نصبُ العین یعنی اصلی مقصد، دلی منشاء اور اُصول۔ جی ہاں لُغت تو یہی بتاتی ہے اور لغت کو کیا پڑی ہے کہ وہ غلَط بیانی سے کام لے، سو ہم بھی نصبُ العین کے ان معنوں سے صد فی صد متفق ہیں۔
یہ نصبُ العین ہی تو ہے جو اس وقت سے ہمارے ساتھ سفر کرتا ہے جب اس کے مفہوم سے ہماری آشنائی بھی نہیں ہوتی۔ بس بچپن کے معصوم خواب اور خواہشیں ہمرکاب ہوتی ہیں۔ اکثر بچّے نوعمری میں کسی سے بھی متأثر ہو کر اُس جیسا بننے کے آرزو مند ہوتے ہیں یا پھر کسی بھی پیشے اور شعبے سے اتنا زیادہ متأثر ہوجاتے ہیں کہ اسے ہی اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔
خوابوں اور خواہشوں کے اس سفر میں کام یابی سے ہم کنار ہونے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے اور حصولِ تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے میں داخلہ لازمی امر ہے۔ داخلہ، جو کبھی باآسانی ہو جاتا ہے اور کبھی کارِ محال بن جاتا ہے۔
بعض اسکولوں میں بچّوں کے داخلے کے لیے والدین کو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اتنے کہ اُنہیں دن میں تارے نظر آجاتے ہیں، چونکہ وہ اپنے بچوں کو حسبِ منشاء اسکول میں داخلہ دلانا چاہتے ہیں، اس لیے یہ کوہِ گراں سَر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر لیتے ہیں۔ خواہ داخلے کے ابتدائی مرحلے سے داخلہ مکمل ہو جانے تک اُن پر کچھ بھی گزر جائے وہ خوش رہتے ہیں۔ بالآخر خواہش کی تکمیل کی فتح اُن کے حصّے میں آجاتی ہے اور جن کی کوشش ثمر بار نہیں ہوتی وہ دنوں ملول رہتے ہیں اور یہ دورانیہ کبھی کبھی بڑھ کر مہینوں اور برسوں تک محیط ہوجاتا ہے۔
بچّوں کے اسکول میں داخلے کا پہلا مرحلہ داخلہ فارم کا حصول ہے جو کبھی کبھی بہت بڑامسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ بعض اسکولوں میں محض فارم کے حصول کے لیے شب بھر اسکول کے باہر ہی ڈیرہ ڈالنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں داخلہ فارم ”پہلے آئیے پہلے پائیے“ کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی مقصد کے لیے جمع ہونے والے کبھی کبھی تقسیم کے اس عمل کے دوران باہمی تفریق کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تعلقات کی ڈور کمزور اور رشتوں میں دراڑ پڑ جاتی ہے، ضرب کی تو گنجائش ہی نہیں بچتی۔ بیچارہ مقصد مضروب ہو کر بے بس اور تنہا رہ جاتا ہے کیونکہ اس افراتفری میں وہ پسِ پُشت چلا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی طلوعِ آفتاب سے گھنٹوں محض اس لیے قطار میں کھڑا ہے کہ اپنا گوہرِ مقصود پا ئے گا اور جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی نظر آتی ہیں تو یکایک عقب سے ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور مطلوبہ فارم جھپٹ لیتا ہے۔ انتظار کی اذیت جھیلنے والے کے لیے یہ طرزِ عمل ایک دھچکا ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ جناب بھی تُو تراخ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ سویرے سے جہاں پکنک کا سماں اور باہمی الفت و اپنائیت کا ماحول ہوتا ہے داخلہ فارم دیے جانے کا آغاز ہوتے ہی وہاں ہماہمی اور بے بسی کی عجب کیفیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گویا محشر برپا ہو جاتا ہے۔ اس تمام عرصے میں تہذیبی رویے، انسانی نفسیات، کردار و اخلاق کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں وہ انسان شناسی میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اُن والدین کی حالت واقعی قابلِ رحم ہوتی ہے جن سے طویل اور تکلیف دہ انتظار کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ کو فارم نہیں مل سکتا، کیونکہ آپ کے بچّے کی عمر پانچ دن کم ہے۔ ایسے میں وہ جس ذہنی اذیت اور کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں آپ اسے سمجھ سکتے ہیں۔ اس اضطرابی کیفیت میں فشارِ خون بلند ہوتا ہے تو دل کی رفتار بھی زیر و زبر ہونے لگتی ہے۔ اب والدین کتنی ہی فریاد اور گریہ و زاری کرلیں اُن پر کان نہیں دھرے جاتے کہ اصول اصول ہوتا ہے۔ اس سے روگردانی ممکن نہیں لیکن ان ہی تشنہ کاموں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس سیرابی کا ایسا نسخۂ کیمیا ہے جس کی محض ایک خوراک بااصول ‘مریضوں’ کو ‘شفا یاب’ کر دیتی ہے۔ جی ہاں، بھاری بھرکم سفارش اور رشوت کے زور پر پارساؤں کی اصول شکنی تعجب خیز تو نہیں۔ تعلیمی ادارے نامور ہوں یا غیرمعروف وہاں داخلے قابلیت کے ساتھ سفارش اور اکثر ایک قسم کی رشوت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ جن کی سفارش اور رشوت کا معیار اسکول مالکان کی حریصانہ خواہشات کی طرح بہت اعلیٰ ہوتا ہے اُن کے لیے داخلہ مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے بچّوں کو من پسند اسکول میں داخل کرانے کے لیے کسی نہ کسی طرح اسکول مالکان یا انتظامیہ کے مطالبات پورے کردیتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ کیونکہ متعلقہ اسکول میں داخلہ اُن کے بچّے کا حق بنتا ہے۔ وہ تو یہی سمجھتے ہیں، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔ اب اگر ان لوگوں کی وجہ سے اربابِ اختیار کے حوصلے بلند اور علم کی تجارت کو فروغ ملتا ہے تو ضرور ملے۔ بعض اسکولوں میں سال بھر، چھے ماہ یا تین ماہ قبل ہی رجسٹریشن کروانا پڑتا ہے جو مقررہ مدّت میں رجسٹریشن میں ناکام ہوجاتے ہیں، انہیں بھی سفارش اور رشوت کی لگام تھامنی پڑتی ہے، ورنہ گھوڑا بدک جائے تو کیا ہوتا ہے؟ بخوبی جانتے ہیں جب ہی تو سرِتسلیم خم کر لیتے ہیں۔
اکثر مدارس میں داخلوں کی مدّت محدود ہوتی ہے۔ اس میں ایک دن کی تاخیر بھی گوارا نہیں ہوتی خواہ سفارش اور رشوت کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہو۔ مالکان ہلکے نہیں پڑتے۔ اسکولوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جہاں سارا سال داخلے جاری رہتے ہیں اور والدین کو بھی….
"جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے” کی دوڑ نہیں لگانی پڑتی، بس وہ تو اس نیک ہدایت پر عمل کرتے ہیں کہ
"سبو اُٹھا کے پیالہ بھر، پیا لہ بھر کے دے اِدھر”
اور پھر پیالہ و پیمانہ کیا پورا مے خانہ اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جی ہاں، جھٹ پٹ بچّے کا اسکول میں داخلہ بھی ہوگیا اور مزید بچّوں کی گنجائش جوں کی تُوں رہی (ہے نا کمال کی بات) اور والدین بھی آزاد۔ جب اور جس وقت جی چاہا بچّے کا داخلہ کروا دیا۔
بڑے اور چھوٹے معروف اور غیر معروف اسکولوں میں بھی فرق ہے۔ بعض نام ور اور قد آور مدارس میں رشوت اور سفارش پر سخت بُرا منایا جاتا ہے، کیونکہ وہ اسے گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں امدادِ باہمی کے پروگرام پر عمل درآمد اور اِس ہاتھ لو، اُس ہاتھ دو کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے داخلے کے لیے ڈونیشن لیتے ہیں۔ جیسے ہی مطلوبہ امداد اُن تک پہنچتی ہے بچّے کو داخلہ دے دیتے ہیں۔ یہ تو بڑے لوگوں کی بُری باتیں ہیں۔ ہاں غیر معروف اور چھوٹے اسکول والوں کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ والدین کی امداد پر ان کے بچّوں کو داخلہ دیں۔ اس لیے وہ اپنے اسکول میں داخلے کے لیے انعام کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اب گنگا اُلٹی بہے یا سیدھی، بہتی گنگا میں تو کوئی بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔ اور ضرورت مندوں کا تو حق بھی زیادہ بنتا ہے۔ بچّے تو بچّے بڑے بھی انعام کے لالچ میں دوڑے چلے آتے ہیں۔ ایسی ‘عاقلانہ’ سوچ کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔

======= گرامر سیکنڈری اسکول (رجسٹرڈ) ======

ہمارا نصبُ العین………….معیارِ تعلیم پر گہری نظر

داخلے جاری ہیں……..داخلے جاری ہیں

معیار ہی نام ہمارا…….معیار ہی پہچان ہماری

+ پہلے پچاس داخلوں پر انعامات ہی انعامات

+ اسکول کورس، اسکول بیگ، اسکول شوز (جولائی اور اگست کی فیس معاف)

+ پوزیشن ہولڈر طلباء و طالبات ہمارے اسکول میں داخلہ حاصل کر کے 50% فیس میں کمی حاصل کر سکتے ہیں۔

+ سال بھر کی فیس یکمشت ادا کرنے پر ایک ماہ کی فیس معاف

+ بچّوں پر انفرادی و خصوصی توجہ

لیڈیز ٹیچرز کی ضرورت ہے

‘لیڈیز’ ٹیچرز ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ ایسے کئی اسکول ہم نے دیکھے ہیں جہاں کا نصابِ تعلیم بچّوں کی سمجھ سے تو بالاتر ہے ہی ماہر اور تجربہ کار اساتذہ کے ذہنِ رسا سے بھی خاصا دور ہے۔ اتنے فاصلے پر کہ اس پر ان کی گرفت مضبوط ہو ہی نہیں پا رہی۔ دیرپا گرفت تو پھر بعد کی بات ہے۔ معیارِ تعلیم کی اساس نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر رکھی جاتی ہے۔ سو جس اسکول کو اپنا معیارِ تعلیم جتنا بلند رکھنا ہوتا ہے، اسی کی مناسبت سے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ایسے تمام معیاری تعلیمی مدارس کے کرتا دھرتا اپنے بچّوں کو اُس معیار کی پہنچ سے بھی دور رکھتے ہیں جو اُن کا نصبُ العین ہے۔
بچّوں کا اسکول میں داخلہ فی زمانہ اتنا بڑامسئلہ کیوں بن گیا ہے؟ والدین من پسند اسکول میں داخلے کے آرزو مند ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تدریس اور مدرس سے بڑھ کر مدرسہ کی اہمیت کیوں ہے؟ اس کا سبب کہیں مقابلے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی خواہش تو نہیں یا معروف اسکول میں تعلیم دلوانے کو وہ بلند معیار زندگی کی ضمانت سمجھتے ہیں؟
ایسے والدین بھی ہیں‌ جو عموماً اس ‘سعادت’ سے محروم رہتے ہیں اور اسکول داخلے کے لیے وہ معیارِ تعلیم کو جس کسوٹی پر پرکھتے ہیں وہ واقعی ارفع سوچ کی حامل ہوتی ہے، یعنی ایسا اسکول جس کا نصابِ تعلیم و نظام تعلیمِ اسلامی و قومی روایات سے بھی ہم آہنگ ہو اور جدید تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہو۔ بیشک مشکل ترین کتب نہ ہوں جو اساتذہ سے بھی ہضم نہ ہوتی ہوں ایسی کتب ضرور ہوں جسے اساتذہ خود بھی سہولت سے پڑھ اور سمجھ لیں اور شاگردوں کو بھی آسانی سے پڑھا دیں اور بچّے اُس دل چسپی سے پڑھیں کہ اُن کے دل میں تعلیم کی امنگ اور علم کی لگن بڑھ جائے۔ اساتذہ خلوصِ نیت سے بچوں کو تعلیم دینے پر آمادہ ہوں اور اساتذہ اور طالب علموں کے مابین احترام و اعتماد کاجذبہ ہو۔ تب اس اسکول کے بہترین ہونے اور معیار پر کیا شبہ ہو گا؟
والدین کو چاہیے کہ اسکول میں بچّوں کے داخلے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے وقت اُن عوامل کو پیشِ‌ نظر رکھیں جو واقعی تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور اس ‘معیارِ تعلیم’ پر نظر رکھنے سے گریز کریں جس میں انعامات، فیس رعایت، ڈونیشن، سفارش جیسی ہر بھاری شے موجود ہو، لیکن معیارِ تعلیم اتنا ہلکا ہو کہ نصبُ العین کے رنگ بھی پھیکے پڑنے لگیں۔

Comments