تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

بھارت: اردو دشمنی میں بڑے شاعر کے مزار کی بے حرمتی

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

یہ شعر شیخ محمد ابراہیم کا ہے جن کا تخلّص ذوق تھا۔ وہ ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد بھی تھے۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب سے ذوق کی رقابت بھی مشہور ہے۔ ملکُ الشعرا، طوطیِ ہند اور خاقانی ہند کے خطابات سے نوازے گئے ذوق اپنے زمانے کے اہم شاعروں میں سے ایک ہیں جن کو سودا کے بعد اردو کا دوسرا بڑا قصیدہ نگار بھی مانا جاتا ہے، لیکن بھارت میں‌ ذوق جیسے شاعر کی آخری آرام گاہ بھی اردو دشمنی اور مسلمانوں‌ سے تعصب کی نذر ہورہی ہے۔

16 نومبر 1854ء کو وفات پانے والے ابراہیم ذوق کا مقبرہ دہلی میں‌ ہے جس کے احاطے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر بلدیہ نے بیتُ الخلا تعمیر کر دیا تھا۔ علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور سنجیدہ و باشعور حلقوں کے توجّہ دلانے پر بیتُ الخلا منہدم کرکے مقبرہ مقفل کردیا گیا اور بعد میں اس آخری آرام گاہ کا احاطہ مغل شہنشاہ کے استاد اور اردو کے مشہور شاعر کی یادگار کے طور آثارِ قدیمہ کے قبضے میں چلا گیا، مگر شاذ ہی اسے غیر قفل دیکھا گیا ہے۔

شیخ محمد ابراہیم ذوق کی قبر پر جانے والے کسی زمانے میں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک پہاڑ گنج سے متصل قبرستان تک پہنچا کرتے تھے اور گلیوں سے ہو کر مزار تک پہنچ جاتے تھے۔ اب پرانی رہائش گاہیں ہوں یا مدفن، اکثر کا نشاں تک باقی نہیں رہا۔ اس علاقے میں تعمیرات تجاوزات میں بدل چکی ہیں اور گلیاں تنگ ہیں۔ اسی قبرستان سے اب چینوٹ بستی کی طرف جائیں تو تنگ گلیوں سے نکلتے ہوئے ذوق کے مزار تک پہنچا جاسکتا ہے۔

اس مزار کا داخلی دروازہ عام طور پر مقفل رہتا ہے۔ سرخ بوسیدہ دیوار کے احاطے میں ذوق کا مزار اب محفوظ ہے، لیکن یہاں‌ بیتُ الخلا کی تعمیر اور اب بھی مزار کی دیکھ بھال کی طرف سے غفلت اور بے نیازی ان لوگوں‌ کے لیے ان کے لیے باعثِ تکلیف ہے جو اب سرحد کے دونوں جانب بٹے ہوئے ہیں، لیکن مشاہیرِ ادب کی یوں بے توقیری اور ان کی مدفن کی طرف سے ایسی بے نیازی سبھی کے لیے باعثِ رنج و دل آزار ہے۔

غالب اکیڈمی کے سیکریٹری محمد عقیل کا اس بارے میں کہنا ہے کہ 1920ء سے قبل ذوق کا مزار اچانک لوگوں کے ذہن سے اتر گیا۔ اس عہد میں حکیم اجمل خان اور دہلی کے چند لوگوں نے مزارِ ذوق کے احاطے کی مرمت کرائی۔

1947ء کے فسادات میں ذوق کے مزار کا کتبہ غائب ہوگیا۔ اس کے بعد مزار پر کسی نے توجہ نہیں کی۔ 1950ء میں مولانا حفظ الرّحمان دہلی وقف بورڈ کے ناظر تھے۔ ذوق کے مزار کی مرمت اور بحالی کی پھر کوشش ہوئی۔ ان کے مطابق کچھ دہائیوں پہلے (60 کی دہائی میں) غضب ہوگیا جب بلدیہ نے ان کے مزار پر بیتُ الخلا تعمیر کر دیا۔

اسے منہدم کرانے کی کوششیں چار دہائیوں تک جاری رہیں۔ بات اندرا گاندھی تک پہنچی۔ خطوط اور احتجاجی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑی بڑی شخصیات نے کوششیں کیں مگر بلدیہ کے فرقہ پرست عہدے داروں سے جیتنا اتنا آسان ثابت نہیں ہوا۔ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں پہنچا اور پھر 1998ء میں ذوق کے مزار کی بحالی کا فیصلہ آیا۔ اور آثارِ قدیمہ نے غالب کے مزار کی طرح ذوق کے مزار کی نگرانی کی ذمہ داری لے لی، لیکن یہ ذمہ داری مقبرے کو مقفل رکھ کر نبھائی جا رہی ہے۔

مقامی لوگوں کو بھی ذوق کے بارے میں زیادہ پتا نہیں ہے۔ زیادہ تر افراد روزگار کی وجہ سے ان حصّوں میں آباد ہیں۔ مزار کے سامنے کارخانے کے مکین نے بتایا کہ ان کی کھڑکی سے ذوق کا مزار نظر آتا ہے۔ یہ زیادہ تر بند رہتا ہے اور کبھی کبھی کھلتا ہے۔

شیخ عقیل بتاتے ہیں کہ ذوق کے مزار سے کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر غالب کا مزار ہے، جو عام زائرین کے لیے کھلا رہتا ہے۔ یہاں تھوڑی رونق بھی رہتی ہے۔ اس معاملہ میں غالب زیادہ خوش قسمت ثابت ہیں۔

Comments

- Advertisement -