منگل, مئی 21, 2024
اشتہار

راجہ مہدی علی خاں: ایک ناظرِ حیات کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

نظم و نثر میں اپنے عہد کے معاشرے اور اس میں بسنے والوں‌ کے جذبات کی ترجمانی کرنے والے راجہ مہدی علی خاں کو بیسویں صدی کے مزاح نگاروں میں نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب تھے جب کہ ان کے تحریر کردہ گیتوں نے ہر ذہن اور دل پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

اپنے فن و تخلیق میں منفرد راجہ صاحب کی شخصیت بھی خاصی دل چسپ اور مختلف تھی۔ وہ فلم انڈسٹری اور علمی و ادبی حلقوں میں بہت مشہور تھے۔ بیشتر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے راجہ صاحب کے گہرے مراسم رہے۔ اس دور کے رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے پُرکشش رشحاتِ قلم نے اردو داں طقبہ کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نثر اور نظم دونوں میدانوں میں اس تخلیق کار نے شہرت حاصل کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قاری ان کی تحریروں کے منتظر رہتے۔ حلقۂ یاراں میں ان کا خوب ذکر رہتا اور ادیب و شاعر، فن کار اپنی مجلسوں‌ میں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح پر مبنی اپنے مضامین اور شاعری کے علاوہ فلمی گیت نگاری کے لیے بھی معروف تھے۔ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں آنکھ کھولی تھی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا، وہ زمین دار خاندان میں 1915ء میں پیدا ہوئے، اور بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کی والدہ علم و ادب سے وابستہ اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ راجہ مہدی علی خان کو بھی شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ ان کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صرف دس برس کی عمر میں بچّوں کا ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہوگئے تھے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی میں فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کو پہنچے تھے۔

- Advertisement -

راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

اردو زبان کے اس مقبول ادیب اور شاعر کے مشہور گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جنھیں‌ آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا اور اس عرصہ میں‌ انھوں نے لگ بھگ 75 فلموں کے لیے گانے تحریر کیے۔ وہ بہترین مترجم بھی تھے اور ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب شایع ہوئیں جن میں راج کماری چمپا، مضراب، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ و دیگر شامل ہیں۔ راجہ صاحب نے ممبئی میں وفات پائی۔

پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے راجہ صاحب کی ایک نظم ملاحظہ کیجیے۔

طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں