تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

ٹرال خود کو روشنی سے بچا رہے تھے۔ غار کے فرش پر ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چند ہڈیوں پر ابھی تک گوشت باقی تھا۔ دانیال ان ہڈیوں کو دیکھ کر بری طرح دہشت زدہ ہو گیا، اسے متلی آ گئی اور جلدی سے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ فیونا بھی سامنے دیکھ رہی تھی، تینوں ٹرال غار کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’میرے خیال میں یہ آگ جلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا، اس کی حالت بھی دانیال سے کچھ کم نہ تھی۔ کلیجہ اس کے منھ کو آ رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن جبران نظر نہیں آ رہا تھا، اس نے دانیال کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا اسے جبران نظر آیا۔ دانیال نے بھی نظریں دوڑائیں اور پھر خوشی سے چلایا: ’’وہ رہا … دیوار کے ساتھ کوئی لیٹا ہے، اور وہ جبران ہی کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

تب انھیں نظر آیا کہ ایک چوتھے ٹرال نے جبران کے ہاتھ پیر اپنے موٹے بالوں سے باندھ دیے تھے۔ یہ موٹے بال رسیوں کا کام کر رہے تھے۔ فیونا نے کہا: ’’یہاں بہت ساری سرنگیں ہیں اگر ہم جبران کو چھڑا لیں تو یہاں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن جبران کو ہم کس طرح ان سے چھین سکتے ہیں؟ پہلے تو ہمیں ان تین درندوں کے پاس سے گزرنا ہو گا اور پھر اس ٹرال کو بھی چکمہ دینا ہوگا جو عین جبران کے سامنے بیٹھا ہے اور جس نے اپنے جسم کے گندے بالوں سے اسے باندھ رکھا ہے۔ ہمارے پاس یہ رسی نما بال کاٹنے کے لیے چاقو بھی نہیں۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر کہا۔

فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں کوئی تصور آ جائے جو یہ بتائے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس نے مقامی پرندے پفن کے ایک غول کو دیکھا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول کر کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ ان درندوں کو یہاں سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

’’کیسی ترکیب ہے؟‘‘ دانیال نے خوش ہو کر پوچھ لیا۔ فیونا دانیال کو سرنگ میں پیچھے کی طرف لے گئی اور بولی: ’’دانی، تم یہاں کھڑے ہو کر ٹرالز پر نظر رکھو۔ اگر وہ جبران کو کھانے لگے تو تم دوڑ کر ایک دم چیخنا شروع کر دو۔ اس طرح تم میرے آنے تک انھیں پریشان رکھنا، یا ان کی توجہ ہٹانے کے لیے جو کچھ تم کر سکتے ہو کرنا۔‘‘

’’کک… کیا… تم کہاں جا رہی ہو؟ نہیں تم مجھے یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ تم جبران کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘ دانیال نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

دیکھو دانی، مجھے پتا ہے کہ تم خوف زدہ ہو لیکن اب معاملہ حل ہونے جا رہا ہے۔ جبران کو کچھ نہیں ہوگا، اور تمھیں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے کچھ پرندوں کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی کے ساتھ مڑی اور اندھیرے میں گم ہو گئی۔

’’پرندے … کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ اس کے جاتے ہی دانیال بولا لیکن اس کی آواز سرنگ میں گونج کر رہ گئی۔ وہ دیوار کے پاس بیٹھ کر ٹرالز کو دیکھنے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’جبران بہادر بنو …. جبران بہادر بنو!‘‘

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -