تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

کمرے میں داخل ہو کر بھول گئے کہ یہاں کیوں آئے تھے؟

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم فریج سے کوئی شے نکالنے کے لیے فریج کھولتے ہیں، لیکن جیسے ہی فریج کھلتا ہے اسی لمحے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں فریج سے کیا نکالنا تھا۔

یا ہم کسی دوست سے کوئی بات کہنے کے لیے اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، اور جیسے ہی وہ متوجہ ہوتا ہے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کیا بات کرنی تھی۔

اسی طرح کمرے سے کار کی چابی اٹھانے کے لیے کمرے میں داخل ہوئے، لیکن داخل ہوتے ہی بھول گئے کہ یہاں کیوں آئے تھے۔ ایسی صورتحال دن میں کئی بار ہر شخص کے ساتھ پیش آتی ہے، اور ہر بار یہ صورتحال شرمندگی اور الجھن میں مبتلا کردیتی ہے۔

لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آج ہم آپ کو اس کا جواب بتانے جارہے ہیں۔

یہ کیفیت ڈور وے افیکٹ کہلاتی ہے، یعنی دروازے سے گزرتے ہی آپ بھول جاتے ہیں کہ دروازہ کیوں کھولا گیا۔ دراصل یہ کیفیت ہماری توجہ کے ایک سے دوسری طرف منتقل ہونے اور آس پاس کسی شے کے بدلنے سے پیش آتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے دن بھر میں اپنے مقصد، اس کی حکمت عملی یا منصوبہ سازی اور اس کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ یہ ہماری سوچ کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں۔

جب ہماری توجہ کسی ایک سطح سے دوسری سطح پر منتقل ہوتی ہے تو یکدم ہمارا دماغ خالی سا ہوجاتا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں اب کیا کرنا ہے۔

مثال کے طور پر جب ہم کار کی چابی لینے کے لیے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ کار میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف جائیں۔ ایسے میں اس خیال سے بالکل الگ کام کرنا یعنی واپس کمرے میں جانا، دروازہ کھولنا اور چابی اٹھانا مختلف کام ہیں اور اس کام کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں دماغ لمحہ بھر کو تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔

اسی طرح آس پاس کا ماحول بھی ہمیں اپنے کام بھلا دیتا ہے۔ اسی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے یوں سمجھ لیں کہ جب ہم اپنی منزل کی طرف جانے لگتے ہیں تو ہمارا دماغ توقع کرتا ہے کہ اب ہم کار میں بیٹھیں گے اور سڑک پر سفر کریں گے، لیکن اس کے برعکس ہم کمرے میں داخل ہوتے ہیں، دروازہ کھولتے ہیں۔ یعنی کار اور سڑک کے بجائے ہمارے سامنے کمرہ اور دروازہ ہے۔ یہاں دماغ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے وقت لیتا ہے۔

گویا ہماری توجہ بڑے مقصد کی طرف ہوتی ہے اور اس کے لیے ہم چھوٹی چیز بھول جاتے ہیں، یا چھوٹی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے بڑی چیز بھول جاتے ہیں۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ٹرین ڈرائیور منزل پر پہنچنے کا مقصد ذہن میں لیے ٹرین چلائے لیکن جنکشن بدلنا بھول جائے، یا جنکشن بدلتے ہوئے ایک لمحے کے لیے یہ بھول جائے کہ اس کی منزل کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایک معمول کا عمل ہے جو تقریباً ہر شخص کے ساتھ پیش آتا ہے، اس کا یادداشت کی خرابی سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

Comments

- Advertisement -