اشتہار

عدالت 2 منٹ میں فیصلہ کر سکتی ہے کہ نظر ثانی خارج کی جاتی ہے، چیف جسٹس

اشتہار

حیرت انگیز

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ یہ عدالت دو منٹ میں فیصلہ کر سکتی ہے کہ نظر ثانی کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اور الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے رولنگ دی ہے کہ عدالت 2 منٹ میں فیصلہ کر سکتی ہے کہ نظر ثانی خارج کی جاتی ہے لیکن عدالت قانونی نکات پر سن کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے جس کے بعد سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

- Advertisement -

آج سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پر کرتی ہے، انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جا سکتا، مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا 150سال کی عدالتی نظیریں غیر موثر ہو گئی ہیں، 150 سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظرثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے لیکن اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ رولز میں نظر ثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی، دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آ جائیں گے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کا نظر ثانی سے متعلق آرڈر 26 مکمل لاگو نہ ہو۔

جسٹس منیب نے یہ بھی کہا کہ آرڈر 26 مکمل لاگو نہ ہونے سے نظر ثانی دائر کی مدت بھی ختم ہو جائے گی، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا 10 سال بعد کوئی نظر ثانی دائر کرکے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے؟ آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ نظر ثانی دائر کرنے کے لیے مدت ختم نہیں ہونی چاہیے۔ جس پر جسٹس منیب نے ان سے کہا کہ 70 سال میں یہ نکتہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نظر ثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ رولز نظر ثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں تو نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی، کیا فیصلے کے بیس سال بعد نظر ثانی دائر ہو سکتی ہے، اگر نظر ثانی کی مدت والا رول لاگو ہو سکتا ہے تو دائرہ کار کیسے نہیں ہو گا۔

سجیل سواتی ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بنانے والوں نے دائرہ کار آئینی مقدمات میں محدود نہیں رکھا، میں ملک کے تین بہترین ججز کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہوں، وقت کے ساتھ قانون تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں، آپ کی نظر میں نظر ثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے اور آپ چاہتے ہیں نظر ثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے، اس نکتے پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے اب اصل مقدمے کی جانب آئیں اور اس پر بھی دلائل دیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ پہلی بار عدالت آیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت توقع کرتی ہے ایسے قانون کے حوالے بھی دیے جائیں گے، الیکشن کمیشن نے کہا تھا سیکیورٹی اور فنڈز دے دیں تو انتخابات کرا دیں گے، اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ 9 رکنی بینچ نےاپنے حکم میں اہم سوالات اٹھائے تھے لیکن سیاسی جماعتوں کے مفادات کہیں اور جڑے ہوئے تھے۔ قانونی نکات پر دلائل کے بجائے بینچ پر اعتراض کیا گیا، 9 رکنی سے پانچ رکنی بینچ بنا وہ بھی عدالتی حکم پر، 7 رکنی بینچ عدالت کے حکم پر بنا ہی نہیں تو چار تین کا فیصلہ کیسے ہو گیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت 2 منٹ میں فیصلہ کر سکتی ہے کہ نظر ثانی خارج کی جاتی ہے آسانی سے کہہ سکتے ہیں آپ نے سواری مس کر دی، لیکن ہم قانونی نکات پر سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں چاہتی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر کو خط لکھا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت کو صرف تاریخ دینے کا لکھا گیا تھا، الیکشن کمیشن نے انہیں وہ صورتحال نہیں بتائی جو اب بتا رہے ہیں، الیکشن کمیشن نے صدر کوایک دن انتخابات کی ایڈوائس کیوں نہیں دی، صدر مملکت کو آرٹیکل 2018 تھری کا بتایا نہ ہی 1970 کے انتخابات کا، الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو نہ سیکیورٹی کا بتایا نہ فنڈز کا، زمینی حالات کا ذکر کیے بغیر کہا جا رہا ہے 2018 تھری کے مزید اختیارات دیے جائیں۔

چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانے کی کوشش کرتا ہے، آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے فیصلے پر نظر ثانی کی، 16 ہزار ملازمین کے کیس میں نظر ثانی خارج ہوئی لیکن 184 تھری اور 187 کا اختیار استعمال کیا، ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ججز کیس میں سوموٹو نظر ثانی کی تھی، اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے سماعت جمعے تک ملتوی کرنے کی استدعا کی تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت کو کل تک ملتوی کر دیا۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں