تازہ ترین

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

شیکسپیئر اینڈ کمپنی: دو شخصیات کی دل چسپ کہانی!

یہ مختصر روداد ہے ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ کی اور اُن دو کرداروں کی جنھیں آج بھی علم و ادب کی دنیا میں نہایت عزت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سب سے پہلے آپ کو سلویا بیچ کے بارے میں بتاتے ہیں۔
سلویا بیچ امریکا سے ہجرت کے بعد پیرس آئی تھیں۔ ادب کی دلدادہ، کتاب دوست اور فنونِ لطیفہ کی شایق اس خاتون نے پیرس کے ایک قصبے میں کتابوں کی دکان کھولی۔ یہ 1919 کی بات ہے۔ سلویا بیچ نے اس بک شاپ کو انگریزی ادب اور دیگر موضوعات پر کتابوں سے بھر دیا۔ یہ دکان جلد ہی کتابوں کے رسیا اور مطالعے کے شوقین افراد کی نظروں میں آگئی۔

عام خریداروں کے ساتھ اب یہاں مختلف شاعراورادیب بھی آنے لگے جو سلویا بیچ کے مطالعے اورعلم دوستی سے بہت متاثر تھے. اکثر ان کے درمیان کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو طویل ہو جاتی. اہلِ قلم کا یوں اپنی دکان پر اکٹھا ہونا سلویا بیچ کے لیے باعثِ فخر و مسرت تھا۔ وہ دکان اتنی بڑی نہ تھی کہ وہاں نشست کی جاسکے. جگہ کم پڑ رہی تھی تب سلویا بیچ قریب ہی ایک کشادہ دکان میں‌ منتقل ہوگئیں۔

1921 میں سلویا نے اپنی نئی بک شاپ میں ایک کتب خانہ بھی کھول لیا۔ ان کی محنت اور خلوص نے اس کتاب گھر کو علم و فنون کا ایک مرکز اور اس وقت کے نابغوں کا ٹھکانہ بنا دیا تھا۔ اب یہاں نام ور ادیب، شاعر اور صحافی جمع ہوتے تھے۔ اس کتاب گھر کی شہرت دور تک پھیل گئی۔ اس کتاب گھر کو ”شیکسپیئراینڈ کمپنی“ کا نام دیا گیا جہاں‌ پیرس کے اہم اور مقبول لکھاری جمع ہوتے اور علمی گفتگو کرتے۔ کہتے ہیں اکثر ایسا ہوتا کہ مباحث کے دوران رات گہری ہو جاتی، تب یہ قلم کار اس دکان ہی میں لمبی تان کر سو رہتے۔

ان میں خاص طور پر ارنسٹ ہیمنگوے، ازرا پاؤنڈ، گرٹروڈ اسٹین، مینا لوئے اور مین رے جیسی قدآور شخصیات کا نام لیا جاتا ہے۔ انہی احباب کے مشورے سے سلویا بیچ نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کردیا اور اس کاروبار سے مالی فائدہ ہی نہیں خوب شہرت بھی سمیٹی۔ مشہور رائٹر جوئس کا وہ ناول بھی سلویا بیچ نے شایع کیا جو متنازع اور امریکا، برطانیہ میں اس کی خرید و فروخت پرمکمل پابندی عائد تھی۔ اس ناول کا نام یولیسس تھا۔

اسی طرح عالمی شہرت یافتہ لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے کی تین کہانیوں اور دس نظموں پر مشتمل کتاب بھی اسی ادارے کے تحت شایع ہوئی تھی۔ تاہم 1941 میں جرمنی کے تسلط کے بعد یہ بک شاپ بند کر دی گئی۔

اب چلتے ہیں دوسرے کردار کی طرف اور اس کا آغاز ہو گا 1951 سے جب ایک اور امریکی جارج وہٹمین نے بھی ہجرت کے بعد پیرس میں سکونت اختیار کی تھی۔

جارج وہٹمین نے بھی پیرس میں اِسی طرز کی ایک بک شاپ کھولی اور رفتہ رفتہ شائقین ادب ہی نہیں اپنے وقت کے زرخیز ذہن اور خوب صورت تخلیق کاروں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ وہٹمین اس کتاب گھر کو علم و ادب کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا خواہش مند تھا اور اس کی یہ خواہش جلد پوری ہو گئی۔ اس بک شاپ پر اس وقت کے مؤقر اخبار اور جرائد کے مدیر، قلم کار اورناشرین بھی آنے لگے۔
ہم نے جس سلویا بیچ کا تذکرہ اوپر سطور میں کیا تھا وہ 1964 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ جارج وہٹمین ان کی خدمات سے بہت متاثر تھا۔ ایک سال جب شیکسپیئر کی برسی آئی تو جارج وہٹمین نے اپنے کتاب گھر کا نام ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ رکھنے کا اعلان کر دیا اور بتایا کہ یہ سلویا بیچ سے ان کی عقیدت کا اظہار ہے جو ایک علم دوست اور قابل شخصیت تھیں۔ یہی نہیں بلکہ وہٹمین نے اپنی بیٹی کا نام بھی سلویا بیچ رکھا جو اس کتاب گھر میں 2003 سے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی رہی ہے۔

جارج وہٹمین بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان کی بیٹی اس بک شاپ کو نہ صرف چلا رہی ہے بلکہ وہ اس کتب فروش خاتون اور اپنے والد کی ہر روایت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اب یہاں موجودہ دور کے معروف قلم کار آتے ہیں اور مختلف موضوعات پر علم و فکر کا اظہار کرتے ہیں۔

موجودہ کتاب گھر کی مالک سلویا بیچ نے دو سال قبل ہی ماضی کی اُس علم دوست سلویا بیچ کی زندگی اور اس زمانے کی بک شاپ کا احوال بھی ایک کتاب میں محفوظ کیا ہے۔ 400 صفحات کی اس کتاب میں ماضی کی کئی حسین یادیں تصویر کی گئی ہیں۔ علمی اور ادبی مجلسوں کا احوال اور اہم شخصیات کی تصاویر کتاب کی رونق ہیں۔

Comments

- Advertisement -