اشتہار

سیّد مراتب علی کا تذکرہ جنھوں‌ نے کئی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان میں تحریکِ آزادی اور مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے لیے اسباب اور مالی وسائل مہیا کرنے والوں میں ایک نام سیّد مراتب علی کا بھی ہے جن کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قریبی دوست تھے۔ سید مراتب علی نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی دولت خرچ کی اور دل کھول کر مسلم لیگ کے لیے مالی عطیات دیے۔

سیّد مراتب علی 1882ء میں متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید وزیر علی شاہ کاروبار سے وابستہ تھے اور دکان چلانے کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداری کرتے تھے۔ یوں مراتب علی بھی محنتی اور کاروباری سوجھ بوجھ کے حامل تھے اور دکان کو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر چلایا۔ مراتب علی کا شمار شمالی ہندوستان کی کام یاب مسلمان کاروباری شخصیات میں‌ ہوا۔ 22 مئی 1961ء کو سید مراتب علی وفات پاگئے تھے۔

ابتدا میں ان کے والد نے لاہور میں کاروبار شروع کیا تھا۔ بعد ازاں وہ اپنے کنبے کے ساتھ فیروز پور چھاؤنی منتقل ہوگئے اور صدر بازار میں ایک دکان کھولی اور مختلف کاموں کے ٹھیکے بھی لینے لگے۔ ان کے بیٹے سید مراتب علی شاہ نے بھی تعلیم مکمل کر کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ ان کے ساتھ ان کا دوسرا بھائی بھی موجود ہوتا تھا۔ جب والد نے اپنے ان دونوں بیٹوں کو اس قابل پایا کہ وہ ان کا کاروبار اچھی طرح‌ دیکھ سکتے ہیں، تو فیروز پور چھاؤنی کی دکان ان پر چھوڑ کر ٹھیکیداری پر توجہ دینے لگے۔ والد کے انتقال کے بعد سیّد مراتب علی شاہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کاروبار کو سنبھالا اور بہت کم عرصہ میں اپنی دیانت داری اور محنت و لگن سے انگلش آرمی یونٹوں تک رسائی حاصل کرلی اور ان کے لیے مختلف خدمات انجام دینے لگے۔ 1902ء میں سید مراتب علی کو ایک انگلش رجمنٹ میں کافی شاپ کا ٹھیکہ ملا اور کچھ عرصہ بعد دوسری کافی شاپس کے ٹھیکے بھی ان کو دے دیے گئے۔ اس ترقی کے ساتھ سید مراتب علی شاہ آرمی اور اہلِ علاقہ میں ایمان دار اور نیک نیّت بھی مشہور ہوچکے تھے۔ ان کی یہی شہرت انھیں سیاسی اور سماجی امتیاز عطا کرنے کی بنیاد بنی۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خاں، والی افغانستان نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ ان کی پذیرائی کے لیے ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سید مراتب علی شاہ کو نہ صرف اس کمیٹی کا ممبر چن لیا گیا بلکہ شاہی پارٹی کے تمام افراد کے خورد و نوش کا انتظام انہی کے سپرد ہوا۔ پہلے فیروزپور چھاؤنی کے فوجی افسروں تک بات محدود تھی، اب وہ حکومتِ ہند کی نظروں میں آگئے۔

- Advertisement -

1908ء میں‌ سید مراتب علی شاہ نے انارکلی لاہور میں پنجاب ہاؤس کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا۔ یہاں بھی ان کی نیک نامی خوب کام آئی اور ان کا کاروبار لاہور سے جھانسی، لکھنؤ اور بریلی کی چھاؤنیوں تک پھیل گیا۔ اسی دوران جارج پنجم کی تخت نشینی کے سلسلے میں ایک اجلاس دربار دہلی منعقد ہوا جس میں شہر کے ایسے بڑے کاروباری افراد اور مختلف شخصیات بھی مدعو تھے۔ وہاں ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ جنگِ عظیم چھڑنے کے بعد ہندوستان بھر میں‌ ملٹری اسٹیشنوں پر کسی نہ کسی شکل میں سید مراتب علی کی خدمات ضرور لی جارہی تھیں۔ وہ مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں اور قیادت کے بھی قریب ہوگئے۔ 1934ء میں حکومت ہند نے ایک تجارتی وفد افغانستان بھیجا جس میں سید مراتب علی شاہ بھی شامل تھے۔ 1935ء میں ریزرو بنک آف انڈیا کا سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر قائم ہوا تو وہ اس کے رکن بنے۔ 1936 سے لے کر تقسیمِ ہند تک ایلکلی اینڈ کیمیکل کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور 1940ء سے لے کر اپنی وفات تک ایچی سن کالج لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔

1942ء میں سید مراتب علی آل انڈیا مسلم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ 1944ء میں انڈین چیمبرز آف کامرس لاہور کے صدر بنے۔ حکومت برطانیہ نے 1929ء میں انھیں "خان بہادر” اور 1940ء میں "سَر” کا خطاب دیا۔ وہ عملی سیاست سے دور رہے لیکن قیامِ پاکستان کی کوششوں کے لیے اپنی کاروباری اور سماجی حیثیت کو استعمال اور مال و دولت کو خوب خرچ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر تحریک کے لیے رقم دیتے رہے۔مسلم لیگ کی کوئی تحریک، کانفرنس یا کمیٹی ایسی نہ تھی جس سے آپ کا تعلق نہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں وہ اس دو رکنی وفد کے رکن نام زد ہوئے جسو ریزرور بنک آف انڈیا سے پاکستان کا پچاس کروڑ روپیہ وصول کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے مرکزی بورڈ کے رکن بنے اور آخری سانس تک آپ مرکزی بورڈ کے ممبر رہے۔ پاکستان میں‌ مہاجرین کی آباد کاری ایڈوائزری کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی سید مراتب علی نے خدمات انجام دیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کئی بڑی کمپنیاں اُن کی دعوت پر ہمارے معاشی نظام کا ستون بنیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں