اشتہار

سیّد محمد تقی: ممتاز فلسفی اور دانش وَر

اشتہار

حیرت انگیز

سیّد محمد تقی کو عالمی سطح پر ایک مفکّر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جن کی تصانیف علم و دانش کے موتیوں‌ پر مشتمل خزانہ ہے۔ سیّد محمد تقی 25 جون 1999ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

سیّد محمد تقی کا شمار ان نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کے لیکچرز اور کتابیں نسلِ نو کی فکر کو سمت دینے اور نظریاتی بنیادوں پر ان کی تربیت کرنے میں اپنا کردار آج بھی ادا کررہی ہیں۔ عالمی سطح پر ایک مدبّر کے طور پر سید محمد تقی پاکستان کا روشن حوالہ ہیں۔ وہ ایسے بیدار مغز، متجسس انسان تھے جو قدیم و جدید علوم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کے مطالعے کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔

2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور رہا ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا ان کے بھائی تھے۔

- Advertisement -

سیّد محمد تقی نے بھی علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا، صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ باذوق اور سنجیدہ قارئین نے بھی سراہا۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹال کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

کربلا تہذیب کا مستقبل، پاکستانی فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی کی آخری کتاب ہے جس کا مسودہ گم ہوگیا تھا اور کئی برس بعد دریافت ہونے پر اسے کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں