تازہ ترین

ہزمیجسٹی کا نہیں،’آئینِ پاکستان کا وفاداررہوں گا‘: قائد اعظم

قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا، اور دولتِ برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہونے والے ممالک میں صرف پاکستان کو شرف حاصل ہے کہ جس کے پہلے گورنر کے حلف نامے میں ’ہز میجسٹی سے وفاداری‘ کے الفاظ شامل نہیں تھے۔

معروف محقق اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کے مطابق چند برس پیشتر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ قائد اعظم نہ صرف یہ کہ برطانوی پاسپورٹ کے حامل تھے بلکہ انہوں نے جب 15اگست 1947ء کو بطور گورنر جنرل پاکستان حلف اٹھایا تھا تو اس حلف میں ہزمیجسٹی جارج ششم بادشاہ برطانیہ سے وفاداری کے الفاظ شامل تھے اور اسے بنیاد بنا کر قائد پر تنقید بھی کی جاتی ہے جو کسی پاکستانی شہری کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے ۔

عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ جہاں تک قائد اعظم کے پاسپورٹ کا تعلق ہے، یہ بات بالکل درست ہے قائداعظم کی زندگی کا آخری پاسپورٹ جو 28 نومبر 1946ء کو جاری ہوا تھا، برٹش پاسپورٹ تھا کیونکہ اس وقت ہندوستان برطانیہ ہی کا حصہ تھا اور اس وقت اس خطے میں جو پاسپورٹ جاری ہوتے تھے وہ برطانوی پاسپورٹ ہی کہلاتے تھے۔ اس پاسپورٹ کے حوالے سے جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ پاسپورٹ کراچی سے جاری ہوا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے نہ کوئی بیرونی سفرکیا اور نہ ہی انھیں کسی پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت محسوس ہوئی۔

’’گزشتہ دنوں میں پاکستان کے نامور ماہر قانون جناب ایس ایم ظفر کی کتاب عدالت میں سیاست پڑھ رہا تھا تو اچانک مجھے قائد پر لگائے ‘‘گئے اس دوسرے الزام کا جواب بھی مل گیا۔ اس کتاب کے صفحہ 181 پر جناب ایس ایم ظفر لکھتے ہیں::

۔۔”ہم نے اپنی تحقیق پاکستان کے ابتدائی تاریخ سے شروع کی ۔ حلف کی اہمیت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب 15اگست 1947کو قائد اعظم محمد علی جناح کے بطور گورنر جنرل پاکستان حلف اٹھانے کا وقت آیاتو گورنر جنرل کے حلف کے الفاظ کو جناح صاحب کے اعتراض کی روشنی میں تبدیل کرنا پڑا۔ہوا یوں کہ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947ءجس کے تحت پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تھی اس کے مطابق نئی مملکت کے گورنر جنرل کو اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے مندرجہ حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ ہزمیجسٹی جارج ششم بادشاہ برطانیہ کے جاری کردہ پروانے کے مطابق حلف نامہ کے الفاظ یوں تھے۔

میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں ہز میجسٹی کا پورا وفادار رہوں گا

اور میں ہز میجسٹی اور ان کے جانشینوں کو وفاداری کا بھی یقین دلاتا ہوں

قائد اعظم محمد علی جناح ایک نئی اسلامی مملکت قائم کرنا چاہتے تھے اور نئی مملکت کے اس تشخص کو ابتداہی میں واضح کردینا چاہتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ جب لارڈ ماو نٹ بیٹن نے یہ خواہش ظاہر کی کہ دونوں نوزائیدہ مملکتیں (پاکستان اور بھارت)انہیں مشترکہ طور گورنر جنرل بنا لیں اور کانگریس نے ان کی اس تجویز کو جی آیا نو ں کہا۔قائد اعظم نے اس تجویز کو رد کردیا کیونکہ اگر وہ یہ مان جاتے تو نظریاتی طور پر یہ ابہام پیداہو سکتا تھاکہ بھارت اور پاکستان کی فی الحقیقت علیحدگی نہیں ہوئی اور جلد ہی دونوں مملکتیں ایک ہوجائیں گی ۔ بہر حال حلف اٹھاتے وقت جناح نے ”ہزمیجسٹی کی وفاداری “کے الفاظ پر اعتراض کیااور اس کی جگہ جن الفاظ کی تبدیلی حکومت برطانیہ سے منوائی وہ یوں تھے۔

”میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں نافذالعمل آئینِ پاکستان سے وفاداررہوں گا۔۔۔۔۔۔“

ہزمیجسٹی سے وفاداری کی بجائے آئین پاکستان سے وفاداری کی تبدیلی فقہی اور آئینی لحاظ سے کس قدر اہم تھی اس پر ابھی تک ہمارے مورخین نے کوئی زیادہ توجہ نہیں دی ہے ۔ قائداعظم نے شخصیت پرستی کی بجائے آئین کو اہمیت دی تھی ۔ وہ خود کوبھی آئین کا پابند بنانا چاہتے تھے اور قوم کو بھی آئین کی اہمیت بتارہے تھے ۔

یہ بات بھی قارئین کو معلوم ہونی چاہئے کہ برطانیہ کے تحت جتنے بھی نو آبادیاتی ممالک کسی وقت بھی آزاد ہوئے، ان کے سربراہوں نے وقتِ آزادی وہی حلف اٹھایا جوہزمیجسٹی کے پروانہ میں درج تھا۔ الفاظ کی تبدیلی صرف پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے اصرار پر کی گئی تھی ۔

Comments

- Advertisement -