اشتہار

حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

اشتہار

حیرت انگیز

حوزے ساراماگو کو 1998ء میں نوبیل انعام کا حق دار تسلیم کیا گیا، لیکن وہ اس سے کافی عرصہ پہلے غیر معمولی فکشن نگار کے طور پر اپنی پہچان ضرور بنا چکے تھے۔ حوزے سارا ماگو 76 برس کے تھے جب انھیں نوبیل انعام دیا گیا اور ان کا نام عالمی ادب کے افق پر چمکا۔ 18 جون 2010ء کو حوزے ساراماگو نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

1947ء میں حوزے ساراماگو نے اپنا پہلا ناول شائع کروایا تھا، اور بعد کے برسوں میں ان کے متعدد ناول اور تنقیدی مضامین منظرِ عام پر آئے جن کی بدولت عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو زبردست تخلیقی قوت کے حامل فکشن نگار کے طور پر پہچانا گیا۔

براعظم یورپ کے جنوب مغرب میں واقع ملک پرتگال کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں کئی نام اصنافِ ادب میں اپنے منفرد کام کی بدولت دنیا میں معروف ہوئے۔ حوزے ساراماگو انہی میں سے ایک تھے۔ وہ کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے اور اسی بناء پر یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ انھیں نوبیل انعام نہیں مل سکتا، لیکن وقت نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ حوزے سارا ماگو کی تخلیقات کا نہ صرف کئی زبانوں بشمول اردو، ترجمہ ہوا بلکہ نوبیل انعام کی شکل میں ان کی فنی عظمت کو تسلیم اور ان کی تخلیقات کو سراہا گیا۔

- Advertisement -

حوزے ساراماگو (Jose Saramago) نے ناول ہی نہیں تخلیق کیے بلکہ ان کے افسانے، ڈرامے، روزنامچے، سفرنامے بھی قارئین تک پہنچے اور انھیں متاثر کیا۔ اس کے علاوہ حوزے سارا ماگو کے اخباری کالم اور تنقیدی مضامین بھی پرتگالی ادب کا حصہ بنے اور بعد میں ان کا انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حوزے سارا ماگو 1922ء میں پرتگال میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر افلاس کی آغوش میں شروع ہوا۔

اسی غربت اور تنگ دستی کے دوران انھوں نے کسی طرح اسکول کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد ایک ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کا کام سیکھنے لگے۔ انھوں نے دو سال یہی کام کیا۔ مزدوری اور مشقت کی عادت نوعمری میں پڑ گئی تھی اور ورکشاپ چھوڑنے کے بعد ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے چھوٹے چھوٹے کام اور مزدوریاں کرتے رہے۔ حوزے ساراماگو نے پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی تھیں۔ وہ سیاسی انتشار کے ساتھ سماجی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے رہے۔ اسی عرصہ میں انھیں ایک اشاعتی ادارے میں ملازمت ملی، لیکن نومبر 1975ء میں سیاسی بحران کے باعث یہ ملازمت چھوڑ دی۔ 1969ء میں ساراماگو کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور پھر عملی سیاست میں باضابطہ حصہ لیا۔ وہ واضح اور دو ٹوک سیاسی رائے رکھتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے رہے۔

حوزے ساراماگو نے 1966ء میں اپنی نظموں کا مجموعہ بھی شائع کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالموں اور ادبی تراجم میں منہمک ہوگئے۔ پرتگال میں ان کی ادبی تحریریں کی مقبولیت کے ساتھ انھیں ایک فعال ادبی شخصیت کے طور پر شہرت ملی۔ عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو ان کے ناول Blindness (جس کا اردو ترجمہ اندھے لوگ کے نام سے کیا گیا) نے پہچان دی۔ یہ ناول 1995ء میں سامنے آیا تھا جس کے تین برس بعد وہ نوبیل انعام کے مستحق قرار پائے تھے۔ اس پرتگالی ادیب اور ناول نگار کو ایک تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہ حضرت عیسٰی کی زندگی پر مبنی ناول کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جسے پرتگال کی حکومت نے ادبی انعام کے لیے نام زد ہونے سے روک دیا۔

ساراماگو کی تحریر کی ایک خاص بات رمز ہے اور وہ استعارہ تشکیل کرتے ہیں اور جہاں جہاں وہ اس کی توضیح کرتے ہیں وہاں اس کے معنی کی ایک اور جہت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ رموز اوقاف کو ثانوی سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول اکثر قارئین کے لیے صبر آزما ثابت ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے قاری کہانی پر مکمل توجہ نہ دے سکے تو الجھن کا شکار اور کردار اور مکالمے سمجھنے میں دشواری محسوس کرے گا۔

ساراماگو کے ناول اندھے لوگ کی کہانی کے مرکزی کردار پر ایک نظر ڈالیں تو یہ ایک کار سوار کے اچانک بینائی سے محروم ہوجانے کی داستان ہے جو ایک مقام پر سگنل کے سبز ہونے کے انتظار میں ہے تاکہ آگے بڑھ سکے۔ سگنل سبز ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنی کار آگے نہیں بڑھاتا، اور جب اس کی کار کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اسے دودھیا خلا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بے نام شہر میں اندھا ہونے والا یہ پہلا فرد ہے۔ یہ ایک ایسی وبا کا نتیجہ تھا جس کا کوئی وجود نہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو صورت حال جنم لیتی ہے وہ تعجب خیز بھی ہے اور اس کے بطن سے واقعات پھوٹتے چلے جاتے ہیں، اس اندھے پن کا شکار ہونے والے پہلے فرد کے بعد اسی نوع کے اندھے پن کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ جب یہ سلسلہ پھیلنے لگتا ہے تو حکومت یہ سمجھتی ہے یہ کوئی ایسی بیماری ہے جو کسی اندھے سے دوسرے لوگوں کو لگ رہی ہے اور گویا یہ ایک وبا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اب تک اندھے ہونے والے تمام لوگوں کو پکڑ کر ایک ایسی عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے جو کبھی دماغی امراض کے مریضوں کے لیے مخصوص رہی تھی۔ کئی کرداروں پر مشتمل اس ناول نے حوزے ساراماگو کو آفاقی شہرت سے ہمکنار کیا۔

ساراماگو کے تخلیقی عمل کا محور اپنے ناول میں فرض کردہ واقعات کی بنیاد پر انسانی تہذیب کی کسی کڑی کو بیان کرنا ہے جو انسانی تہذیب کا تماشا دکھاتی ہے۔ وہ اپنے فکشن میں ایک فرضی صورتِ حال اور کرداروں کے ساتھ انسانی معاشرت، سیاست، مذہب اور انسانی نفسیات کی قلعی کھولنے کا کام کرتے نظر آتے ہیں اور اِن کا قاری اختتام تک ناول پڑھے بغیر نہیں رہ پاتا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں