اینٹی کرپشن پنجاب کی راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلی۔
اے آر وائی نیوز کو موصول ہونے والی رنگ روڈاسکینڈل کی انکوائری رپورٹ میں تحقیقاتی ٹیم نے غیر قانونی کاموں کی نشاندہی کے ساتھ 2 ارب سے شروع ہونے والے منصوبے کو 60 ارب پہنچانے کی وجوہات بھی تلاش کرلیں۔
اینٹی کرپشن پنجاب نے تحقیقاتی رپورٹ میں تین افراد کے خلاف کیس درج کرنے کی منظوری دی، جن میں سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود، سابق لینڈ کنٹریکٹر (راولپنڈی ڈیولیپمنٹ اتھارٹی) وسیم علی، پروجیکٹ ڈائریکٹر محمد عبداللہ شامل ہیں جبکہ مستقبل میں مزید اہم گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔
اینٹی کرپشن پنجاب کی ابتدائی رپورٹ میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے افرادی قوت و سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری اور وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور کا نام شامل نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی رنگ روڈ کیس میں اہم پیشرفت، بڑی گرفتاری
یہ بھی پڑھیں: رنگ روڈ اسکینڈل میں اہم پیش رفت
تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی 6 رکنی جےآئی ٹی نے 21ہزارصفحات کاجائزہ لیا، 100 سے زائد سرکاری ملازمین سے پوچھ گچھ کی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے رنگ روڈمنصوبےکی الائنمنٹ پرغلط بیانی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق وسیم علی تابش کے بیٹے اور بہو کے نام پر سوسائٹی میں12پلاٹس کی خریداری کا انکشاف ہوا جبکہ جے آئی ٹی کو کو انکوائری میں بہت غیرقانونی سرگرمیوں کےبارے میں علم ہوا۔
جے آئی ٹی کے مطابق سابق کمشنر محمد محمودکے بیان اور وزیراعلیٰ پنجاب کی منظور سمری میں تضاد پایا گیا، راولپنڈی کے سابق کمشنر نے غلط بیانی سے کام لیا اور ظاہر کیا کہ عہدیداران کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا گیا ہے، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر پروجیکٹ نے سوسائٹی کےفائدےکیلئے 3 انٹرچینج بھی تعمیر کروائے، جن کی منظوری محمد محمود نے دی جبکہ ایسے علاقوں میں سروس روڈ تعمیر کرنے کی منظوری دی جہاں آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔
اسے بھی پڑھیں: راولپنڈی رنگ روڈ کیس: اینٹی کرپشن کا بڑا فیصلہ
تفتیشی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیزکو فائدہ پہنچانےکیلئے غلط بیانی کی گئی، رنگ روڈکا نقشہ منظوری سے پہلے ہی آر ڈی اے کی ویب سائٹ پر شیئر کیا گیا، اسکینڈل میں ملوث افراد نے زمین خریداری کے پیسےآپس میں بھی تقسیم کیے۔