شکوک کے تمام مراحل بخوشی طے کیے شمع یوں مطمئن اور سرشار بیٹھی تھیں گویا کسی بہت ہی اہم فریضے سے سبک دوش ہو گئی ہوں، مگر ایسا ہرگز نہیں تھا۔
اس سکون کے اندر ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُنھیں اکسا رہا تھا اُس کارروائی کے لیے جس کا آغاز ان کی بدگمانی کی صورت میں ہو چکا تھا اور اب شمع سانپ کی طرح پھن پھیلائے اپنے شکار کو ڈسنے کی تیاری کر رہی تھیں جس نے اُن کا جینا عذاب کر رکھا تھا۔
شمع کی عادت تھی کہ جب بھی کسی سے انتقام لینے کا تہیہ کر لیتیں پہلے اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتیں اور پھر نگاہ کے تازیانے سے گھائل کر کے لسانی حربہ استعمال کرتیں۔ اُن کی حتّی الامکان کوشش یہی ہوتی کہ اپنے بے بنیاد شک کو یقین کی سرحد پر لاکھڑا کریں اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وہ اپنی اس کاوش میں کام یاب بھی ہو جاتیں۔کیسے؟ یہ جاننے کی خواہش تو مجھے بھی بہت شدت سے تھی مگر چونکہ میں اُن کی زبان درازی سے خائف بلکہ تائب بھی تھی اس لیے میرا تجسّس اپنی موت آپ مرجاتا۔ کئی بار میرے دل سے آواز آئی، دماغ نے دہائی دی کہ تم بہت بزدل ہو مگر میں ہر بار نفی میں گردن ہلا دیتی…. نہیں ایسا ہرگز نہیں، پھر کیا بات ہے؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتی بلکہ لڑتی بھی تھی کہ اگر یہ کم ہمّتی نہیں تو اور کیا ہے؟ شاید یہ اپنی عزت کی پاس داری ہے۔
چند اچھے لفظوں کا سہارا لے کر گویا میں خود کو محفوظ کر لیتی لیکن یہی تو میری بھول تھی۔ اُن کی نظر کا ایک صر ف ایک تیر میرے حوصلے پست کر کے مجھے عدم تحفظ کا احساس دلا دیتا تب میں بے بسی سے ہاتھ مل کے رہ جاتی۔ حتیٰ کہ اس ضمن میں میری سوچ بچار بھی لاحاصل ہوتی۔ پھر یوں ہُوا کہ میں نے اُن کے بارے میں سوچنا ہی ترک کر دیا کہ نہ اُن کا خیال آئے گا نہ ہی تکرار کا یہ لامتناہی سلسلہ مجھے اپنی گرفت میں لے کر پریشان کرے گا۔ جب کوئی تعلق ہی نہیں تو پھر وہ کیسے مجھے اپنا ہدف بنائیں گی؟ دل کو تسلی دے کر اپنے تئیں میں مطمئن ہو گئی تھی مگر یہی تو میری خام خیالی تھی۔
میں جو اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ میرا اُن سے کوئی واسطہ نہیں۔ نہیں جانتی تھی کہ میری بے خبری میں اُنہوں نے تیر چلایا تھا اور مجھ سے اپنے تعلق کی ڈور بہت مضبوط کر لی تھی۔ مگر کب اور کیسے؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ اپنے سوال کا جواب تو مجھے نہ مل سکا ہاں یہ انکشاف ضرور ہو گیا کہ شمع نے مجھ سے وہ ناتا جوڑ لیا جو بے اطمینانی کی فضا میں سانس لیتا ہے اور رفتہ رفتہ انتقام کی آگ میں جل کر ایک دن شعلہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے۔ جی ہاں اُنہوں نے مجھ سے حسد کا رشتہ استوار کر لیا تھا۔ مگر کیوں؟
تحقیق کرنے پر معلوم ہُوا کہ میرا اطمینان اُن کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتا ہے، میری درگزر کی عادت انہیں پسند نہیں اور میں جو سمجھوتہ کرنے کی عادی ہوں اور اس وجہ سے نہ صرف خود پُرسکون رہتی ہوں بلکہ اوروں کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیتی، انجانے میں اپنی اس عادت کی وجہ سے اُن کے لیے باعثِ تشویش بن گئی۔ کچھ اس طور کہ مجھ سے حسد کے عارضے میں مبتلا ہو کر انہوں نے مجھے اپنا شکار بنا لیا۔ اب وہ کسی بھی وقت اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر خود تو سکھ چین کا سانس لیں گی لیکن میرا تمام سکھ چین اپنی منتقم مزاجی کی نذر کر دیں گی۔
اس خیال ہی نے میری نیندیں اُڑا دی تھیں۔ چونکہ میں اس امر سے بخوبی واقف تھی کہ شمع اپنے انتقام کی آگ میں لوگوں کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہیں اور اب تو شاید میری راکھ بھی کسی کو نہ ملے۔ اس سے پہلے کہ میرے حواس معطل ہوجاتے ایک نکتہ اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوا کہ ”اگر میں اُن کی سوچ کا رخ موڑ دوں تو؟ شاید اس طرح نہ صرف میرا بلکہ میرے طفیل بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔“ مگر کسی کے مزاج کی تبدیلی کوئی آسان بات نہیں۔ اپنے ہی خیال کی تردید کر کے میں نے بے بسی سے سر تھام لیا، لیکن یوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے بات نہیں بنے گی، وہ بھی اس صورت میں جب کئی بار میں خود کو یقین دلا چکی ہوں کہ میں بزدل نہیں، اگر یہ بزدلی نہیں تو اور کیا ہے؟ قدرے جھنجھلا کر میں نے اپنے آپ کو سرزنش کی۔
اور پھر ہُوا یہ کہ جو کام ہفتوں بہت غور و فکر کے بعد بھی میں نہ کر پائی تھی وہ محض ایک پَل میں ہو گیا اور اگلی ہی ساعت میں حیرت انگیز مسرت اور نم آنکھوں سے شمع کو دیکھے گئی کہ اُن کے مزاج میں یہ تبدیلی آئی کیسے؟ ”اب تم گٹھلیاں کھانے نہ بیٹھ جاؤ بس آم سے لُطف اندوز ہو۔“ میرے دل نے مجھے بے نیازی کی ایک نئی راہ دکھائی تو میں بھی اس راہ پر چل نکلی مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ بیشک
تقدیر بدلتی ہے دعاؤں کے اثر سے
بظاہر بات بہت معمولی سی تھی لیکن یہی شمع کے ستم گزیدوں کے لیے وجہِ رحمت بن گئی۔ نیلو کے گھر ہونے والی ون ڈش پارٹی میں شمع سرخ ٹیشو کی بھڑک دار ساڑھی باندھ کر گئی تھیں، اُنہیں دیکھ کر رانی کی دیورانی رفیعہ تمسخر سے مسکرائیں تب شمع نے حسبِ عادت اُن پر مشکوک نظر ڈالی تو اُنہیں بھی اپنی جانب متوجہ پایا اب عالم یہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے پر مشکوک نگاہی کے تیر برسا رہی تھیں۔ رانی کی ساس تو پہلے ہی چھوٹی بہو کو حرفوں کی بنی کہتی ہیں اور اس گھڑی تو واقعی اُن کی رائے درست ثابت ہو گئی جب اُن کی حرافہ بہو نے سرِ محفل ایک مستند اور ماہر منتقم مزاج کے انتقام کی آگ سرد کر دی۔ محض ا تنا کہہ کر کہ ”بہن ایسی آگ برساتی کینہ توز، انتقامی اور مشکوک نظروں کی مار مجھے نہ مارو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ برق تم پر گر کے تمہیں راکھ ہی نہ کر ڈالے کہ مجھے لوگوں کا کچا چٹھا کھولنے میں مہارت ہے اور میں…“ ابھی رفیعہ کی بات نامکمل ہی تھی کہ شمع نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑ کر ملتجی نظروں سے اُنہیں دیکھا تو وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔ جاتے جاتے شمع کا دف بھی مار گئیں کیونکہ اس روز تمام اہلِ محفل کے لیے یہ بہت حیرت انگیز بات تھی کہ شمع کی آنکھوں سے شک اور انتقام کی چنگاریاں ایک مرتبہ بھی نہیں پھوٹی تھیں۔
بس اسی دن سے شمع کے انتقام کی آگ سرد پڑ گئی اور اُن کے شک سے مزین رویے اب اُن کے احباب کی اذیت کا باعث بھی نہیں بنتے۔ یہ خوش آئند بات سہی لیکن مجھ سمیت کئی لوگ جاننا چاہتے تھے کہ آخر وہ کون سی بات تھی جس نے شمع کو یوں بدل کر رکھ دیا تھا اور اس کا سراغ کوئی لگا ہی نہیں پا رہا تھا۔ شومئی قسمت کہ ایک روز سرِ راہ رفیعہ سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے اُن ہی سے معلوم کیا کہ اُس روز نیلو کے گھر آپ نے شمع سے کیا کہا تھا کہ اُن کی بولتی بند کر کے کئی خواتین کی عزّت محفوظ کر لی۔“ رفیعہ نے بے ساختہ قہقہے برساتے ہوئے اطلاع دی کہ شمع کی ایک کمزوری میرے ہاتھ لگ گئی تھی بس اسی سے میں نے فائدہ اٹھا لیا۔ ایک ملاقات میں شمع کے منہ سے نکل گیا کہ ”رشک، حسد اور انتقام کی آگ میں جلتے رہنے کی عادت کی وجہ سے اب اکثر میری ہانڈی جل جاتی ہے جس کے نتیجے میں مجھے اپنے میاں کی جلی کٹی سُننی پڑتی ہیں اور آج تو اُنہوں نے صاف کہ دیا ہے کہ اگر اب مجھے جلی ہانڈی ملی تو تمہارے حق میں بہتر نہ ہوگا، ایسا نہ ہو کہ جلی ہانڈی کھلانے کے نتیجے میں تمہیں ہجر کی آگ میں جلنا پڑے۔“ یہی وہ ہتھیار تھا جو میں نے شمع پر آزمایا تھا۔ چوٹ بھی تازہ تھی اسی لیے اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے، کیونکہ شمع کی زبانی یہی سنتے تھے نا کہ اُن کے میاں اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، اور اُنہوں نے معدے کی راہ سے اُن کے دل میں اس طرح جگہ بنائی ہے کہ اب اور کسی خاتون کا کوئی بھی نسوانی حربہ اُن کے میاں جی کو زیر نہ کر سکے گا، اور یوں بھی طبعاً وہ بہت قانع ہیں، خاص کر کھانے کے معاملے میں کوئی نخرہ نہیں، جیسا کھلا دو ہنسی خوشی بغیر کہے سنے کھالیں گے۔“
قصہ مختصر شمع کو خدشہ تھا کہ میں جو کہتی ہوں کرنے میں وقت بھی نہیں لگاتی۔ اور اگر اُن کے کہے الفاظ دہرا کر اپنا ہنر اُن پر آزما لیتی تو سرِ بزم اُن کی جو بھد اُڑتی تو وہ کبھی فخر سے سر نہ اُٹھا سکیں گی۔
رفیعہ کی بات سن کر میں بے اختیار ہنستی چلی گئی۔ جی نہیں قارئین میں باؤلی ہرگز نہیں ہوئی تھی۔ میری ہنسی کا سبب تو صرف یہ تھا کہ میری جس عادت سے حسد کی بنا پر خاتون مجھے انتقام کا نشانہ بنانا چاہ رہی تھیں اب وہی عادت اُنہیں جبراً اختیار کرنی پڑ رہی تھی۔ درست سمجھے آپ قارئین! شمع نے اپنی ایک بھول کی سزا سمجھوتے کی صورت جھیلی تھی مگر مجھے اس خوف سے نجات دلا دی تھی جو تلوار کی طرح ہر دم میرے سر پر لٹکا رہتا تھا کہ جانے کب اور کیسے میرے سمجھوتے کی عادت سے حسد کی بنا پر خاتون بھری محفل میں میری تذلیل کر دیں گی۔ اب تو خود ہر پل اُن کے سَر پر سمجھوتے کی تلوار لٹکی رہتی ہے کیونکہ یہ تو وہ جانتی ہی ہیں کہ اگر شمع سیر ہیں تو رفیعہ سوا سیر۔ اور اُن کا یہی بھاری پلڑا اب شمع کو ہاتھ ہلکا رکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔

Comments