تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

شیریں ابوعاقلہ : جنگ و امن کا چہرہ اور آواز

 اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز اردن میں نامور اور سینئر صحافی شیریں ابوعاقلہ کو گولی مار کر قتل کردیا جب وہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں میں مصروف تھیں، ان کاتعلق عربی ٹیلی ویژن "الجزیرہ نیوز” سے تھا۔

الجزیرہ کی مشہور صحافی شیریں ابو عاقلہ غربِ اردن کے شہر جنین میں اسرائیلی کارروائی کو کور کرنے کےلیے بدھ کو وہاں پہنچی تھیں۔ الجزیرہ کے مطابق گولی لگنے کے کچھ دیر بعد ہی شیریں کی موت واقع ہو گئی۔

اس کے علاوہ واقعے میں ایک فلسطینی صحافی کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ 51سالہ ابو عاقلہ بیت المقدس میں پیدا ہوئیں اور1997 میں الجزیرہ کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا، انھوں نے اردن کی یرموک یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی تھی۔

شیریں ابوعاقلہ تمام فلسطینی علاقوں سے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ انہوں نے سال 2008، 2009، 2012، 2014 اور 2021 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کی بھی رپورٹنگ کی تھی۔

عرب صحافی نے دور جوانی میں صحافت کا آغاز کیا وہ صحافت میں ایک محرک قوت کے طور پر پہچانی جاتی تھیں، وہ پہلی خاتون نامہ نگار تھیں جنہیں نوجوان نسل میں بھرپور پذیرائی ملی۔

خاتون صحافی کے قتل سے متعلق الجزیرہ میں ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافی ابراہیم کا کہنا ہے کہ شیریں ابو عاقلہ جینن میں اسرائیلی مظالم بے نقاب کر رہی تھیں۔

ابراہیم نے رملا سے اپنے رقت آمیز بیان میں کہا کہ شیریں ابو عاقلہ کی موت ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام صحافیوں کیلئے ایک بڑا صدمہ ہے۔ وہ ایک بہت قابلِ احترام صحافی تھیں۔

ان کی ساتھی اور دوست دالیہ ہتوکا نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شیریں ابوعاقلہ کو آئیڈیل مانتے ہوئے بہت سی خواتین آئینے کے سامنے بالوں کا برش پکڑ کر اور خود کو ان جیسا بنانے کا خواب دیکھتے ہونے بڑی ہوئیں۔

a woman lights a candle in bethlehem

الجزیرہ کی ایک کارکن لینا الصفین نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابو اقلہ نے اسرائیلیوں میں بھی اپنی الگ پہچان بنائی، انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیلی فوج کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔

شیریں ابوعاقلہ کے ایک اور ساتھی کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے قبیلے کا حصہ تھی لیکن اس کے عزم و حوصلے اور پرسکون اعتماد نے اسے سب سے علیحدہ مقام دیا، اس کی پر اعتماد مسکراہٹ اور مستعدی نے بہت سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

Image

سوشل میڈیا پر جاری ایک تصویر نے اس کے ساتھیوں میں غم اور دکھ کی لہر دوڑا دی جس میں وہ سڑک کے کنارے مردہ حالت میں پڑی ہوئی تھیں۔

مقتولہ صحافی کے تابوت پر جلی سفید حروف میں "پریس” لکھا ہوا تھا، جو اسرائیل فلسطین تنازعہ اور بہت سی دوسری سنگین جنگوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی جانب سے ادا کی گئی بھاری قیمت کی ایک تکلیف دہ یاد دلاتی ہے۔

صحافی شیریں ابو عاقلہ کون تھیں؟

اقوام متحدہ نے بھی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ اپنے بیان میں ترجمان کا کہنا ہے کہ میڈیا کے ملازمین کو کبھی بھی اس طرح سے نشانہ نہیں بنانا چاہیے جو بھی اس واقعے کے ذمہ دار ہیں ان کیخلاف فوری کارروائی ہونی چاہیے۔

Comments

- Advertisement -