جمعرات, مئی 16, 2024
اشتہار

کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، چیف جسٹس

اشتہار

حیرت انگیز

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آج پارلیمنٹ میں ایسے لوگ خطاب کرتے ہوئے ملتے ہیں جو کل تک قید تھے اور جن کو غدار قرار دیا گیا تھا، مگر اب وہ عوامی نمائندے ہیں۔

سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت جاری ہے اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کی۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پُر سکون ہوتی۔ میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں لیکن عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔ اٹارنی جنرل اب جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔

- Advertisement -

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کیلیے فریقین کو ہدایت کی۔ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے۔ ماضی میں ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا۔ معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاترمیں آ گئے۔ 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین اور جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے۔ کل تک جو لوگ جیلوں میں رہے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، وہ عوام کے نمائندے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا۔ تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ متحد تھی اور کچھ معاملات میں اب بھی ہے۔ عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے یہ کوئی نہیں دیکھتا۔ اب اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججز ہیں۔ قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، میرا بھی دل اور جذبات ہیں۔ جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا، اس موقع پر چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اسمبلی کی مدت ہوتی ہے اور ہاؤس کے سربراہ کو اسے تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔ صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے اگر حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل کی تاریخ نہ آتی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے۔ عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی۔ ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔ ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی کو بھلانا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہو رہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے۔ مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ خود کہیں گے کہ بااختیار فیصلہ ہے۔ ہر فریق کے ہر نقطے کا فیصلے میں ذکر کریں گے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی، 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں۔ دوسرا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یا حساس ہے۔ صرف یہ کہنا ہی کافی نہیں ہوگا کہ ملک میں دہشتگردی ہے کیونکہ دہشتگردی کو 90 کی دہائی سے جاری ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پرمصروف ہے۔ اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، وہ بینچ سے الگ ہوچکے ہیں۔ دوسرا نقطہ یکم مارچ کے فیصلے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے۔ موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے۔ اس 9 رکنی بینچ کے دو اراکین نے رضاکارانہ طور پر بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے۔ عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے؟

اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا۔ آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے۔ ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، اسی آپشن پر رہیں، جلد ہی ان معاملات کو بھی سلجھا دیں گے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں