اشتہار

"من موہنی” جس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا!

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے صاحب طرزِ طرز ادیب، ماہرِ موسیقی، مترجم اور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی اردو زبان کے ایک آشفتہ و فریفتہ اور ادب کے شیدائی تھے۔ دلّی کے یہ باکمال ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔ کئی مضامین اور شخصی خاکے ان کے دل آویز طرزِ‌ نگارش اور نثرِ لطیف کی یادگار ہیں۔

یہ انہی شاہد احمد دہلوی کے ایک مکتوب سے ماخوذ پارہ ہے جو اردو زبان سے ان کی محبّت کی خوب صورت مثال تو ہے ہی، مگر اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک ہم عصر شخصیت سے زبان کے معاملہ پر شاہد احمد دہلوی کا اختلاف ہے جس میں ان کی تلخ و ترش باتوں پر اردو زبان کی مٹھاس غالب آگئی ہے۔ مشہور ادبی رسالہ ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل نے اپنے اداریہ میں اردو زبان کے ایک نہایت اہم مسئلے پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ شاہد دہلوی نے اُس اداریہ کے جواب میں انھیں خط میں لکھا:

جی ہاں، اردو بڑی اچھی اور بڑی پیاری زبان ہے اور بڑی نرالی زبان ہے۔ کیوں کہ اردو بولنے والے مردوں کی زبان اور ہے، اور عورتوں کی زبان اور بھی…. اپنی جگہ پر ترقی یافتہ ہے۔ اور اتنی وسیع کہ مولانا سید احمد، صاحب فرہنگ آصفیہ، عورتوں کے محاوروں کی ایک جامع لغات ’’لغات النساء‘‘ کے نام سے لکھ گئے ہیں۔

- Advertisement -

دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی ہو کہ اس میں مردوں اور عورتوں کی زبانیں الگ الگ ہوں۔ عورتوں کی زبان میں اگر شاعری دیکھنی ہو تو ریختیاں ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے مضامین شاید ثقہ طبیعتوں پر ناگوار گزریں تو گزریں، زبان کا چٹخارہ یقیناً مزہ دے جائے گا۔

دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو بھی مقامی بولیوں اور دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا تو خمیر ہی زبانوں اور بولیوں کے آمیز ے سے اٹھا ہے۔ چھوت چھات کی یہ نہ تو پہلے کبھی قائل تھی اور نہ اب ہے۔ زندہ زبانیں چھوت چھات کو نہیں مانتیں اور نہ اچھوت رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کا تال میل سب سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اردو ہرجائی بھی ہے، حریص بھی ہے، جس کی جو چیز پسند آتی ہے لے کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، کبھی پرائی چیز کو جوں کا تو رہنے دیتی ہے اور کبھی اس کی شکل ہی بدل ڈالتی ہے۔ یہ عادت بھی اس نے اپنی ترقی پذیر بہنوں سے سیکھی ہے۔ جبھی تو من موہنی بن گئی اور اس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا تھا۔

بھلا جس نے عوام میں جنم لیا ہو، سرکاروں، درباروں میں قدم رکھا ہو، بادشاہوں کی منہ چڑھی رہی ہو، اس کی بڑھوتری کیسے رک سکتی تھی؟ ککڑی کی بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی اور ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر دوسرے براعظموں پر بھی چولائی کی طرح پھیلنے لگی۔ اب دنیا میں آپ جہاں چاہے چلے جائیں، اردو بولنے والے آپ کو مل ہی جائیں گے۔ اور صاحب، غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جان، ہمسایہ ملک میں اردو کو نہ صرف اچھوت بنایا جارہا ہے، بلکہ اسے قتل کرنے کے سامان کیے جا رہے ہیں، مگر یہ ہے کہ ڈٹی ہوئی ہے اور برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سَر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے نہیں مر سکتی۔ یہ تو یونہی نئے نئے میدان مارتی چلی جائے گی۔”

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں