اشتہار

سوبھوگیان چندانی: کمیونسٹ راہ نما، ایک عہد ساز شخصیت

اشتہار

حیرت انگیز

ممتاز کمیونسٹ راہ نما، اور مارکسی سیاست دان سوبھوگیان چندانی نے 2014ء میں‌ آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ ان کا شمار برصغیر کے سینئر کمیونسٹ راہ نماؤں میں‌ ہوتا تھا جنھیں پاکستان میں اپنے نظریات اور افکار کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں اور دورِ آمریت میں‌ معتوب ہوئے۔ بوقتِ مرگ ان کی عمر 95 سال تھی۔

سوبھو گیان چندانی کا پیدائشی نام سوبھ راج تھا۔ لیکن وہ سوبھوگیان چندانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ 3 مئی 1920ء کو موہن جو دڑو سے چند کلومیٹر دور ’’گوٹھ بِندی‘‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے نظریات، فکر و فن اور سیاسی و عوامی جدوجہد کا احاطہ کرتی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ سوبھوگیان چندانی کا خاندان سکھ مت کے بانی گرو نانک کا ماننے والا تھا۔ سوبھوگیان چندانی کا عقیدہ اور اعتقاد انسان دوستی، مظلوم کی حمایت اور جابر کو للکارنے پر مبنی تھا۔ سوبھوگیان چندانی کی پوری زندگی غریب اور محروم طبقات کے حقوق کی لڑائی، جاگیر داروں، سرمایہ داروں کے خلاف آواز بلند کرنے اور آمروں کو للکارتے ہوئے گزری۔

انھوں نے لاڑکانہ سے میٹرک پاس کیا اور پھر رابندر ناتھ ٹیگور کے ادارے شانتی نکیتن میں داخلہ لے لیا۔ اس بارے میں انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 1930 میں ٹیگور کو خط لکھا کہ ’میں ایک محنتی اور ایمان دار لڑکا ہوں، آپ کے ادارے میں تعلیم کا خواہش مند ہوں، لیکن آپ کے پری ایڈمشن ٹیسٹ میں حصہ نہیں لے سکتا۔ چند روز بعد اس خط کا جواب آگیا اور بغیر انٹرویو ادارے میں داخلہ مل گیا۔‘وہاں‌ آرٹ کے علاوہ کلچرل فلاسفی کے طالبِ علم رہے۔ اس ادارے میں تعلیم اور وہاں‌ تربیت کے بارے میں سوبھو گیان چند کہتے تھے کہ انھوں نے ’کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی الکوحل کا استعمال نہیں کیا اور خواتین کو بری نظر سے نہیں دیکھا۔‘

- Advertisement -

کمیونسٹ فکر اور فلسفے سے متاثر ہونے والے سوبھو نے 1942 میں سیاست میں قدم رکھا اور کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اگلے ہی سال پٹنہ میں کمیونسٹ پارٹی کی اسٹوڈنٹس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں بشمول ان کے سندھ سے دو درجن کے قریب نوجوان شریک ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فن اور ادب کی دنیا پر بھی کمیونسٹ اور ترقی پسند فکر کے حامل اہلِ قلم چھائے ہوئے تھے اور آزادی کی جدوجہد بھی زوروں پر تھی۔ ہر طرف جلسے، مظاہرے ہو رہے تھے اور ہندوستان میں سیاسی اور سماجی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے زمانے میں وہ سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے۔ طلباء کا زور تھا کہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے، لیکن کمیونسٹ پارٹی کی ہدایت تھی کہ انگریز حکومت کو زیادہ تنگ نہ کیا جائے کیونکہ وہ سوویت یونین کا ساتھ دے رہی ہے۔ انہی انقلاب آفریں دنوں میں‌ ہٹلر سے جنگ کی وجہ سے مرکزی کمیونسٹ پارٹی نے برطانیہ کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ مگر سوبھو گیان چندانی اور ان کے ساتھیوں نے اس کی مخالفت کی اور اس وقت گاندھی کی برطانیہ کے خلاف جدوجہد کا حصّہ بن گئے۔ اس وقت تک سوبھو کی فکر خاصی پختہ ہوچکی تھی اور وہ نہایت پُرجوش اور فیصلہ ساز کارکن مشہور تھے۔ وہ کراچی میں ریلوے اور کئی دوسرے اداروں کی مزدور یونینوں کے سرکردہ راہ نما تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد کامریڈ سوبھو اور ان جیسے نہایت مخلص اور بے داغ کردار کی مالک شخصیات نے ہر قسم کی شہرت اور عہدوں‌ کو چھوڑ کر کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہنا پسند کیا۔ وہ فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، میجر اسحاق، شرافت علی، عزیز سلام بخاری اور حیدر بخش جتوئی جیسے نام وَر کمیونسٹوں اور ہاری تحریک کے راہ نماؤں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔

پاکستان میں بعد میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی اور کمیونسٹ قیادت پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا اور کارکن بھی ٹوٹتے چلے گئے اور جب آمریت کی تاریکی میں مکر و فریب کی سیاست نے رنگ جمایات تو کامریڈ سوبھو کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئیں۔ ان کے ایک انٹرویو سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا تو انھیں ایک موقع پر جی ایم سید نے مشورہ دیا تھاکہ ’سوبھو یہاں سے بھاگ جاؤ اب یہ زمین تمہارے لیے محفوظ نہیں۔‘ لیکن کامریڈ سوبھو نے کہا کہ ’میں کیوں یہاں سے جاؤں یہ میری دھرتی ہے، میں دھرتی کا بیٹا ہوں۔ 1947 کے وقت بھی نہیں گیا تو اب کیوں جاؤں۔‘ کامریڈ سوبھو کو ایوب کے دور میں گرفتار کیا گیا۔ انھیں عام آدمی سے محبت، اس کے حقوق کی فکر، اور اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے شاہی قلعے میں عقوبت خانے میں قید بھگتنا پڑی، لیکن جبر اور تشدد ان کو اپنا مسلک چھوڑنے پر مجبور نہیں‌ کرسکا۔

لاڑکانہ سے تعلق اور سندھی ہونے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کو سوبھو گیان چندانی ڈکٹیٹر قرار دیتے تھے۔ سنہ 1988 کے انتخابات میں وہ اقلیتی نشست پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں‌ نے پاکستان میں‌ کمیونسٹ نظریات کی سیاست جاری رکھی اور روایتی سیاست کا حصّہ نہیں‌ رہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں