نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

انھوں نے دیکھا، دانیال نے سوراخ سے سر نکال کر انھیں چیختے ہوئے پکارا تھا: ’’دیکھو، یہ برف کتنا نیلا ہے، اور یہاں صرف پتھر اور درختوں کے ٹکڑے ہیں، آ جاؤ تم دونوں بھی۔‘‘

’’اوہ دانی، تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی۔‘‘ فیونا نے مٹھیاں بھینج کر غصے سے کہا اور دانیال دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ فیونا اندر سے جانے سے جھجھک رہی تھی، بڑبڑا کر بولی کہ پتا نہیں اندر جانا ٹھیک ہوگا یا نہیں۔ جبران نے کہا: ’’ہم بھی اندر چلتے ہیں اگر کچھ پیش آتا ہے یا کوئی عجیب آواز سنائی دیتی ہے تو فوراً وہاں سے نکل آئیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ہم ایسا ہی کریں گے۔‘‘ فیونا نے کہا اور وہ دونوں بھی اندر داخل ہو گئے۔ اندر نیلی برف کا نظارا دیکھ کر ان دونوں کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جبران کے ہونٹ ہلنے لگے: ’’دانی، تم نے ٹھیک کہا تھا، یہ بہت زبردست ہے۔‘‘ پھر جبران نے وہاں موجود پتھروں اور درختوں کی شاخوں کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ گلیشیئر پہاڑوں سے پھسل کر نیچے آتے ہیں اور راہ میں آنے والی ہر شے کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اچانک فیونا بولنے لگی، اور اس کی آواز میں خوف تھا: ’’یہ تو بالکل غار جیسا ہے، ایک بہت بڑا غار۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ غار کا ہمارا تجربہ کبھی ٹھیک نہیں رہا ہے، چاہے وہ پتھر کا ہو یا برف کا، ہے تو غار ہی نا، اس لیے ہمیں یہاں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ لیکن دانیال اور جبران نے اس بار اس کی بات کو ان سنی کر دیا۔ جبران اکیلے ادھر ادھر مختلف کونوں اور دراڑوں میں گھس کر دیکھنے لگا، ایسے میں اس کی آنکھوں کے سامنے کوئی چیز چمکی۔
’’اوہ یہ کیا ہے؟‘‘ وہ اس چمک کے پیچھے جانے لگا لیکن پھر اس کے قدم رک گئے۔ سامنے برف کی شفاف دیوار تھی مگر برف کی اس دیوار پر ٹوٹنے جیسے بے شمار نشان نظر آ رہے تھے۔ جیسے اندر جمع شدہ پانی نے ٹکرا ٹکرا کر اسے توڑنے کی ناکام کوشش کی ہو۔ اس نے مڑ کر کہا: ’’دانی، فیونا، یہاں آ کر دیکھو، میرے خیال میں اس دیوار کے پیچھے ضرور کچھ ہے!‘‘
دانیال تو فوراً اس کی طرف دوڑ پڑا تاہم فیونا جھجھک رہی تھی، وہ اندھا دھند اس کی طرف نہیں جانا چاہ رہی تھی۔ اسے دانیال کی آواز سنائی دی، وہ کہہ رہا تھا: ’’اس میں کیا خاص بات ہے، میں نے ایک بار ایک کار کا حادثہ دیکھا تھا، اس کے وَنڈ اسکرین پر بھی اسی طرح مکڑی کے جالے کی طرح جال بن گیا تھا۔‘‘
اچانک فیونا نے کہا: ’’تم دونوں نے محسوس کیا، یہاں زیادہ سردی نہیں ہے، یہ جگہ گرم سی کیوں ہے؟‘‘ لیکن جبران نے اس کی بات نظر انداز کر دی اور اپنی بات دہرائی: ’’میں نے یہاں کسی چیز کو چمکتے دیکھا تھا، یہاں کچھ ہے۔‘‘
فیونا بولی کہ شاید برف کی یہ دیوار آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہے، اور چوں کہ یہاں سے پانی نکل چکا ہے اس لیے اب یہ جگہ زیادہ ٹھنڈی بھی نہیں رہی ہے۔ اس نے برف کی دیوار کو انگلی سے چھو کر دیکھا۔ دانیال نے ہاتھ سے دباؤ ڈالنے کے لیے کہا، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ دیوار ٹوٹے گی یا نہیں۔ فیونا نے بھی بغیر سوچے سمجھے دونوں ہتھیلیاں برف کی دیوار پر ٹکا کر زور سے دھکا دے دیا۔ اسے ایک جھٹکا لگا اور وہ بے اختیار اچھل کر پیچھے ہٹ گئی کیوں کہ برف کی دیوار یکایک ٹوٹ گئی تھی، اور برف کے چھوٹے چھوٹے ہزاروں ٹکڑے گر کر بکھر گئے۔ وہ چند لمحے برف کی ٹوٹی دیوار کی طرف دیکھتی رہی، پھر قدم اٹھا کر اندر چلی گئی۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ اندر برف کی چھت سے برف کی بڑی بڑی نوکیلی قلمیں لٹک رہی تھیں جو ہلکے زرد رنگ کی تھیں لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ایک دوسرے سے مختلف رنگ ہوں۔
تینوں حیرت سے برف کے اندر اس جہانِ حیرت کو دیکھنے لگے۔
(جاری ہے….)

Comments