ہفتہ, دسمبر 21, 2024
اشتہار

نیکی کا بدلہ (پولینڈ کی ایک دل چسپ کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

ایک رات اتنی تیز آندھی آئی کہ درخت جڑوں سے اُڑ گئے، مکانوں کے چھجے اُڑ گئے اور پرندوں کے لاتعداد گھونسلے تباہ ہوگئے اور وہ ان میں سے گِر کر مر گئے۔

ایک لکڑہارے نے سوچا کہ آندھی سے جنگل میں درخت کافی گِر گئے ہوں گے اور لکڑی آسانی سے مل جائے گی۔ وہ صبح دھوپ نکلتے ہی جنگل کو چل دیا۔

جنگل میں ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی اور اِس پہاڑی کی ڈھلان پر ایک بہت بڑا درخت گِرا پڑا تھا۔ اس کا تنا ایک چٹان کے پتھّر پر پڑا تھا اور شاخیں پگڈنڈی پر پھیلی ہوئی تھیں۔

- Advertisement -

لکڑہارے نے درخت کی چھوٹی چھوٹی شاخیں کاٹنی شروع کیں تا کہ راستہ صاف ہو جائے۔ اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی دردناک آواز آ رہی ہو۔ اُس نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ آواز پتّھر کے نیچے سے آ رہی ہے۔ بہت ہی باریک آواز تھی۔ کوئی جان دار تکلیف سے کراہ رہا تھا۔

لکڑہارے سے رہا نہ گیا۔ اُس نے پتھر کے پاس جا کر آواز دی:

”کون ہے ؟ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟“

پتھر کے نیچے سے باریک سی آواز آئی ”خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔ میری جان نکلی جا رہی ہے۔ میں تمہیں اِس احسان کا بدلہ دوں گا۔“

لکڑہارا بولا ”خدا جانے تم کون ہو اور میرے احسان کا کیا بدلہ دو۔“

آواز آئی ”تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو دوسرے لوگوں کو ان کے نیک کاموں کا ملتا ہے۔ اس کی فکر مت کرو۔“

لکڑہارے نے کچھ دیر غور کیا۔ پھر بولا ”لیکن یہ پتھر اتنا وزنی ہے کہ میں کوشش بھی کروں تو اسے ہلا نہیں سکتا۔ یہ میری ہمّت سے باہر ہے۔“

آواز پھر آئی ”تمہیں سارا پتھر اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک کنارہ تھوڑا سا اٹھا دو۔ پھر میں خود ہی باہر نکل آؤں گا۔ اپنی کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنساؤ اور دستے پر زور لگاؤ۔“

لکڑہارے نے ایسا ہی کیا۔ اُس نے کلہاڑی کے پَھل کو پتھر کے نیچے پھنسا کر پورے زور سے پتھر کو ہلایا تو کوئی چیز رینگتی ہوئی اس کے نیچے سے نکلی۔ لکڑہارا حیران رہ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک سانپ کھڑا تھا جس کے سات پھن تھے۔ بجائے اس کے کہ وعدہ کے مطابق لکڑہارے کو اِس کے احسان کا بدلہ دیتا، وہ پھنکار کر بولا ”اب میں تمہیں ڈسوں گا۔“

لکڑہارا گھبرا کر بولا ”کیا کہا؟ مجھے ڈسو گے؟ اس لیے کہ میں نے تمہاری جان بچائی ہے؟“

سانپ نے اپنی ساتوں زبانوں سے شعلے برساتے ہوئے کہا۔ ”ہاں۔ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ برائی سے دیا جاتا ہے۔“

لکڑہارے کی سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا، وہ چپکے سے بھاگنے لگا۔ لیکن سانپ بھلا اُسے کہاں بھاگنے دیتا۔ اس نے لکڑہارے کی ٹانگ پکڑ لی اور بولا: ”میں نے یہی وعدہ کیا تھا نا کہ تمہیں وہی بدلہ دوں گا جو دوسرے لوگوں کو ملتا ہے۔“

لکڑہارا بولا” لیکن صرف تمہارے کہنے سے تو یہ بات نہیں ہو سکتی۔ مجھے لوگوں سے پوچھنے دو کہ جو نیکی میں نے تمہارے ساتھ کی ہے، اُس کا یہی بدلہ ملنا چاہیے جو تم مجھے دینا چاہتے ہو!“

سانپ نے کہا ”خوشی سے۔ بڑی خوشی سے ۔ تم جس سے چاہو پوچھ لو۔“ دونوں چل کھڑے ہوئے۔ کچھ دور جا کر اُنہیں ایک بوڑھا گھوڑا دکھائی دیا جو گھاس کھا رہا تھا۔ سانپ نے گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”چلو، گھوڑے سے فیصلہ کرائیں۔“

لکڑہارا بولا ”صرف اکیلا گھوڑا ہی نہیں، کم سے کم تین جانوروں سے پوچھیں گے؟“

سانپ بولا ”تم جتنے جانوروں سے چاہو، پوچھ لو۔ فيصلہ میرے ہی حق میں ہو گا۔“

وہ گھوڑے کے پاس جا کر بولے، ”گھوڑے بھائی، ہمارا فیصلہ کرو۔“ گھوڑے کی ہڈّیاں نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے چلا نہیں جاتا تھا۔ بڑی مشکل سے اُس نے سر اوپر اٹھایا اور کہا:
”کیا بات ہے؟“

لکڑہارا بولا، ”میں درخت سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ ایک پتھر کے نیچے سے اس سانپ کے کراہنے کی آواز آئی۔“ یہ کہہ کر لکڑہارے نے تمام بات تفصیل سے گھوڑے کو بتائی اور آخر میں کہا ”اور اب یہ کہتا ہے کہ میں تجھے ڈسوں گا۔ کیا یہ انصاف ہے؟“

گھوڑا بولا ”سانپ درست کہتا ہے۔ اِس دنیا میں یہی بدلہ ہوتا ہے نیکی کا۔ مجھے دیکھ لو جب میں جوان تھا تو ایک امیر آدمی کی بگھّی کھینچتا تھا۔ میرے پاؤں میں گھنگرو بندھے ہوتے تھے، اور ہر روز شام کو میری مالش ہوتی تھی۔ عمده سے عمدہ کھانے کو ملتا تھا۔ لیکن جب میں بوڑھا ہو گیا تو اس شخص نے میری تمام عمر کی خدمت کا صلہ دیا کہ مجھے جنگل میں چھوڑ دیا، جہاں ہر وقت بھیڑیوں اور دوسرے خوں خوار جانوروں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔“
لکڑہارا اس فیصلے سے مطمئن نہ ہوا۔ بولا ”آؤ دو جانوروں سے اور پوچھ لیں۔ اگر اُنہوں نے بھی تمہارے حق میں فیصلہ دیا تو پھر مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔“

یہ کہہ کر وہ آگے چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک بوڑھا کتّا دکھائی دیا، جو بہت کمزور تھا۔ وہ ایک ہڈّی کو چچوڑ رہا تھا۔ لکڑہارے نے کتّے سے کہا ” بھئی ہمارا ایک فیصلہ تو کر دو۔“

یہ کہہ کر اس نے ساری کہانی کتّے کو کہہ سنائی۔ کتّے نے غور سے ساری بات سنی اور پھر بولا ”سانپ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ دنیا کا یہی دستور ہے ۔ یہاں نیکی کا وہی صلہ مِلتا ہے جو سانپ تمہیں دینا چاہتا ہے۔ مجھے دیکھو۔ جب میں جوان تھا تو جس گھر میں مَیں رہتا تھا وہ لوگ مجھے کرسی پر بٹھاتے تھے۔ اچھّے سے اچھّا کھانے کو دیتے تھے۔ جب میں بوڑھا ہو گیا اور کِسی کام کا نہ رہا تو گھر سے نکال دیا گیا۔ اُسی گھر سے جس کی میں نے تمام عمر رکھوالی کی۔ غیروں کو اُس کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور چوروں کو بھونک بھونک کر بھگایا۔ اب میں بھوکوں مر رہا ہوں۔ میاں لکڑہارے؟ نیکی کا یہی بدلہ ملتا ہے۔ سانپ کچھ غلط تو نہیں کہہ رہا۔“

اب وہ تیسرے جج کی تلاش میں نکلے۔ جلد ہی انہیں ایک دبلی پتلی، مریل سی گائے مل گئی جو زمین پر بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔ سانپ اور لکڑہارے کو دیکھ کر اس نے بھاگنا چاہا لیکن اُس سے اُٹھا ہی نہ گیا۔ لکڑہارے نے اُس سے کہا: ”بی گائے، ذرا ہمارا فیصلہ تو کر دو۔“

گائے بولی، ”خیریت تو ہے؟ کیا مشکل آ پڑی؟“ لکڑہارے نے سارا قصّہ دہرایا تو گائے بولی، ”سانپ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ نیکی کا یہی بدلہ ہوتا ہے جو سانپ تم کو دینا چاہتا ہے۔ میری طرف دیکھو۔ میں نے تمام عمر انسان کی خدمت کی۔ اپنے بچّوں کا حق مار کر اُس کے بچّوں کو دودھ دیا۔ لیکن جب میں بوڈھی ہو گئی اور میرا دودھ خشک ہوگیا تو میرے مالک نے میری تمام عمر کی خدمت کا یہ بدلہ دیا کہ مجھے ایک قصائی کے ہاتھ بیچ دیا کہ وہ مجھے پورے کا پورا کاٹ ڈالے۔ وہ تو ایسا اتفاق ہوا کہ قصائی کا بچّہ مجھے لے کر اِدھر سے گزر رہا تھا کہ میں رسّی تڑا کر بھاگی ورنہ اب تک مجھے نیکی کا وہ بدلہ مل چکا ہوتا جو یہ سانپ تمہیں دینا چاہتا ہے۔“

گائے کا فیصلہ سن کر لکڑہارا بہت گھبرایا۔ اُسے اپنی موت نظر آنے لگی۔ سانپ نے کہا ”بس تین جج میرے حق میں فیصلہ دے چکے۔ چاہو تو ایک سے اور پوچھ لو۔ لیکن یہ آخری جج ہو گا۔“ وہ پھر آگے چل دیے۔ راستے میں ایک بھیڑ ملی ۔ لیکن لکڑہارا جانتا تھا کہ بھیڑ بہت بزدل ہوتی ہے۔ وہ سانپ سے ڈر جائے گی اور اُسی کے حق میں فیصلہ دے گی۔

لکڑہارا دراصل لومڑی کی تلاش میں تھا۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ لومڑی بہت عقل مند اور سمجھ دار ہوتی ہے۔ اتفاق کی بات ہے اُسی وقت ایک لومڑی اُدھر سے گزری۔ لکڑہارے نے اُس سے کہا: ”بی لومڑی، ذرا سنو تو۔۔۔ “

لکڑہارے کے ہاتھ میں کلہاڑی دیکھ کر لومڑی بھاگنے لگی تو وہ جلدی سے بولا ”ڈرو نہیں۔ ہم تو تم سے ایک فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔“

”کیسا فیصلہ؟“ لومڑی نے پوچھا۔ لکڑہارے نے ساری بات اُسے بتائی تو وہ بولی ”سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تُم دونوں کے بیان علیحدہ علیحدہ سنوں گی۔“

سانپ فوراً راضی ہو گیا۔ لومڑی لکڑہارے کو ایک طرف لے جا کر بولی، ”میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ تمہارے حق میں فیصلہ کروں گی لیکن یہ بتاؤ کہ تم اس کے بدلے میں مجھے کیا دو گے؟“

لکڑہارا بولا ”تم جو چاہو گی دوں گا۔ فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہیے۔“

لومڑی نے کہا ”تم ہر اتوار کو مجھے ایک موٹی تازی مرغی کھانے کو دے سکو گے؟“
لکڑہارا بولا ”دوں گا۔ اور ہاتھ باندھ کر دوں گا۔“

لومڑی بولی، ”ٹھیک ہے۔ میں فیصلہ تمہارے حق میں کروں گی۔ لیکن اپنا وعدہ بھول نہ جانا۔“

اب وہ سانپ کو ایک طرف لے گئی اور اس سے کہا ” بات یہ ہے کہ تمہارا گواه تو کوئی موجود نہیں اور گواہی کے بغیر صحیح فیصلہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہاں ایک صورت ہے کہ میں اُس پتھر کو دیکھوں جس کے نیچے تم دبے ہوئے تھے۔ اس سے فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی۔ ورنہ یا تو تمہارے ساتھ بے انصافی ہو جائے گی یا لکڑہارے کے ساتھ۔“ وہ تینوں پتھر کے پاس پہنچے تو لکڑہارا بولا ” سانپ اِس پتھر کے نیچے تھا۔“
لومڑی نے پوچھا ”تم نے اسے باہر کیسے نکالا؟“

”میں نے اپنی کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنسایا اور اُس کو ذرا سا اوپر اٹھا دیا ۔ سانپ باہر نکل آیا۔“

لومڑی بولی ” کس طرح؟ اُٹھا کر دکھاؤ۔“ لکڑہارے نے کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنسایا اور دستے پر زور لگا کر پتھر کو ذرا سا اوپر اٹھا دیا۔

لومڑی سانپ سے بولی ”تُم پتھر کے نیچے لیٹ جاؤ تاکہ میں دیکھ سکوں کہ لکڑہارے نے تمہیں باہر نکالنے میں کچھ محنت بھی کی ہے یا یوں ہی احسان جتا رہا ہے۔“

سانپ اپنے سات سَروں کے باوجود اتنا ذہین نہ تھا۔ وہ رینگ کر پتھر کے نیچے داخل ہوا اور اُس طرح لیٹ گیا جیسے پہلے لیٹا ہوا تھا۔ لومڑی نے لکڑہارے کو اشارہ کیا۔ اُس نے جلدی سے کلہاڑی پتھّر کے نیچے سے کھینچ لی۔ سانپ پتھّر کے نیچے دب گیا۔

لومڑی بولی، ”لو، سانپ میاں تمہارا فیصلہ ہو گیا۔ اب یہاں لیٹے رہو، جب تک تمہارا جی چاہے۔“

لکڑہارا بہت خوش ہوا ۔ اُس نے لومڑی سے کہا ”بہت خوب، کمال کر دیا تم نے ! اب آؤ، میرا گھر دیکھ لو۔“ لومڑی نے لکڑہارے کا مکان دیکھ لیا۔ اب وہ ہر اتوار آتی اور لکڑہارے سے ایک موٹی تازی مرغی لے جاتی۔ آہستہ آہستہ لکڑہارے کی تمام مرغیاں ختم ہو گئیں تو اُس نے گاؤں کے لوگوں کی مرغیاں چرانا شروع کر دیں۔ لیکن کب تک۔ گاؤں والوں کو لکڑہارے پر شک ہو گیا اور اُس نے بدنامی سے بچنے کے لیے ایک دن فیصلہ کیا کہ لومڑی کا کام تمام کر دیا جائے۔

اتوار کی شام کو لومڑی کے آنے کا وقت ہوا تو لکڑہارے نے بندوق بھری اور درختوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ لومڑی خوش تھی کہ موٹی مرغی کھانے کو ملے گی لیکن یہاں معاملہ ہی اور تھا۔ لکڑہارے نے ایسا تاک کے نشانہ مارا کہ گولی لومڑی کے دل کو چیرتی ہوئی نِکل گئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں