جمعرات, جنوری 9, 2025
اشتہار

بد مزاج بڑھیا اور سنہری پرندہ (ایرانی لوک کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

صدیوں پہلے کسی شہر میں ایک بے اولاد جوڑا رہتا تھا۔ دونوں بوڑھے ہوچکے تھے اور گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، لیکن بڑے میاں کی بیوی اب بھی جوانی کی طرح بد مزاج اور ناشکری ہی تھی۔ اپنے شوہر پر طنز کے تیر برسانا اور کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرنا جیسے اس کا وظیفہ تھا۔

یہ دونوں غربت کے مارے ہوئے تھے اور انہیں ایک پرانی پن چکی میں رہنا پڑ رہا تھا جس کا ڈھانچا خستہ حال تھا اور بارش ہوتی تو چھٹ ٹپکنے لگتی۔ ایک روز بوڑھے کے ہاتھ بہت ہی خوب صورت سنہری پرندہ لگا اور وہ اسے اپنے ٹھکانے پر لے آیا۔ بڑی بی نے اس پر بھی خوب جھگڑا کیا مگر پھر چپ ہو رہیں۔ اگلے دن بوڑھا جب اس پرندے کے پاس گیا تو حیران رہ گیا۔ وہ انسانوں کی طرح بوڑھے سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا، ’’بڑے میاں! میرے چھوٹے بچّے بھوکے ہوں گے، میں انہیں چوگا کھلاتا ہوں، مہربانی کر کے مجھے چھوڑ دیجیے، میں آپ کو ایک ایسا تحفہ دوں گا کہ اس کی مدد سے جو چاہیں گے وہ ہوجائے گا۔‘‘ بوڑھا یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس سنہری پرندے کو آزاد کرتے ہوئے کہا، میں اپنی زندگی کی تکالیف سے نجات چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی اچھے گھر میں پرسکون طریقے سے رہوں۔

سنہری پرندے نے کہا، یہ کون سا مسئلہ ہے۔ آپ دونوں‌ میرے پیچھے آئیے۔ وہ سنہری پرندہ انہیں جنگل میں لے گیا، وہاں درختوں میں گھرا ایک دروازہ دکھائی دیا۔ پرندے نے پروں کے اشارے سے دروازہ کھولا۔ تینوں اندر گئے تو دیکھا کہ اندر ایک بڑا بڑا سجا سجایا حسین کمرہ تھا۔ لمبا چوڑا صحن، جس میں بہت سے پھولدار اور پھل دار درخت پودے لگے ہوئے تھے۔ بڑے کمرے میں شکاریوں کا ایک لباس بھی لٹکا ہوا تھا۔ غرض ضرورت کی ہر چیز گھر میں موجود تھی۔ پرندے نے کہا کہ یہ آپ کا نیا گھر ہے، یہاں آرام سے رہیں۔ اس کے بعد اس نے اپنا ایک پَر انہیں دیا اور کہا کہ جب بھی مجھ سے کوئی کام ہو، اس پر کو ذرا سا جلا دیجیے، میں فوراً حاضر ہوجاؤں گا۔ دونوں نے اس سنہری پرندے کو رخصت کیا اور ہنسی خوشی اس خوب صورت گھر میں رہنے لگے۔ ان کی زندگی اب بدل گئی تھی۔ بڑے میاں روزانہ شکاریوں والا لباس پہن کر جنگل میں جاتے اور کوئی نہ کوئی اچھا شکار مل جاتا، وہ گوشت بھون کر کھاتے اور موج کرتے۔ یہاں کوئی دور تک دکھائی نہ دیتا تھا اور جب چند برس گزرے تو بڑھیا آہستہ آہستہ اکتانے لگی۔ ایک دن اس میں وہی پرانی عورت جیسے گھس آئی ہو۔ خاوند پر برس پڑی، ’’آخر ہم لوگ کب تک اس بیاباں میں رہتے رہیں؟ جنگل کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے بھلا؟ ہم جنگلی ہوتے جا رہے ہیں، جیسے یہ پرندے اور جانور ہمارے دوست، رشتہ دار ہوں۔‘‘ بڑے میاں نے اسے سمجھایا کہ اب تو سکون سے زندگی گزر رہی ہے، تم یہی چاہتی تھیں، اس ٹوٹی چھت والی چکی میں کیا گزرتی تھی؟

- Advertisement -

بڑھیا نے کہا، یہ کوئی بات نہیں، انسان کو بہتر سے بہترین کی طرف جانا چاہیے۔ تم کو یاد ہے نا سنہری پرندے کا وہ پَر؟ ابھی اسے جلاؤ اور پرندے کو حاضر کرو تاکہ وہ ہمارا کچھ اور بندوبست کرے۔ بڑے میاں نے تنگ آ کر وہ پَر نکالا، اسے ذرا سا جلایا، چند ہی لمحوں میں سنہری پرندہ آن پہنچا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔

بوڑھے نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کیا کہ اب اپنی خواہش بتائے۔ وہ عورت پھٹ پڑی، کہنے لگی کہ ہم جنگل میں پڑے ہیں، زندگی کا خاک مزہ ہے، کوئی انسان ہی نہیں جس سے دو گھڑی بات کی جاسکے۔ ہمیں کسی شہر میں لے جاؤ تاکہ ہم شہری زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ سنہری پرندے نے کہا، کوئی مسئلہ نہیں، وہ انہیں ایک شہر میں لے گیا، وہاں پہلے سے زیادہ خوب صورت گھر موجود تھا۔ اس گھر میں نوکر چاکر سب موجود تھے۔ ان کی شہری زندگی شروع ہوگئی۔ کچھ عرصہ یوں گزر گیا، دونوں میاں بیوی مزے کرتے رہے۔ پھر بڑی بی کو لگا کہ یہ زندگی کچھ بھی نہیں، انہیں اختیارات اور طاقت کا مزہ بھی چکھنا چاہیے۔ اس نے اپنے خاوند کو کہا کہ پرندے کو بلا کر اس سے کہو کہ ہمیں شہر کا حاکم بنوا دو، ہمارے پاس تمام اختیارات ہوں، سب پر ہمارا حکم چلے۔ بوڑھے نے پھر سنہری پرندے کو اسی طریقے سے پَر جلا کر بلایا۔ پرندے نے اس بار بھی انکار نہ کیا اور انہیں ایک قلعے میں لے گیا۔ وہاں کے حاکم پر جانے کیا جادو ہوا تھا کہ ان کو دیکھا تو محل میں لے گیا اور اعلان کیا کہ آج سے یہ دونوں یہاں کے حاکم ہیں، سب وزیر، مشیر، درباری اس بوڑھے جوڑے کے سامنے آداب بجا لائے۔ حکومت تو خیر انہوں نے کیا کرنی تھی۔ وزیر ذمہ داریاں سنبھالتا اور سارے مشیر وغیرہ ہی انتظام چلاتے۔ بڑھیا کا کام یہ تھا کہ وہ ملازموں، درباریوں پر حکم چلاتی اور اپنی طاقت اور اختیار سے تسکین پاتی۔ ایک روز کنیزوں نے بڑھیا کو غسل دیا اور بڑی بی دھوپ میں بال سکھانے بیٹھ گئیں کہ اچانک ایک بادل سورج کے سامنے آگیا اور دھوپ کی راہ میں حائل ہوگیا۔ تنک مزاج بڑھیا جھنجھلا گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو خوب باتیں سنائیں اور بولی کہ فوری طور پر سنہری پرندے کو بلایا جائے، وہ مزید طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان بادلوں کو سبق سکھا سکے۔ بوڑھے نے یہ سنا تو پریشان ہو کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ طاقت کی ہوس ٹھیک نہیں، غیر مشروط، لامحدود اختیارات اور قوت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو میسر ہے، اس پر گزارہ کرو۔ بلکہ یہ سب تو ہمارے لیے اس عمر میں عظیم الشان نعمت سے کم نہیں ہے۔

یہ سن کر بڑی بی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ تیکھی نظروں سے اس نے خاوند کو دیکھا اور کہا کہ جو بول رہی ہوں وہی کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ تب بوڑھے نے بڑبڑاتے ہوئے سنہری پرندے کو بلایا اور بڑھیا نے اس کے سامنے کہا کہ بادل نے میری دھوپ کا راستہ روکا، میں چاہتی ہوں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز پر میرا حکم چلے۔

یہ جان کر سنہری پرندے نے انہیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ دونوں چل پڑے۔ اچانک آندھیاں چلنے لگیں، اندھیرا چھا گیا، ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ کچھ دیر میں جب وہ دونوں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئے تو پرندے کا کچھ پتا نہ تھا، اور وہ اپنی پرانی، خستہ حال پن چکی میں پہنچ چکے تھے۔ اب تو بڑھیا بہت پچھتائی اور اسے معلوم ہوگیا کہ اس مرتبہ پرندے نے اس کی ناجائز اور فضول فرمائشوں سے تنگ آکر سزا کے طور پر وہیں پہنچا دیا ہے جہاں تکلیفیں اور مشکلات اس کا مقدر تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا، بڑھیا رو دھو کر چپ ہورہی۔ اس نے نہ صرف خود کو تکلیف میں ڈالا بلکہ اپنے ساتھ بوڑھے شوہر کو بھی مشکل میں پھنسا دیا۔ بدمزاجی اور ناشکری کا انجام یہی ہوتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں