آج انگریزی املا کا دن تھا۔ کمرۂ جماعت میں موجود سبھی بچّے گھر سے خوب خوب املا یاد کر کے آئے تھے۔
گھنٹہ بجنے کے تھوڑی دیر بعد انگریزی کے استاد کلاس میں آ گئے۔ سب بچّے ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انگریزی کے استاد نے بہت شفقت اور نرمی سے کہا، ’’بچوں آج ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آئے ہیں اور وہ معائنہ کریں گے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو املا نہیں بولوں گا ابھی انسپکٹر صاحب آتے ہوں گے وہی تم لوگوں کو املا بولیں گے۔‘‘
’’جی جی اچھا ماسٹر صاحب۔’’ اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں نے استاد کی بات ختم ہوتے ہی ایک ساتھ دھیمی آواز میں کہا یہ سن کراستاد نے پھر ان کو مخاطب کیا۔
’’دیکھو بچوں گھبرانا بالکل نہیں جیسے ہی انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوں تم سب بہت خاموشی اور بہت ادب سے کھڑے ہو جانا پھر جب وہ کہیں (Please Sit down) پلیز سٹ ڈاؤن تو تم سب بیٹھ جانا پھر جب وہ پوچھیں کہ آج کیا ہے تو صرف مانٹیر جواب دے کہ سر آج (Dictation) ڈکٹیشن کا دن ہے۔‘‘
انگریزی کے استاد بچوں کو یہ سمجھا ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے پورے کلاس پر بھرپور نظر دوڑاتے ہوئے ان سب سے بیٹھ جانے کو کہا پھر انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔
’’ماسٹر صاحب کیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘
’’سر آج ڈکٹیشن کا دن ہے۔’’ انگریزی کے استاد نے جواب دیا، ’’اچھا اچھا تو آج ڈکٹیشن کا دن ہے تو لائیے آج میں ہی بول دوں دیکھوں آپ کے بچّے کیا پڑھتے ہیں۔‘’ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے انگریزی کے استاد سے کہا انگریزی کے استاد یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے ذرا سا ہٹ کر اور ایک کونے میں کھڑے ہوگئے تاکہ انسپکٹر صاحب سب لڑکوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ سبھی بچّے املا لکھنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔
’’بچوں تمہارا قلم کاپی تیار ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں سر‘‘ سبھی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
’’تو لکھو میں بولتا ہوں۔‘‘ انسپکٹر صاحب نے کہا اور پھر رک رک کر املا بولنا شروع کر دیا۔ Forest فاریسٹ، Man مین، Cup کپ، Teacher ٹیچر، Kettle کیٹل۔
سبھی بچے گھر سے خوب پڑھ کر اور یاد کر کے آئے تھے اس لئے ان سبھی نے جلدی جلدی انسپکٹر صاحب کے بولے ہوئے پانچوں لفظ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھ دیے۔ انگریزی کے استاد نے خوش ہو کر بچوں کے پاس جا جا کر دیکھا تو صرف ایک بچہ ایسا نکلا جو ’’کیٹل‘‘ نہیں لکھ پاتا تھا اور باقی چاروں لفظ اس نے بالکل ٹھیک لکھے تھے۔ وہ بچہ چاہتا تو بغل میں بیٹھے کسی بھی بچے کی نقل کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور اس نے اپنی نظر اپنی کاپی سے ذرا بھی نہ ہٹائی۔
انسپکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے سبھی بچوں کے پاس گئے اور انہوں نے سب کی کاپیاں دیکھیں ۔وہ جب اس کے پاس گئے تو وہ بچہ سب بچوں کی طرح ادب سے کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنی کاپی انسپکٹر صاحب کو پیش کر دی۔ انسپکٹر صاحب نے اس کی کاپی دیکھی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔
’’تم کو‘’ کیٹل ‘‘کی اسپیلنگ نہیں معلوم؟‘‘
’’نو سَر‘‘ اس بچّے نے بہت ایمانداری اور شرمساری سے کہا۔
انسپکٹر صاحب اس بچے کا جواب سن کر اس پر غصہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بہت خوش ہوئے اور انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر صاحب! آپ کے کلاس کے بچے نہ صرف پڑھنے میں تیز ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں۔ اس بچے کے دائیں بائیں دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچوں نے سبھی لفظ صحیح لکھے ہیں اگر یہ بچہ چاہتا تو نقل کر سکتا تھا یا پوچھ سکتا تھا مگر یہ نقل کرنا یا پوچھنا بھی بے ایمانی سمجھتا ہے اس لئے اس نے ایسا نہیں کیا میں آپ کے سبھی بچوں سے اور اس بچے سے بہت خوش ہوں۔‘‘
انسپکٹر صاحب انگریزی کے استاد سے اتنا کہہ کر اس بچہ سے مخاطب ہوئے۔
’’کیوں بچے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
اس نے اپنا نام بتایا جس کو سن کر انسپکٹر صاحب نے کہا۔ ’’تم ضرور ایک اچھے آدمی بنو گے اور معاشرے میں مقام پیدا کرو گے۔ کیوں کہ ذہین وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اکثر بڑے بڑے فراڈ اور نہایت منظم طریقے سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں، لیکن ذہانت کے ساتھ ایمان داری اور سچ بولنا وہ صفت ہے جو سب کو نصیب نہیں ہوتی۔‘‘
دوستو! دنیا میں جتنے بھی بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو ذہین تو تھے ہی لیکن ان کی ایک بڑی خوبی جھوٹ سے ان کا نفرت کرنا اور ہر حال میں سچ بولنا تھا۔
(مصنّف: نامعلوم)