نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
فیونا پانی میں گری تو اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا اور وہ پانی میں بے اختیار ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ جبران اور دانیال چیخ چیخ کر اسے خود کو بچانے کے لیے کہتے رہے۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ آکٹوپس کا ایک کوڑا اس کی دوسری ٹانگ سے بھی لپٹ چکا ہے، اور اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوا کہ آکٹوپس کی خون چوسنے والی کنڈلی بھی اس کی ٹانگ کے ساتھ لگ گئی ہے، یہ محسوس کرتے ہوئے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ اسی لمحے اس کے بازو سے بھی ایک ٹانگ لپٹی۔ فیونا نے تیزی سے آکٹوپس کی ٹانگوں پر اپنے آزاد ہاتھ سے مکے برسائے لیکن اس سے آکٹوپس مزید غصے میں آ گیا۔ اس کی چھ لہراتی اور لچکتی ٹانگیں بری طرح کھلبلانے لگیں اور فیونا کے جسم پر جہاں خالی جگہ دیکھی، وہاں سے لپٹ گئیں اور اسے پانی کے اندر کھینچنے لگیں۔ دانیال بے اختیار چیخا: ’’جبران وہ ڈوب رہی ہے، ہمیں اس کو بچانا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر دانیال پانی میں کود گیا اور تیرتا ہوا سیدھا آکٹوپس کے منھ کے قریب جا پہنچا اور اس کے منھ پر مکے برسانے لگا۔ جبران ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گیا تھا، اس نے سوچا تک نہ تھا کہ دانیال اس طرح کی جی داری کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے۔ یہ تو خود کو موت کے منھ میں دھکیلنے والی بات تھی۔ وہ پریشانی کے عالم میں پتھر پر بیٹھ گیا تھا اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک دانیال نے پانی سے سر ابھارا اور سانس لے کر بولا: ’’جبران … ہماری مدد کرو!‘‘
دانیال دوبارہ ڈبکی لگا کر پانی میں چلا گیا، لیکن اس کے اس جملے سے جبران کو جھٹکا لگا اور جیسے وہ نیند سے یک لخت بیدار ہو گیا ہو۔ وہ اچھل کر پانی میں کود گیا اور فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ اندر ہی اندر شدید خوف زدہ بھی تھا لیکن وہ سمجھ گیا تھا کہ بچنے کا اب ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ آکٹوپس کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ اچانک آکٹوپس نے عجیب حرکت کر ڈالی۔ اس نے سیاہی کی پچکاری ماری اور پانی کا رنگ کالا ہو گیا۔
کالے پانی میں ان تینوں کے لیے کچھ دیکھنا ناممکن ہو گیا۔ اسی لمحے آکٹوپس کی ساتویں ٹانگ جبران کے ٹخنے اور آٹھویں دانیال کے گھٹنے سے لپٹ گئی۔ اس کے بعد اس نے ٹانگیں پھیلا کر اوپر اٹھا لیں۔ تینوں نے پانی سے باہر نکل کر لمبی لمبی سانسیں لیں، لیکن اب وہ ہوا میں بلند تھے اور ہاتھ پاؤں مار رہے تھے تاکہ آکٹوپس کی مضبوط گرفت سے آزاد ہو سکیں۔ اچانک ایک اور حیرت انگیز بات واقع ہو گئی۔ فیونا اچانک غائب ہو گئی تھی۔ ان دونوں کو تو حیرت ہونی ہی تھی تاہم آکٹوپس بھی حیرت کا شکار ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یکایک جبران اور دانیال کو بھی اپنی گرفت سے آزاد کر دیا تھا، جس پر وہ دونوں تیزی سے تیرتے ہوئے پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
جبران نے پریشان ہو کر کہا کہ فیونا کہاں غائب ہو گئی ہے، اس کے لہجے میں خوف اور سخت تشویش کا تاثر جھلک رہا تھا۔ دانیال نے ہکلا کر کہا: ’’تت … تمھارا … مطلب ہے کہ اسے آکٹوپس نے نگل لیا!‘‘ دانیال کی صورت یوں ہو گئی تھی جیسے وہ ابھی رو دے گا۔
’’میں یہاں ہوں … میں یہاں ہوں!‘‘ یکایک انھیں آواز سنائی دی۔ یہ باریک آواز تھی، وہ دونوں اچھل پڑے اور پانی میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ’’ارے وہ رہی فیونا۔‘‘ دانیال خوشی سے چلایا۔ جبران نے مڑ کر دیکھا تو پتھر کے پیچھے اسے بھی بالشت بھر فیونا نظر آ گئی۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر بولا: ’’فیونا تم کتنی ننھی منھی ہو گئی ہو… اوہ مائی گاڈ … یہ کیسا جادو ہے!‘‘
’’ہاہاہا …‘‘ فیونا ہنسی تو انھیں ایک باریک ہنسی سنائی دی۔ اس نے کہا: ’’مجھے ایک نوکیلی سیپی ملی ہے اور میں اس سے اس منحوس آکٹوپس کا تیاپانچہ کرنے والی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے غوطہ کھایا اور پانی میں غائب ہو گئی۔