ہفتہ, جنوری 25, 2025
اشتہار

کرتب ( افریقی ادب سے ایک کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

جوسیلڈو اپنی زندگی کی مشکلات کے حل کے لیے ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھتا۔ جس وقت کوئی مسافر اس کے پاس سے گزرتا یا گاڑی رکتی وہ گفتگو سننے کے لیے قریب ہو جاتا۔ ایسے ہی کسی لمحے میں اس نے اپنی بڑی بیٹی کے لیے کئی سپنے دیکھے۔

پورے ہفتے یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ ایک لڑکا اپنے جسم کو سانپ کی طرح بل دینے پر قادر ہے۔ وہ پورے ملک کا دورہ کرتا ہے اور ہر کوئی اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لڑکے نے بہت دولت کمائی ہے اور پیسوں سے صندوق بھر لیے ہیں۔ یہ سارا کچھ اس کے کرتبوں کے طفیل ہے۔ کرتب دکھانے والے کا ہر جگہ ذکر ہوتا اور گاڑی ڈرائیور اس کو مرچ مسالا لگا کے لوگوں کو سناتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ اس نے کس طرح اپنے جسم کو اپنے آپ سے باندھ لیا۔ اگر اسے کھولا نہ جاتا تو وہ اب بھی اسی حالت میں ہوتا۔

جوسیلڈو نے اپنی حیاتی اور بارہ بچوں کے بارے میں سوچا، ان بچوں کا مستقبل کیا ہے؟ پورے بارہ بچے۔ اس نے فیصلہ کر لیا فلومی کرتب دکھائے گی، سڑکوں اور راستوں پر اس کے اشتہار لگے ہوں گے۔ اس نے اپنی بیٹی کو حکم دیا “آج سے تم کرتب دکھانے کی مشق شروع کر دو، سر کو فرش سے لگانے کی مشق۔” لڑکی نے کرتب دکھانے شروع کر دیے، لیکن اس کی رفتار بہت سست تھی۔

- Advertisement -

جوسیلڈو کرتبوں اور مشقوں کے لیے ورکشاپ سے بڑے بڑے ڈرم لے آیا۔ رات کو اس کی کمر کو ڈرم سے باندھ دیا جاتا اور صبح کو اس پر گرم پانی پھینکا جاتا۔” یہ گرم پانی اس لیے ہے کہ تمہاری ہڈیاں نرم اور لچکدار ہو جائیں۔”

جس وقت لڑکی کو کھولا جاتا وہ پیچھے گر جاتی۔ اس کی خون کی گردش معمول پر نہ رہتی اور ہڈیاں چٹخ جاتیں۔ اس نے درد اور نیند کی شکایت کی۔ “تم قربانی کے بغیر کیسے امیر ہو سکتی ہو”؟ اس کا والد جواب دیتا۔ اس کا جسم درد سے چور چور ہو جاتا۔” ابا میرے جسم میں درد ہوتا ہے، مجھے سونے دو”۔

“نہیں بیٹی، جس وقت تم امیر ہو جاؤ گی، ہماری غربت دور ہو جائے گی، تم اپنی نیند خوب پوری کرنا۔” وقت گزرتا رہا، جوسیلڈو کرتب دکھانے والے کا منتظر رہا۔ وہ اپنے کان اینٹنے کی طرح کھلے رکھتا اور اس کی آنکھیں کسی خبر کی کھوج میں رہتیں۔ کرتب دکھانے والا پتہ نہیں کس دیس چلا گیا تھا۔

اب فلومی کی حالت بہت غیر ہوگئی تھی۔ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی اور اسے الٹیاں لگ گئیں۔ لگتا تھا اس کا اندر منہ کے راستے باہر آ جائے گا۔ پَر اس کا باپ کہتا ان کمزوریوں کی طرف دھیان نہ دو۔ کرتب دکھانے والے کو تمہیں اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ تمہیں کرتب دکھانے والی نظر آنا چاہیے، الٹیاں کرنے والی نہیں۔

جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس کے باپ کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں خبریں باہر سے آتیں۔ دنیا میں کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں وقت تھم جاتا ہے، یہ علاقہ بھی ایسا ہی تھا۔ ابھی تک وقت کے ہاتھ خالی تھے۔ ایک شام جوسیلڈو نے اس لکی اسٹار کی خبر سنی جو شہر میں شو کی تیاری کر رہا تھا، وہ دوڑا دوڑا گھر آیا اور اپنی بیوی کو کہنے لگا “فلومی کو نئے کپڑے پہناؤ”۔ اس کی بیوی پریشان ہو گئی اور پھر بولی “لڑکی کے پاس تو نئے کپڑے ہی نہیں ہیں”۔

“اپنا اسکارف اتار دو، فن کار سر نہیں ڈھانپتے، بیوی اس کے بال بھی درست کرو، میں ریل گاڑی کا ٹکٹ لے کے آتا ہوں۔”

“تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے۔”

“یہ پوچھنا تمہارا کام نہیں، عورت میرے سر پر سوار نہ ہوا کر۔”

کچھ دیر بعد وہ شہر روانہ ہو گئے۔ وہ گاڑی میں سوچ رہا تھا، پھل اتنے جلدی نہیں پکتے، گنے سے چینی بننے میں کچھ وقت لگتا ہے۔

پھر وہ گاڑی میں بیٹی کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا وہ کانپ رہی تھی۔ اس نے اس سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا۔ اس نے ٹھنڈ کی شکایت کی۔ “کون سی ٹھنڈ، کیسی سردی،؟” پھر اس نے ٹھنڈ کو تلاش کرنا شروع کر دیا جیسے اس کا بھی کوئی جسم ہو۔

“بیٹی گھبراؤ نہیں، کچھ دیر میں، یہاں گرمی ہو جائے گی”۔

لڑکی کی کپکپاہٹ اور بڑھ گئی۔ لگتا تھا جیسے وہ ٹرین سے زیادہ کانپ رہی ہو۔ اس کے باپ نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا۔” اپنی کپکپاہٹ کم کرو، نہیں تو میرا کوٹ ادھڑ جائے گا”۔

وہ شہر پہنچ گئے اور لکی اسٹار کی تلاش شروع کر دی۔ وہ گلی گلی پھرتے رہے۔

” اتنی گلیاں؟ “وہ لڑکی کو اپنے ساتھ کھینچ رہا تھا۔

“فلومی اٹھ کے کھڑی ہو جاؤ، وہ سمجھیں گے میں تمہیں اسپتال لے کے جا رہا ہوں۔”

آخر وہ اس گھر تک پہنچ گئے۔ انہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں انتظار کے لیے کہا گیا۔ فلومی کرسی پر سو گئی۔ جبکہ اس کا باپ پیسے کے خواب دیکھتا رہا۔ وہ انہیں شام کے وقت ملا۔ اس نے سیدھی بات کی،

” مجھے اس کی ضرورت نہیں “۔

“…مگر، جناب…۔ “

” میرا وقت نہ ضائع کریں، مجھے یہ نہیں چاہیے، اس طرح کے کرتب کا اب زمانہ نہیں رہا”۔

“مگر میری بیٹی دیکھیں تو سہی وہ اپنے سَر کو…”۔

“میں نے بتایا ہے کہ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ لڑکی بچاری بیمار ہے۔”

“یہ لڑکی نری ربڑ ہے، بس اسے سفر کی تھکان ہے۔”

” مجھے صرف ایک چیز میں دلچسپی ہے، مجھے وہ لڑکے چاہیں جن کے لوہے کے دانت ہوں جو لکڑی اور کیل کھا سکیں “۔

جوسیلڈو پریشان ہو گیا” میں یہ نہیں کر سکتا “۔

وہ وہاں سے نکل آئے جبکہ لکی اسٹار کرسی پر بیٹھا رہا۔

اس کے باپ کا دھیان لڑکی کی طرف گیا جو ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہی تھی۔

راستے میں جوسیلڈو اپنی قسمت کو برا بھلا کہتا رہا۔

” دانت، اب وہ دانت مانگتے ہیں “۔ فلومی اس کے ساتھ اپنے آپ کو گھسیٹ رہی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس کا باپ اب برف ہو رہا تھا۔ اس نے اسٹیشن کی طرف دیکھنا شروع کر دیا پر اس کی نظر بہت دور تک نہیں گئی۔ پھر اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے بیٹی کو پکڑا اور دیکھے بغیر پوچھا،” یہ بات ٹھیک ہے کہ تمہارے دانت بہت سخت ہیں تمہاری ماں یہی کہتی ہے؟” اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے لڑکی کو ہلایا تو وہ پوری کی پوری اس کے بازوؤں میں‌ آگئی۔

(مایا کوٹو (موزمبیق) کے اس افسانے کا ترجمہ حمید رازی نے کیا ہے)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں