ہندوستان کی تاریخ میں تقسیم کا سال خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ سنہ 1947ء میں ہندوستان کو غلامی کی زنجیر سے رہائی میسر تو آئی تھی مگر ساتھ ہی تقسیمِ ہند کے واقعات نے ایک عجیب سوگوار فضا قائم کر دی تھی۔ عالم یہ تھا کہ انسان نیک و بد کی تمیز بھول بیٹھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبحِ آزادی اپنے دامن میں خون خرابہ، فسادات، مذہبی منافرت اور انسانیت سوز واقعات لے کر آئی تھی۔
تقسیمِ ہند کا واقعہ بجائے خود ایک عظیم سانحہ تھا، ساتھ ہی اس کا شدید رد عمل فسادات کی صورت میں سامنے آیا اور قتل و غارت گری کی وہ داستان رقم ہوئی جن سے تاریخ کے اوراق چھلنی ہیں۔
ایک قوم کے لوگ دوسری قوم کے لوگوں کی عزّت اور خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ یہی مختلف ملّت و مذہب کے لوگ صدیوں سے اکٹھے بھی رہے تھے اور ان میں تعلقِ خاطر، ہر طرح کا میل جول اور خلوص و معاونت کا سلسلہ رہا تھا۔ جب تقسیم کا اعلان ہوا تو ایک طرف ہندوستان میں بسے مسلمان اپنا گھر بار اپنے پیاروں کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر رہے تھے، اور دوسری جانب پاکستان سے ہندو اور سکھ ہندوستان کا رخ کر رہے تھے۔
ایسے واقعات اور بدترین حالات کا اثر انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا جن میں اردو ادب بھی شامل ہے۔ نظم ہو یا نثر، ناول یا افسانے، تقسیم و فسادات پر لکھنے کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ ہمارے ادیب اس پُرخوں داستان کو نہ صرف قلم بند کر رہے تھے بلکہ اپنی تحریروں سے ذہن سازی بھی کررہے تھے۔ نفرت کو پاٹنے، اور حقیقت کو مان کر مل جل کر رہنے کا پیغام دے رہے تھے جن میں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، قرۃُ العین حیدر، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی وغیرہ اور بھی کئی نام ہیں۔
’’تقسیمِ ہند کا المیہ‘‘ بیان کرتے افسانوں میں ایک "جلا وطن” بھی تھا جو قرۃُ العین حیدر کے قلم سے نکلا تھا اور اس میں انھوں نے ٹوٹتے بکھرتے خاندان کی تصویر پیش کی ہے۔ آج یومِ آزادی کی مناسبت سے اس افسانے کا سرسری جائزہ پیش ہے جو بتاتا ہے کہ تقسیم نے محض ملک کا بٹوارہ نہیں کیا تھا۔ رشتوں کا بھی بٹوارہ کر دیا تھا۔ ایک گھر کے باپ بیٹا الگ الگ ملکوں کا حصّہ بن گئے تھے۔ ایک بیمار اور مجبور باپ جو نہ ملک کا بٹوارہ چاہتا تھا نہ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان میں بسنا چاہتا تھا۔ مگر اس کا بیٹا نہ صرف پاکستان ہجرت کر گیا بلکہ پاکستانی فوج میں میجر بھی ہو گیا تھا۔ ایسے میں ان کے اپنے ہی وطن میں ان کی حیثیت مشکوک ہو گئی تھی۔ ایک تو اولاد کی جدائی کا غم، اس پر سے ان کے وطن بھارت میں پولیس کی آئے دن کی تفتیش۔ دوسری کشمکش اس خاندان کی یہ دکھائی ہے کہ ان کی بیٹی کو بھی پاکستان جانا تھا جو کہ تقسیم کے وقت اپنے والد کی علالت کے سبب انہی کے پاس رہ گئی اور اب والد کی پریشانی دیکھ کر رنجیدہ تھی۔
اس افسانے کی یہ سطور پڑھیے، ’سارا جون پورعمر بھر سے واقف ہے کہ بابا کتنے بڑے نیشنلشٹ تھے۔ تب بھی پولیس پیچھا نہیں چھوڑتی۔ سارے حکام اور پولیس والے جن کے سنگ جنم بھر کا ساتھ کا اٹھنا بیٹھنا تھا، وہی اب جان کے لاگو ہیں, کل ہی عجائب سنگھ چوہان نے جو عمر بھر سے روزانہ بابا کے پاس بیٹھ کر شعر و شاعری کرتا تھا دو بار دوڑ بھجوا کر خانہ تلاشی لی۔‘‘
تقسیم نے عجیب حالت کر دی تھی۔ ایک تو زندہ لوگوں سے زندگی بھر کے لیے بچھڑ جانے کا غم، دوسری جانب معاشی مسائل منھ کھولے کھڑے تھے۔ مگر کشوری کے لیے ملازمت بھی ایسے ماحول میں آسان نہ تھی۔ کیوں کہ ان دنوں شرنارتھیوں کو ملازمت کے معاملے میں ترجیح دی جارہی تھی اور اسے صاف کہہ دیا گیا کہ آپ تو شائد کسی مجبوری کی وجہ سے یہاں رکی ہوئی ہیں، موقع ملتے ہی آپ بھی پاکستان چلی جائیے گا۔
ہاؤسنگ سوسائٹی بھی فکشن نگار قرۃُ العین حیدر کا ایک زبردست افسانہ ہے جو تقسیم و ہجرت سے متعلق ہے۔ کئی واقعات و حادثات کو سمیٹے مختلف کرداروں پر مبنی یہ افسانہ بالآخر تقسیم کے دور میں پہنچتا ہے۔ مشترکہ ہندوستان کی تقسیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے خاندانی جاہ و حشمت کے مالکان کو عرش سے فرش پر لا پٹخا تھا۔ انہی میں سے ایک کلکٹر صاحب کا خاندان بھی تھا۔ وہ کلکٹر صاحب جہاں دعوتِ طعام میں روسی برتن استعمال کیا کرتے تھے اور ان بلوری پیالیوں میں جن کے پانی میں سرخ گلاب کی پنکھڑیاں تیر رہی ہوتی تھیں، کھانے کے بعد انگلیاں ڈبو کر معطر کی جاتی تھیں، آج سرحد پار کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اکلوتے بیٹے سلمان کا کوئی پتہ نہ تھا۔ کلکٹر صاحب خود مفلوج ہو چکے تھے اور لاڑکانہ کے کسی علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ ناز و نعم سے پلی بڑھی چھوٹی بٹیا جو سرخ جوتیوں اور فر کا کوٹ پہنے ریشمی چھتری کے سائے میں جس کے موٹھ چاندی کے بنے ہوئے تھے مہاوت اور خدمت گار کی نگرانی میں ’’جمبو‘‘ کی سواری کیا کرتی تھیں۔ جن کی زندگی پر لوگ رشک کیا کرتے تھے آج وہی چھوٹی بٹیا زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لئے معمولی جاب پر گزارہ کرنے پر مجبور تھیں۔
یہ اور اس موضوع پر کئی دوسرے افسانے تقسیمِ ہند اور ہجرت کے موقع پر فسادات کی اور اس سے جنم لیتے انسانی المیوں کی چبھن لیے ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے۔