اردو کے نام ور مرثیہ گو شاعر مرزا سلامت علی دبیر بہت حلیم الطبع، منکسر مزاج اور صلح کل انسان تھے اور یہ ان کی شخضیت کے وہ پہلو تھے جن کا اعتراف ان کے حامیوں اور مخالفوں سب کو تھا۔
انیسؔ کی طبیعت میں ایک بانکپن اور اشتعال پزیری تھی اور ان کی آن بان اور نازک مزاجی مشہور تھی۔
مزاجوں کا یہ فرق اپنی مخالف جماعت والوں کے ساتھ دونوں استادوں کے سلوک میں بھی نمایاں تھا۔ دبیر کا ایک واقعہ اس طرح ملتا ہے۔
ایک سید صاحب کو کربلائے معلیٰ جانے کے لیے دو سو روپے درکار تھے۔
انھوں نے دبیر سے درخواست کی کہ وہ ایک رئیس سے سفارش کرکے جو انیس سے خصوصیت رکھتے تھے انھیں مطلوبہ رقم دلوا دیں۔
دبیر نے انھیں ساتھ لیا اور رئیس کے یہاں جاکر سفارش کی۔ رئیس نے دو سو کے بہ جائے چار سو روپے سید کو دیے اور کہا، ”میر صاحب! یہ دو سو روپے تو آپ کے مطلوبہ ہیں اور دو سو روپے اس شکریے میں نذرِ سادات کرتا ہوں کہ مرزا صاحب قبلہ کفش خانے پر تشریف لائے۔“
(ڈاکٹر نیّر مسعود کی کتاب معرکہ انیس و دبیر سے)