تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

زاویۂ نظر: فکرِ اقبالؔ کا محور مذہب، فیضؔ کا تہذیب رہا

فیض احمد فیضؔ، اقبالؔ سے چونتیس سال بعد پیدا ہوئے۔ دونوں سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔

فرق یہ ہے کہ اقبال شہر میں پیدا ہوئے اور فیض سیالکوٹ کے ایک موضع کالا قادر میں۔

دونوں نے میر حسنؔ سے تعلیم پائی، دونوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ اقبالؔ نے فلسفے میں اور فیضؔ نے پہلے انگریزی میں پھر عربی میں۔ دونوں کی فارسی تعلیم نہیں ہوئی، اپنی ذاتی کوششوں سے انہوں نے فارسی زبان و ادب پر دسترس حاصل کی۔

دونوں نے شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھی، گو دونوں کی نثر کی خوبی شاعری کی شہرت اور عظمت کے مقابلے میں کم رہی۔ دونوں کو انگریزی زبان پر خاصا عبور تھا۔ اقبالؔ کی انگریزی نثر کی ایڈورڈ ٹامسن نے تعریف کی ہے۔ فیض کے پاکستان ٹائمس کے اداریے بھی زبان و بیان کی خوبیوں کی وجہ سے خاصے مقبول ہوئے۔

فیضؔ کے والد اقبالؔ کے دوستوں میں تھے۔ اقبالؔ کی سفارش پر ہی انہیں گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملا۔ فیضؔ نے اقبالؔ پر دو مضمون لکھے جو ’’میزان‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر اقبالؔ سے ملاقاتوں اور ان کے تاثرات کا ذکر کیا ہے۔

اقبالؔ کی فکر کا محور مذہب تھا، فیضؔ کی فکر کا محور تہذیب۔ بظاہر اقبالؔ اور فیضؔ کے راستے الگ الگ نظر آتے ہیں، مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

اقبالؔ پر بعض حلقوں میں اعتراضات بھی ہوئے ہیں، مگر فیضؔ نے کسی وقت اور کسی موقع پر اقبالؔ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ ان کی عظمت کے قائل تھے اور جا بجا انہوں نے اقبالؔ کے فن کی بلندی کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا ایک اچھا نمونہ اقبالؔ پر ان کی نظم میں اس طرح ملتا ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے:

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پَر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا

اب دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پَر اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کے لَے سے سیکڑوں لذّت شناس ہیں
اُس گیت کے تمام محاسن ہیں لا زوال
اُس کا وفور، اُس کا خروش، اُس کا سوز و ساز
یہ گیت مثلِ شعلۂ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
جیسے چراغ وحشتِ صرصر سے بے خطر
یا شمعِ بزم صبح کی آمد سے بے خبر

(اردو کے سربَرآوردہ نقّاد، مضمون نگار اور شاعر آل احمد سرور کے مضمون "اقبالؔ اور فیضؔ” سے اقتباسات)

Comments

- Advertisement -