اسلام آباد : وفاقی حکومت نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جس کا مسودہ منظر عام پر آگیا ہے۔ جسے کل قائمہ کمیٹی داخلہ سے منظور کرایا جائےگا۔
مجوزہ ترمیم کے تحت حکومت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرے گی، ڈی آر پی اے کو سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار ہوگا۔
اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا محدود کرنے کی مجاز بھی ہوگی۔
پیکا ترمیمی بل2025 کے مسودے کے مطابق اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مواد ہٹانےکی ہدایت کا اختیار ہوگا۔
نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی مواد ہٹانے کا اختیاراتھارٹی کے پاس ہوگا، عوام کو قانون،اداروں، ریاست کیخلاف اُکسانے والی پوسٹ ہٹانے کا اختیار ہوگا۔،
اس کے علاوہ دہشت، خوف پھیلانے والی پوسٹ رکھنے والوں کیخلاف کارروائی کااختیاراور اسمبلی میں حدف شدہ الفاظ کہیں پوسٹ یا نشر کرنا قابل سزا جرم ہوگا۔
ترمیمی مسودہ کے مطابق سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کی حدف شدہ کارروائی نشر نہیں کی جاسکے گی، پابندی شدہ تنظیموں، ان کے نمائندوں کے بیانات سوشل میڈیا پر دیکھنے کیلئے نہیں رکھے جاسکتے۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کیا جائےگا، مذکورہ ٹربیونل ہائی کورٹ کے ججز اور سینئرصحافی سمیت دیگر پر مشتمل ہوگا۔
ٹربیونل کو سوشل میڈیا مواد سےمتعلق شکایات کو90دن میں نمٹانا ہوگا، ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف60دن کےاندر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا پرغلط معلومات پھیلانے پر3سال تک سزا،20لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے، جانچ پڑتال کے لئے وفاقی حکومت نیشل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی قائم کرےگی۔ مسودہ کے مطابق این سی سی آئی کے ڈی جی کے پاس آئی جی پولیس کے برابر اختیارات ہونگے،
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگیولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جس کا ہیڈ آفس اسلام آباد میں ہوگا، تمام صوبائی دارالحکومت میں دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
کوئی بھی شخص غلط خبر یا پوسٹ ہٹانے کیلئے اتھارٹی سے رجوع کرسکتا ہے، اتھارٹی24گھنٹے کے اندر درخواست پر کارروائی کرنے کی پابند ہے۔
اتھارٹی چیئرمین کے علاوہ 8ممبرز پر مشتمل ہوگی، چیئرمین پی ٹی اے،پیمرا بھی اس کاحصہ ہونگے، اتھارٹی توہین آمیز، فیک نیوز کی شکایات سننے کیلئے مؤثر اور شفاف طریقہ کار اپنائے گی۔
شکایات کنندہ کو ثابت کرنا ہوگا کہ فیک نیوز کا الزام درست ہے، اتھارٹی ہدایت کی خلاف ورزی پرمتعلقہ پلیٹ فارم کیخلاف ٹریبونل سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔