مثل مشہور ہے کہ ”پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔“ اور زباں زدِ عام بھی یہی ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے۔“ گویا معالج کی مجوزہ ادویات اُس وقت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب اُن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے جو علاج کا لازمی جزو اور پرہیز کہلاتی ہیں۔
مصنفہ کی دیگر تحریریں اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
پرہیز اور علاج میں جو بنیادی فرق ہے، وہ بہت واضح ہے۔ علاج کے سلسلے میں جو رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، پرہیز کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اُس کی بچت ہوجاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ ضبطِ نفس کے اس مظاہرے سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنورجاتی ہے۔ ایک ذرا دل پر جبر کیا کِیا، بیٹھے بٹھائے ہدایت یافتہ بھی ہوگئے اور جنّت کی کنجی بھی پالی۔
ہمیں یہ مثل بہت اچھی لگتی ہے، جبھی اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ یہی پرہیز ہمارے لیے کڑی آزمائش بن گیا۔ اس سے باعزّت گزر کے ہم سرخرو تو ہو گئے، لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے۔
ہُوا یوں کہ دانتوں کی شدید تکلیف ہمیں دندان ساز کے پاس لے گئی۔ ہمارے دانتوں کے ساتھ ڈاکٹر کا برتاؤ اُن کے پیشے کے عین مطابق تھا، سو ہم اُن کو قصور وار نہیں مانتے، لیکن وقتِ رخصت ڈاکٹر کی اس ہدایت نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا کہ ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا۔“ بھوک ہم سے برداشت ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کے کلینک سے محض چند قدم کے فاصلے پر احمد رشدی کا ترنّم کسی کے روزگار کے فروغ اور کسی کے ذوقِ طعام کا وسیلہ بنا ہُوا تھا۔
گول گپے والا آیا گول گپے لایا
اس سے قبل گول گپے کھانے کی خواہش نے اتنی شدت سے سَر نہ اٹھایا تھا، جتنا اس وقت ستا رہی تھی۔ ہم نے ازلی بے نیازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگے راہ لی تو قلفی والا ہمارے ضبط کا امتحان لینے چلا آیا۔ ہم نے اس سے بھی نظریں چرا لیں۔ چند قدم کے فاصلے پر مونگ پھلی گرم کی صدائیں ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں تو دوسری جانب حبیب ولی محمد کی آواز بھی ہماری سماعت پر دستک دے رہی تھی۔
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں…
چونکہ ہمیں بچپن ہی سے پرہیز علاج سے بہتر ہے کا خیال بہت بھلا لگتا ہے، سو ہم نے بدپرہیزی کے نتیجے میں ہونے والے مزید اور ممکنہ علاج سے بچنے کے لیے بچپن کی دوستی پر دھیان دیا اور دیرینہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے غیریت کی انتہا کر دی۔
اُدھر قدم قدم پر ہر گھڑی ہمارے لیے ایک آزمائش تھی۔ یہ لیجیے”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اطلاع دینے والے نصف ایمان سے ہاتھ کھینچے خود تو عالمِ برزخ میں کھڑے ہی تھے ہمیں بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ گندگی کا ڈھیر چلّا چلّا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ قلفی، گول گپوں اور مونگ پھلی کی خواہش کو تو ہم نے اچھے وقتوں کے لیے اُٹھا رکھا مگر غلاظت کا انبار دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھانے کے عمل سے خود کو باز رکھنا ہمارے لیے کٹھن تھا۔ گو پیچ وتاب کھانے پر پابندی ڈاکٹر کی ہدایت میں شامل نہ تھی لیکن اس عمل کے فوری ردِ عمل کے طور پر ہمیں ایک مرتبہ پھر کلینک کا راستہ ناپنا پڑتا کہ پیچ و تاب کھانے کا عمل دانتوں کی تکلیف کے ممکنہ خاتمہ میں حارج ہوتا۔ بھلا کبھی کسی نے دانت پیسے بغیر پیچ و تاپ کھایا ہے، پرہیز سے وفا نباہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہم مزید عذاب جھیلنے سے بچ گئے۔
اوّل اوّل تو ڈاکٹر کے تاکیدی فقرے ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا“ نے ہمیں صبر کی راہ دکھائی تھی، لیکن اگلی ہی ساعت ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دورانِ گفتگو ہمیں قسم کھانے کی عادت نہیں، ورنہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ قسم کھانے کے لیے ہمیں بتیس دانتوں کے بیچ تولہ بھر زبان بہرحال ہلانی پڑتی۔ خیالات کی یلغار سے جتنا ہم نے بچنا چاہا اُتنا ہی اس کی زد میں رہے۔ ابھی ہماری سوچوں کا سفر جاری تھا کہ اچانک سڑک کے ایک جانب پڑے کوڑے پر ہماری نظر پڑی جو گلی گلی کسی کی یاد کی مانند بچھا رہتا ہے۔ جو رستہ دیکھ کر چلتے ہیں وہ یا تو خود کو بچا لیتے ہیں یا اپنا فشار خون بلند کر لیتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی اور تھا، تڑپنے اور فریاد کی اجازت تو تھی پَر پیچ پر پیچ کھانے کی نہیں۔ سو بیچ سڑک پہ پڑے کوڑے کو ہم نے نظر انداز کرنا چاہا کہ بل کھانے کا حکم نہ تھا، سو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوڑے کا ڈھیر لگانے والوں کو نگلنا چاہا لیکن ہماری بصارت نے بصیرت کے کہے میں آکر تعاون سے انکار کر کے ہماری رہی سہی امید پر پانی پھیر دیا۔
ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح یہ دو گھنٹے جو دو صدیوں کے برابر لگ رہے ہیں دو پل میں بیت جائیں، پَر وقت نے کب کسی کی مانی ہے جو ہماری سنتا۔ وقت نے اپنی میعاد پوری کر کے ہی ہمیں آزادی کی نوید دی۔ اب ہم اپنے ہر اُس عمل کے لیے آزاد تھے جس کو کھانے سے نسبت تھی۔ ہاں وقت کی بے نیازی اور بے مہری کا ہمیں بہت گلہ تھا جس کی وقت کو پروا تک نہ تھی۔ اور جب وقت کی بے نیازی کے خلاف احتجاج کا خیال آیا تو وقت بیت گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے کی میعاد پوری ہو چکی تھی اور ہم پر سے کچھ نہ کھانے کی قید بھی اٹھا لی گئی تھی۔ پَر اب کچھ کھانے کی خواہش سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی، اگلے روز بھی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بلایا تھا اور ترتیب وار ان ہی مراحل سے ہمیں گزرنا تھا گویا
ابھی وقت کے امتحان اور بھی ہیں
اور ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو آج نہ کر سکے وہ کل ضرور کریں گے اور قبل از وقت کریں گے۔ کون سا وقت؟ ارے بھئی وہی ”بد وقت‘‘جس میں بے شک ہم اشیائے خور و نوش سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن رہ گزر کے عذاب سے کترا کر گزرنا ہمارے بس میں نہیں۔ سو ہم نے اسی وقت پیچ و تاب کھانا شروع کر دیا…. کس پر؟ کوئی ایک ہو تو ہم بتائیں بھی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جانے کیسے قلم کے توسط سے ہماری فسانۂ درد بیان کرنے کی نیت کی خبر عام ہو گئی اور مختلف محکموں کے کشتگانِ ستم قطار بنائے کھڑے ہو گئے۔
ہر ستم کے مارے کی آرزو تھی کہ پہلے اس کے متعلقہ محکمہ کے دانت کھٹے کریں اور ہمارے قلم کی روشنائی اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ پردہ نشینوں کو بے نقاب کریں لیکن چشم کشا حقائق سے چشم پوشی بھی تو جرم ہے اور پھر جو شے اظہر من الشّمس ہو اس کا پردہ رکھ کر ہم کون سا ثواب کما لیں گے؟ بس یہی سوچ کر ہم نے قلم کی روشنائی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا کہ ہمارے اور آپ کے مابین رابطے کا یہ مستند و معتبر حوالہ اگر روٹھ گیا تو؟ سو ہم نے دل پر جبر کر کے خود کو ہر اس خواہش سے باز رکھا جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی۔ خود پر پابندیوں کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور واپسی میں راستہ بھر بے بسی کی تصویر بنے مہر بہ لب صیاد کے مسکرانے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ فضائی آلودگی، جا بجا گندگی کے ڈھیر، شاہراہوں پر لگے اسٹالوں اور دکانوں میں خریداروں پر ہونے والے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے کئی بار ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر ہم نے کچھ نہ کھانے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کھانے کی ہر قسم سے منہ موڑ لیا اور نہایت صبر شکر کے ساتھ یہ برا وقت بھی کاٹ لیا۔

پیچ و تاب کھانے کے تمام تر سنہرے مواقع ہماری بے بسی پر ہنستے رہے اور ہم اس بے بسی پر شریفانہ احتجاج کرتے رہے۔

دانتوں کی تکلیف سے تو ہم نے نجات حاصل کر لی لیکن اب بھی وہ برا وقت یاد آتا ہے جب شدید خواہش کے باوجود ہم نے پیچ و تاب نہیں کھایا تھا تو فیضؔ صاحب کا یہ شعر اپنی ساری توانائیوں سمیت ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے
کیا کیا نہ تنہائی میں تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
اور ہماری یادیں دستِ صبا تو ہیں نہیں کہ ہم فخریہ سینے سے لگائے پھرتے۔ ہمیں بے بس کرنے والے لمحات تو سینے کے وہ داغ ہیں جو اربابِ اختیار اور عوام النّاس کے باہمی تعاون ہی سے دھل سکتے ہیں۔

Comments