تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

دو صوبوں کے انتخابات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کب کیا ہوا؟

رواں سال 14 اور 18جنوری کو بالترتیب صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں آئین کے تحت 90روز میں عام انتخابات کا انعقاد گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔

دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے تقریباً ایک ماہ بعد تک دونوں صوبائی گورنرز کی جانب سے تاریخ نہ دیئے جانے پر 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایک اور بحث نے جنم لیا کہ صدر کو یہ اختیار ہے بھی یا نہیں جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور ملک میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا، اسی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ نے الیکشن کے التواء پر ازخود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس

22فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ

پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، جے یو آئی ایف نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے نو رکنی بنچ میں شامل دو ججوں، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان ججوں کو بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے، جنہوں نے بعد ازاں بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔

اس کے بعد سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ سے مزید دو ججز علیحدہ ہوگئے، 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

ازخود نوٹس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات90 دنوں میں کرانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو پنجاب میں الیکشن انتخابات کیلئے30 اپریل سے7 مئی تک کی تاریخیں تجویز کی تھیں۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کردیے

سپریم کورٹ کے فیصلے اور صدر کی جانب سے تاریخیں تجویز کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق پنجاب کا انتخابی شیڈول جاری کیا اور اس کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پی ٹی آئی سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تاہم پھر اچانک بدھ 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ پنجاب میں انتخابات اب آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے امن و امان کی صورتحال سازگار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے آڈر میں کہا گیا تھا کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سول اور فوجی اہلکاروں کو الیکشن ڈیوٹی کے لیے فراہم نہیں کرسکتی جبکہ اس آرڈر میں وزارت خزانہ کے حکام کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے انتخابات کے لیے لیے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کی ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست

الیکشن کمیشن کے اس اقدام کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کی، 27مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے۔

28مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم - Pakistan - Dawn News

29مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟

30مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بنچ ٹوٹ گیا تھا۔ بعد ازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بنچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔

31مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

تین رکنی ججز کی سماعت کا فیصلہ محفوظ

اس تین رکنی بینچ نے درخواست گزار، اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد 3 اپریل کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو 4 اپریل کو سنایا اور اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول میں معمولی ردوبدل کیا اور پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔

دوران سماعت ای سی پی کے وکیل کا ججز سے مکالمہ</h3

قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں عرفان قادر نے کہا کہ پہلے مجھے سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتادیا ہے؟ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔

بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی، عرفان قادر

اپنے دلائل میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ وہ وجوہات بتائیں کہ کیوں جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات پر آپ کو جوابدہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس انہیں نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں؟

ایک موقع پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے کان میں لقمہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟، عرفان قادر نے کہا صرف 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے 2ججز کے نوٹ کیخلاف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی بار تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور دو ججز واپس آتے تھے، جواباً چیف جسٹس نے فوری کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔

ون مین شو کس کو کہا گیا ہے؟

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا؟ تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا

ایک موقع پر عرفان قادر نے کہا کہ حکومت نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو نہیں مانا تھا، راجہ پرویز والے معاملے میں خط لکھ کر سپریم کورٹ کی فیس سیونگ کی گئی، نظریہ ضرورت بہت اچھی چیز تھی، ہم تواس سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔

اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ ناٸیک کے دلائل

کیس کی سماعت کے آغاز میں پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک روسٹرم پر آٸے تو جسٹس منیب اختر نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہوں گے، تاہم بینچ سے متعلق ہمیں کچھ تحفظات ہیں۔

اٹارنی جنرل صاحب!! بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، الیکشن کمیشن کا حکم برقراررہا تو تمام استدعا ختم ہوجائیں گی۔

پنجاب اور کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

نیوی اور ایئر فورس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے،۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔

ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ کا بیان

مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ آپ کے پاس ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ن لیگ کے وکیل سے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے لیکن جو بیانات دیئے گئے ہیں اس کا کیا؟ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلاء آپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ پر اعتبار ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض اور دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا بیان

عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلایا۔ چیف جسٹس نے ان دریافت کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ملیں گے تو انتحابات کرا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کیلئے دستیاب ہوسکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔

 سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔

Comments

- Advertisement -