تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

مشرقی تہذیب میں میزبانی کی روایت!

میزبان اُس حواس باختہ انسان کو کہتے ہیں جو عموماً اپنے سے بڑے یا اہم آدمی کو کسی خاص موقع پر شرفِ میزبانی بخشنے کے بہانے گھر بھر کو مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کرانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

اس کے ساتھ گھر والوں کی وہی حالت ہوتی ہے جو گیہوں کے ساتھ گھن کی ہوا کرتی ہے۔ گھر بھر میزبانی کی چکّی میں پس کر اچھا خاصا گھن چکر بن جاتا ہے۔

علمُ الانسان کے ماہرین نے میزبان کی تشریح یوں کی ہے، ’’دورِ جدید کا ایسا انسان جس کے ایک ہاتھ میں جھاڑن، دوسرے میں جھاڑو ہوتی ہے۔ اسے دوسروں کی صفائی پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس لیے صفائی کے بعد وہ خود بھی جھاڑ پونچھ کرتا ہے کہ دروازے، کھڑکیاں ٹھیک سے صاف ہیں؟ کہیں جالا تو باقی نہیں۔ کسی صوفے یا کرسی پر گرد تو نہیں۔ اس سلسلے میں وہ مہتر سے باورچی تک کے فرائض ادا کرتا ہے۔ عموماً اس قسم کا انسان شہروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

میزبان کا آغاز مہمانی سے ہوتا ہے۔ میزبان پر مہمان اسی طرح نازل ہوتے ہیں جیسے گنہ گاروں پر عذاب۔ کسی مہمان نے میزبان کے لیے کیا پھڑکتا ہوا مصرعہ کہا ہے، ہمارے بھی ہیں میزباں کیسے کیسے

مشرقی تہذیب میں میزبانی اب سے پچاس سال پہلے تک خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی، جس کا فن یہ تھا کہ پیٹ بھروں کو کھلایا جائے اور مربھکوں کو مار مار کر ہنکا دیا جائے۔ یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔

میں بنیادی طور پر میزبان ہونے کے مقابلے میں مہمان ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ نہ تو میں مہمان ہوتے ہی اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ’’گرم پانی سے غسل میری کمزوری ہے۔‘‘ نہ یہ کہتا ہوں کہ’’میں چائے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ پیتا ہوں جس میں کم از کم پاؤ بھر بالائی ہو جس کو معتدل بنانے کے لیے اس میں آدھ پاؤ پستہ اور بادام پیس کر ملا دیا جائے اور محض دو انڈے توڑ کر ان کی زردی ڈال دی جائے۔‘‘ نہ میں میزبان پر انکشاف کرتا ہوں کہ اصلی گھی میری کمزوری ہے۔ ڈالڈا گلا پکڑ لیتا ہے۔ گوشت میں کہاں کھاتا ہوں، اس لیے جانور بٹیر سے چھوٹا نہ ہو اور مرغ سے بڑا نہ ہو۔ یوں میں بھی مرغ پر تیتر کو ترجیح دیتا ہوں۔ نہ میں جاتے ہی میزبان کو پان کا ڈبہ تھماتے ہوئے فرمائش کرتا ہوں، ’’بھئی اس میں پان، چھالیہ، زردہ، قوام، الائچی وغیرہ بھروا دو۔

میں تو بس جاتے ہی کہہ دیتا ہوں کہ بھئی تکلف کی ضرورت نہیں۔ گھر میں جو سبزی، دال، بھات، روٹی ہو وہی کھلا دو۔ اہتمام سے تکلف اور غیریت کی بُو آتی ہے۔‘‘

مجھے جہاں بھی جانا ہوتا ہے بس ذرا بن سنور کر تیار ہو کر جاتا ہوں۔ میزبان نے جو وقت دیا ہے اس سے دو یا ڈھائی گھنٹہ بعد ٹھاٹھ سے پہنچتا ہوں۔ نہ مہمان دار کو شرمندگی کہ ابھی تو اس نے نہ کوئی تیاری کی تھی، نہ کوئی صاحب تشریف لائے۔

پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ میزبان جو بے صبری سے منتظرتھا کہ موصوف تشریف لائیں تو چرندم خورندم کا خوش گوار سلسلہ شروع کیا جائے وہ بھی خوش ہوگیا جس کا مفید نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاطر مدارات کا سلسلہ واپسی تک جاری رہتا ہے۔

(ہندوستان کے معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -