پیلی چاندنی، دھندلے ستارے، مدھم چاند اور خاموش پرندوں کا وقت… شاندار رات اور اس سب سے زیادہ خوبصورت دریا پار، دور سے آتی ہوئی ہلکی مگر واضح ہلکورے لیتی ہوئی بانسری کی آواز، آج رات وہ بانسری نواز کے دل میں بسا ہوا سکون بھی صاف سن سکتی تھی۔
اس میں کوئی جلد بازی نہیں تھی، جذبات بھری مگر دھیمی موسیقی تھی۔ اس میں ایسی تاثیر تھی جو سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے اور دریا کے قریب موجود نمی نے اس کو مہمیز کر دیا تھا۔
پائیپر نے ہاتھ میں پکڑی کتاب نیچے رکھ کر، مسحور ہو کر سننا شروع کر دیا۔ یہ بانسری بجانے والا شخص کیسا تھا؟ اس نے ادھر ادھر کی باتوں میں کئی لوگوں سے یہ سوال کیا تھا مگر ان کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ مطلب یہ کہ کسی کے جواب سے یہ پتہ نہیں چلا تھا کہ وہ بانسری نواز مرد تھا کہ عورت، بوڑھا تھا کہ جوان۔ شاید وہ کوئی شکستہ دل لڑکی تھی۔ ’سرخ محلات کے خواب‘ والی ’دائی یو‘ کی طرح یا شاید کوئی بوڑھا آدمی تھا جو ملازمت سے فارغ التحصیل ہو چکا تھا اور اپنی طویل تنہائی کو بانسری کے ذریعے نشر کر رہا تھا، یا شاید یہ کوئی نو جوان تھا، نوجوان ہونا چاہیے تھا ورنہ وہ اتنا اچھا کیسے بجا سکتا تھا، اس کے دل کے تاروں کو اتنی زور سے کیسے چھیڑ سکتا تھا؟
بانسری نواز واقعی بہت عجیب تھا۔ خلافِ توقع ہر شام دریا کے اس پار کہیں دور سے بانسری کی آواز بن بلائے آنے لگتی۔ یہ آواز ماضی کے کسی دکھ کا رد عمل لگتی تھی مگر اس میں نہ کوئی شکایت تھی نہ ملامت۔ پائیپر یہ کہنے پر تیار نہیں تھی کہ وہ اسے مکمل طور پر سمجھتی تھی اور نہ ہی یہ کہنا چاہتی تھی کہ جتنا اسے سمجھ آیا ہے وہ کیا تھا۔ مگر اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بانسری نواز اپنے دل میں چھپا ہوا کوئی راز بتا رہا تھا۔ اگر دریا کے اس پار بانسری بجانے والا کسی بھی وجہ سے کسی شام خاموش ہو جائے تو یہ پائیپر کے لیے ناقابل برداشت نقصان ہوگا۔ یہ نقصان ہوگا کس چیز کا؟ اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔
کیا اسے بانسری نواز سے محبت ہو رہی تھی؟ شاید نہیں، اس نے کبھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، نہ اسے یہ پتہ تھا کہ وہ کیسا انسان تھا۔ یہ اسے کسی طرح پسند کر سکتی تھی؟ اس نے بس ایسے ہی بانسری کی آواز کے سحر میں اس کی تصویر اپنے ذہن میں بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے تصور میں وہ جذباتی تھا مگر روایتی بھی تھا، یقیناً روایتی اقدار سے وابستہ تھا۔ بعد ازاں بانسری نواز کو دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں گرہ بن کر رہ گئی۔ کئی مواقع پر شام کے دھندلکے کے بعد وہ دریا کے کنارے چلتی ہوئی اس پر بنے ہوئے پل کی طرف گئی۔ جب وہ آواز کا تعاقب کرتے ہوئے دوسری طرف پہنچی تو وہاں کے زیر و بم میں کچھ دیر اس نے اسے تلاش کیا۔ جب اتفاق سے اسے وہ جگہ نظر آگئی جہاں بانسری نواز ہو سکتا تھا تو اس میں اوپر جانے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوا۔ اسے ڈر لگا کہ وہ یہ خوبصورت خواب غارت کر دے گی۔ چنانچہ وہ خاموشی سے دریا کے اپنی طرف والے کنارے پر واپس آگئی۔
بعد میں وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سمندر پار چلی گئی۔ اس نے دریا چھوڑ دیا، اپنا آبائی قصبہ چھوڑ دیا، اب وہ بانسری کی دھیمی، گہری آواز نہیں سن سکتی تھی۔ اجنبی دیس میں اجنبی ہو کر وہ آواز اس کے دل میں گونجتی رہتی تھی۔ بانسری نواز کی آواز ہمیشہ رہنے والی یاد بن گئی تھی۔ پائیپر سوچتی تھی کہ شاید یہ بانسری کی آواز ہی تھی جس کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی قصبے میں واپس جانا چاہتی تھی۔
(عالمی ادب سے انتخاب)