اشتہار

سلطنتِ رومہ:‌ تعمیر سے فنا کے گھاٹ اترنے تک

اشتہار

حیرت انگیز

اٹلی میں ایک دریا کا نام ٹائبر ہے جو شمال کی طرف سے آتا ہے اور رومہ یا روم سے گزر کر پچیس میل نیچے بحیرۂ روم میں جا گرتا ہے۔ یہ دریا کبھی شاہراہِ تجارت تھا۔

رومہ اور اٹلی
تاجر کشتیوں میں مال بھر کر فلورنس سے نیپلز اور دیگر مقامات تک آتے جاتے تھے اور اس دریا کے کنارے ایک مقام سر سبزی اور دل کشی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ وہاں تاجر خیمے لگا کر راتوں کو ٹھہرتے اور صبح کو روانہ ہو جاتے۔ ولادتِ مسیح سے ساڑھے سات سو سال پہلے ان تاجروں نے چندہ کر کے وہاں ایک سرائے بنا دی جہاں رفتہ رفتہ ایک شہر بن گیا۔ یہی شہر روم کہلاتا ہے جو اڑھائی ہزار برس سے اٹلی کا دارالخلافہ ہے۔

تشکیلِ رومہ
اس زمانے میں ہر خاندان کا سردار الگ تھا جو خاندانی جھگڑے چکاتا۔ شادیاں کراتا۔ ہر معاملے میں حکم چلاتا اور اپنے قبیلے کی بستیوں کو حملہ آوروں سے بچاتا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں ایشیا کا قبیلہ وہاں جا نکلا جس کے سردار Tarquins کہلاتے تھے۔ ان کی قابلیت اور شجاعت سے متاثر ہو کر اہلِ روم نے انہیں اپنا سردار تسلیم کر لیا اور یہ صورتِ حال سو سال تک باقی رہی۔509 قبلِ مسیح میں وہاں ایک اسمبلی بھی تھی جس میں تمام اختیارات خواص کے نمائندوں (Patricians) کے پاس تھے۔ صدر، وزراء ، اور مجسٹریٹ ان ہی سے منتخب ہوتے تھے۔ اور عوامی نمائندوں (Plebcians) کی کوئی تجویز اس وقت تک قانون نہیں بن سکتی تھی جب تک خواص اسے منظور نہ کرتے۔

- Advertisement -

اس جمہوریت نے رفتہ رفتہ گرد و نواح کے تمام قبائل کو قابو کر لیا۔ پھر مزید پاؤں پسارے۔ یہاں تک کہ 265 قبل مسیح میں روم ایک خاصی طاقت بن گئی۔ اب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک کے بعد ایک علاقے سلطنتِ رومہ کا حصّہ بن گئے۔ سلطنتِ رومہ یا رومی سلطنت، زمانۂ قدیم کی وہ سلطنت تھی جس کا دارُ الحکومت روم بنا۔

محققین لکھتے ہیں‌ کہ رومہ نہ ایک دن میں تعمیر ہوا اور نہ ایک دن میں فنا کہ گھاٹ اُترا، لیکن یورپ سے رومی شہشاہی کا ناپید ہونا اتنا عظیم سانحہ تھا کہ ‘‘سقوطِ رومہ‘‘ سنتے ہی چشمِ تصور میں ایک نہایت خوفناک نقشہ ابھر آتا ہے، گویا بے درد و وحشی اس شہر کی دولت و حشمت کے انبار سمیٹ کر اسے آگ اور خون کی جولان گاہ بنا رہے ہیں، حالانکہ رومہ کی عظمت آہستہ آہستہ زائل ہوئی تھی۔مؤرخین نے سہولت کے خیال سے اس کی تسخیر کا آخری سال 476ء قرار دیا ہے، کیوں کہ اس سال مغربی رومی سلطنت کے شہنشاہ نے اپنا تاج و تخت وحشی سردار اوڈوسر کے حوالے کیا جس نے شہنشاہی نہیں بلکہ صرف اٹلی کی فرماں روائی پر اکتفا کیا۔

یہ مت سمجھیے کہ جنگلی قبیلے کسی بیرونی سردار کے زیرِ قیادت اچانک رومہ پر چڑھ آئے تھے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رومی سلطنت کے پہلے شہنشاہ آگسٹس کے زمانے ہی میں ان قبائل کو اٹلی میں آباد ہونے کی اجازت مِل گئی تھی۔ وہ عرصے تک سلطنت کے لیے جنگجو سپاہی بھی مہیا کرتے رہے اور اُونچے درجے کے سرکاری عہدے بھی حاصل کرتے رہے۔ اوڈوسر نے ان قبائلی سپاہیوں سے اٹلی کے ایک تہائی علاقے کا وعدہ کر کے سرداری کا منصب حاصل کر لیا، رومی شہشاہ کو جب یقین ہو گیا کہ وہ اس کے مقابلے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا تو عافیت اسی میں سمجھی کہ تخت چھوڑ الگ ہو جائے۔

ادھر قسطنطنیہ کے شہنشاہ زینو نے اگرچہ اڈوسر کی حکومت تسلیم نہ کی، تاہم اسے معزول کرنے کے لیے بھی کوئی قدم نہ اٹھایا اور اس کے لیے وہی خطاب استعمال کرتا رہا جو مغربی رومی سلطنت کہ امیروں کا عام لقب تھا۔ مشرقی گاتھوں کہ سردار تھیوڈورک نے اڈوسر کو میدانِ جنگ میں شکستِ فاش دی اور صلح اس شرط پر ہوئی کہ دونوں مشترکہ طور پر حکومت کا کاروبار جاری رکھیں۔ پھر تھیوڈورک نے اڈوسر کو دعوت میں بُلا کر اپنے ہاتھ سے اس کا سَر قلم کر دیا۔
مغربی رومی سلطنت کہ خاتمے کہ ساتھ یورپ قسطنطنیہ کے اثر سے نکل کے وحشی اقوام کے تسلط میں آ گیا، تاہم آگے چل کر اُسے موقع مِل گیا کہ اپنی مخصوص تہذیب کو نشوونما دے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں