اشتہار

سرکاری رہائش گاہیں صرف حقدارکوملنی چاہیے: چیف جسٹس

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رہائش گاہ سرکار کی ہے، حقدار کو ملنی چاہیے ۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے اسٹیٹ افسر کی جانب سے پیش کردہ عذر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آسان حل یہ ہے کہ پولیس کی مدد سے رہائش گاہیں سیل کردی جائیں، جو سیل توڑے اس کے خلاف عدالت ایکشن لے گی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جنوری میں بچوں کے امتحانات ہونے ہیں اور سی ڈی اے کی جانب سے بقایاجات کے مد میں 148 ملین روپے کا تقاضا بھی کیا گیا ہے ۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کا گن کلب والا ایشو بھی ابھی تک حل نہیں ہوا۔

- Advertisement -

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے نے ابھی تک گن کلب کا بھی قبضہ نہیں لیا ہے۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ کراچی میں اب تک 4220 گھر خالی کرا چکے ہیں ، جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ آپ صرف اسلام آباد کی بات کریں۔

چیف جسٹس کی سرزنش پرایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایک ناجائز گھر خالی کرانے پر 15 سے 20 ہزار روپے فی گھر خرچ آتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفا ر کیا کہ اس معاملے کے انچار ج کہاں ہیں، بتائیں کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟، کیا دہاڑی دار لوگ بھرتی کیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں ساڑھے چار ہزار گھر خالی کرانے کے لیے ایک انسپکٹر بھرتی کر رکھا ہے۔

اس موقع پراسٹیٹ افسر کا کہنا تھا کہ اگر گھر خالی کرانے کے لیے مزدورلیں تو 7 ہزار روپے خرچہ آتا ہے اور ہمارے پاس ٹرانسپورٹ کا بھی ایشو ہے۔چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آسان حل یہ ہے کہ پولیس کو ساتھ لیں ، جس پر کوئی خرچہ نہیں ہوتا اور گھر سیل کردیں۔ کسی نے سیل توڑی تو ہم ایکشن لیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا کہ سیکرٹری سامنے آئیں ، اسٹیٹ افسر کر آگے کررکھا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں