جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں، تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بُری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، تو پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے۔ پھر باچھیں چِر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ داڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور نحیف آواز کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔
اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کے کان اس کے منہ میں، اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کم زور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا۔
نا مہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی اسی طرح پر تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کے آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر وہی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے۔ دوسرا بولتا ہے واہ! یوں نہیں یوں ہے، وہ کہتا ہے، واہ! تم کیا جانو… دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے… تیوری چڑھ جاتی ہے… رخ بدل جاتا ہے… آنکھیں ڈراؤنی ہوجاتی ہیں… باچھیں چِر جاتی ہیں… دانت نکل پڑتے ہیں… تھوک اڑنے لگتا ہے… باچھوں تک کف بھر آتے ہیں… آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں… نحیف نحیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں… آستینیں چڑھا، ہاتھ پھیلا اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی داڑھی اس کی مٹھی میں لپّا ڈُپّی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کرا کر چھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک اُدھر چلا گیا اور ایک اِدھر۔ اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کم زور نے پٹ کر کپڑے جھاڑتے، سر سہلاتے اپنی راہ لی۔
جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو جاتی ہے۔ کہیں تُو تکار پر نوبت آجاتی ہے۔ کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے پر ہی خیر گزر جاتی ہے، مگر ان میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے، آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہوتی ہے، مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی محبت اور دوستی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔
پس اے میرے عزیز ہم وطنو! جب تم کسی کے خلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دوبدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو اور بناوٹ بھی نہ پائی جائے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے الفاظ استعمال کرو۔ مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا میں غلط سمجھا۔ گو بات تو عجیب ہے مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔ جب بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے نہ دے تو زیادہ تکرار مت بڑھاؤ۔ یہ کہہ کر میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا۔ جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کر ختم کرو۔ دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلاؤ کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا۔ کیوں کہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور اپنی عزیز شے (جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے، جب کہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملتے ہیں، تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے، تکرار اور مباحثہ کو آنے مت دو۔ کیوں کہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے، تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگتی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو اس کو ختم کرو اور آپس میں ہنسی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کر لو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان کی مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔
(مضامینِ سر سید احمد خان سے انتخاب)