تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

شہزادہ تاجُ الملوک اور گلِ بکاؤلی

ایک بادشاہ زینُ الملوک کے پانچویں بیٹے کی پیدائش سے پہلے نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔

بہرحال، بچے کا نام تاج الملوک رکھا جاتا ہے۔ ادھر طبیب بادشاہ کا اندھا پن کو دور کرنے کے لیے ایک پھول تجویز کرتے ہیں جسے گُلِ بکاؤلی کہتے تھے۔ وہ پھول پریوں کی شہزادی کے باغ میں مل سکتا تھا۔

کہانی کے مطابق بعد میں یہی نوجوان شہزادہ تاج الملوک گل بکاؤلی حاصل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور اس کے لیے پریوں کی شہزادی جس کا نام بکاؤلی ہے، کے باغ میں داخل ہو جاتا ہے۔ شہزادہ وہاں سے یہ پھول چُرا لیتا ہے۔

ادھر بکاؤلی اپنے پھول کی تلاش میں نکلتی ہے اور شہزادے تک پہنچ جاتی ہے جس نے دراصل اس کے باغ میں گھس کر چوری کی تھی، لیکن شہزادے پر پہلی ہی نظر ڈالتے ہی وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔

کہانی آگے بڑھتی ہے جس میں بکاؤلی کی ماں اپنی بیٹی کو ایک آدم زاد کے ساتھ پاکر غضب ناک ہو جاتی ہے اور شہزادے کو زیرِ زمین قید کر دیتی ہے، لیکن اس کی ایک وفادار اس آدم زاد سے متعلق غلط فہمی دور کردیتی ہے اور آخر میں تاج الملوک اور بکاؤلی کی شادی ہو جاتی ہے۔

یہ تحیر آمیز اور دل چسپ قصہ منثور نہیں بلکہ منظوم ہے۔ اس کلام کو ‘‘مثنوی’’ کہا جاتا ہے، یعنی ایک طویل نظم جس میں کوئی قصّہ یا کسی واقعے کو بیان کیا جاتا ہے۔

یہ چند سطری خلاصہ دیا شنکر نسیمؔ کی مشہور مثنوی کا ہے۔

ان کا تعلق کشمیری خاندان سے تھا۔ 1811 میں پیدا ہونے والے دیا شنکر کے استاد خواجہ حیدر علی آتش تھے۔ 1845 میں اس مشہور مثنوی کے خالق دنیا سے رخصت ہوگئے۔

Comments

- Advertisement -