تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

حالات بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی علی کی خواہش پوری نہیں‌ ہوسکے گی اور اسے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس سال بھی نہ وہ روزہ رکھ سکے گا اور نہ ہی عید پر نئے کپڑے بنیں گے۔

گزشتہ چند برسوں سے یہی ہورہا تھا کہ علی کی روزہ کشائی کی تقریب کسی نہ کسی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس مرتبہ کچھ آس بندھی تھی مگر اس کے ابو کی ملازمت اچانک ختم ہوجانے سے علی کی آس دم توڑ گئی تھی۔ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کبھی بھی اُس کی روزہ کشائی نہیں ہوگی، نہ وہ عید پر نئے کپڑے پہنے گا اور نہ ہی دوستوں کو عید پر تحفے دے سکے گا۔ روزے کا کیا ہے، وہ تو علی پچھلے رمضان میں بھی رکھ سکتا تھا، لیکن محرومیوں کی گود میں پروان چڑھنے کے سبب وہ ضدی ہو گیا تھا۔ اُس نے ضد پکڑ لی تھی کہ روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ نہیں رکھے گا۔ تیرہ سال کا ہوگیا تھا مگر اس کے اندر کا ضدی بچّہ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے ہمکتا رہتا۔

خواب دیکھنے پر تو رقم خرچ نہیں ہوتی نا، چھوٹی چھوٹی آرزوئیں علی کو ستاتیں تو وہ نت نئے خواب بننے لگتا مگر جلد ہی اس کے خواب بکھر جاتے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر علی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ واضح نظر آنے والا چاند دھندلا سا گیا۔ یکایک علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے فرمانِ الٰہی یاد آگیا تھا ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا“ اور اسی پل علی نے اللہ کی رضا کے لیے دل میں پورے روزے رکھنے کا عہد کیا۔

چاند دیکھ کر علی نے امی ابّو کو سلام کر کے اُنھیں خوش خبری سنائی کہ کل وہ پہلا روزہ رکھے گا اور انشاء اللہ پورے روزے رکھے گا۔ علی نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ علی جو روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ رکھنے پر آمادہ نہ تھا نہ صرف پابندی سے روزے رکھ رہا تھا بلکہ بلاناغہ تراویح بھی پڑھ رہا تھا۔ اور پہلی مرتبہ رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے رمضان کا سارا مہینہ اس نے اللہ سے گلے شکوے کرتے گزارا لیکن اس بار روزے رکھ کر علی کواحساس ہو رہا تھا کہ رمضان شکوے کا نہیں شکر کا مہینہ ہے۔ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ علی بہت خوش تھا کہ روزے کی برکت سے اُس نے اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ شکوے کی جگہ شکر اور بے صبری کی جگہ صبر نے لے لی۔ اب ضد بھی برائے نام رہ گئی تھی۔ اور پھر یوں ہُوا کہ افطار کے وقت پابندی سے مانگی جانے والی علی کی دعا قبول ہو گئی۔

اس کے ابّو کو بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ معقول تھی۔ عید سے دو روز پہلے کمپنی نے عید کی خوشی میں ایڈانس تنخواہ دے دی۔ علی کی یوں کایا پلٹ ہوتے دیکھ کر اُس کے ابو نے عید کی خریداری کے لیے دو ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس عید پر وہ بھی نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا، دوستوں کے لیے تحائف لے گا۔ ابھی وہ منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اُس کے عزیز دوست حمزہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی۔ حمزہ نہایت غریب ذہین اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ اُس کے والد سرکاری دفتر میں کلرک تھے۔ اُن کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی، اُس پر یہ ناگہانی پریشانی، عید بالکل سر پر آگئی تھی۔ ایسے وقت میں اپنوں نے بھی اُن کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ علی کو جب ان حالات کا علم ہُوا تو اُس نے اپنی عید کی خریداری کی ساری رقم حمزہ کے ابو کو دے دی۔ علی کے والدین خوش تھے کہ اپنے دوست کی خاطر علی نے اپنی خوشیوں کی قربانی دی۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی احساس تھا کہ اب علی کو عید کے لیے نیا سوٹ نہیں دلوا سکتے۔ جب علی کی امی نے یہ بات اس سے کہی تو اُس نے کہا، ”کوئی بات نہیں مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں کہ میں معمولی کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھوں گا۔ میرے دوست کی صحت اور زندگی میرے کپڑوں، جوتوں، تحائف سے زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم اس کے بہت کام آگئی، اگر بروقت میں یہ رقم حمزہ کو نہ دیتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا اور میں عمر بھر عید کی خوشی نہیں منا پاتا۔“ یہ سُن کر علی کی امی نے بے اختیار اُسے گلے سے لگالیا۔

عید کی صبح علی نے پرانے کپڑے پہنے لیکن اُس کے اندر آج کوئی محرومی نہیں تھی۔ وہ دل میں عجب قسم کا اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا تھا۔ عید گاہ سے واپسی پر جب حمزہ سے ملنے علی اُس کے گھر گیا تو اُسے اپنا منتظر پایا۔ حمزہ جانتا تھا کہ عید پر قیمتی کپڑے پہننا علی کا خواب تھا جو اس کی وجہ سے اس سال بھی پورا نہ ہو سکا۔ علی کو پرانے کپڑوں میں دیکھ کر حمزہ کی آنکھیں بھر آئیں۔؎

علی! تم نے اپنے دل کو مار کر مجھے نئی زندگی دی، اگر تم بَروقت میرے علاج کے لیے پیسے نہ دیتے تو آج۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر حمزہ بری طرح رو دیا۔

حمزہ! آگے کچھ نہ کہو، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور مجھے بھی۔

کیا مطلب؟ تمہیں نئی زندگی دی؟ مگر کیسے؟ حمزہ نے حیرت سے سوال کیا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا۔ یقین کرو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں، میں خود کو بہت نیا نیا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو روزوں کا انعام بھی پا لیا۔ عید کی ایسی سچی خوشی مجھے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔“

تم نے میرے لیے بہت کیا ہے علی! پَر میں تمہیں یہ سستا سا عید کارڈ ہی دے سکتا ہوں جو تمہارے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

نہایت مسرت اور حیرت سے علی وہ کارڈ دیکھ رہا تھا، جس میں حمزہ کی محنت اور محبت دونوں ہی شامل تھی۔ کارڈ پر اشعار درج تھے۔

چلو ختم روزے ہوئے عید آئی
خوشی کا مسرت کا پیغام لائی
مبارک ہو سب کو قمر عید کا دن
کہ سب نے خوشی ہی خوشی آج پائی

میرے دوست! جسے تم سستا عید کارڈ کہہ رہے ہو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھ کرمیں نے جان لیا کہ تشکر کتنی انمول نعمت ہے، صبر اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے اور یہ کہ سچی خوشی اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اوروں کے کام آنے میں ہے۔بیشک میں نے روزوں کا انعام پا لیا ہے، بیش قیمت انعام۔

(مصنّف:‌ شائستہ زریں‌)

Comments

- Advertisement -