیفی (اُردو زبان سے متعلق مقالات و منظومات، انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی، 1939ء)، اُردو ہماری زبان (1936ء)، نہتا رانا یا رواداری (تاریخی ناول،1931ء)، بھارت درپن (ڈراما) و دیگر شامل ہیں۔
پنڈت کیفی کے سانحۂ ارتحال پر ڈاکٹر زور نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”ان کی وفات سے اردو دنیا ایک ایسے محسن سے محروم ہو گئی ہے جس کا بدل ملنا ممکن نہیں ہے۔ اردو میں شاعر، ادیب، ماہر لسانیات اور عروض و قواعد کے جد اجدا ماہر پیدا ہوتے رہیں گے۔ لیکن شاید ہی کوئی ایسا پیدا ہو جو ان سب میں پنڈت کیفی کی طرح ایک خصوصی اہمیت کا مالک ہو۔”