اشتہار

اردو غزل کا محبوب

اشتہار

حیرت انگیز

بیسویں صدی میں اردو غزل کا محبوب ایک بالکل نئے روپ میں منظرِ عام پر آتا ہے۔ یہ نیا روپ ایک ایسے نئے معاشرے، ایک ایسی نئی ‏تہذیب کا پرتو ہے جو بیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی برق رفتاری سے پھیلنے لگی ہے۔

اب نہ صرف جمہوریت اور حبُّ الوطنی کے ایک ‏مضبوط تصوّر نے بادشاہت کے تصوّر کی جگہ لے لی ہے بلکہ عورت بھی صدیوں کی گہری نیند سے گویا بیدار ہوگئی ہے اور اس کے انداز ‏و اطوار سے خود داری اور وقار مترشح ہو رہا ہے۔ چنانچہ نئی صدی میں طوائف سوسائٹی کا مرکز نہیں رہی اور اردو غزل کے محبوب میں ایک ‏عورت کا پرتو صاف دکھائی دینے لگا ہے۔

حسرتؔ کے کلام میں اس نئی عورت کے وجود کا احساس ہوتا ہے اور ان کے بعد دوسرے غزل ‏گو شعرا کے ہاں تو اس نئے رجحان نے ایک واضح اور قطعی صورت اختیار کرلی ہے۔ ‏

- Advertisement -

یہ نئی عورت حرم کی چار دیواری کے اندر رہنے والی ایک روایتی ’گونگی‘، ’اندھی‘ اور’بہری‘ عورت نہیں۔ اس کے برعکس اس عورت کو نہ ‏صرف احساسِ حسن ہے بلکہ وہ زندگی کی دوڑ میں بھی خود کو مرد کا ہم پلّہ سمجھتی ہے اور زندگی کی مسرتوں میں خود کو برابر کا حصہ دار قرار ‏دیتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ بھی ہے اور طرّار بھی۔ اس میں محبت کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور اس نے نئی روشنی کے تحت نئے رجحانات کو ‏قبول بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اردوغزل نے اس نئی صورت حال اور اس نئی عورت سے واضح اثرات قبول کیے ہیں اور اس کے محبوب ‏میں نئی عورت کے بہت سے میلانات سمٹ آئے ہیں۔ ‏

نئی عورت کی ذہنی بلندی، نزاکت اور شعریت کے پیشِ نظر غزل گو شاعر کو اظہارِ عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ‏ایک ایسا پیرایۂ بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے۔ اس سے بیشتر اوقات شاعر کے جذبات محبت میں ‏عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود شاعر کے ہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ دوسرے ‏لفظوں میں غزل گو شاعر کے ہاں جذبے اور فکر کا ایک خوش گوار امتزاج رونما ہوا ہے، جس کے باعث جذباتِ محبت میں ضبط، توازن اور ‏رفعت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چند اشعار قابل غور ہیں۔ ‏

اک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی
اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے ‏
فراقؔ

کبھی تم یاد آتے ہو کبھی دل یاد آتا ہے ‏
ہر اک بھولا ہوا منزل بہ منزل یاد آتا ہے ‏
حفیظؔ ہوشیار پوری

حسن پابندِ رضا ہو مجھے منظور نہیں ‏
میں کہوں تم مجھے چاہو مجھے منظور نہیں ‏
حفیظ جالندھری

خیر ہو تیری کم نگاہی کی
ہم کبھی بے نیازِ غم نہ ہوئے ‏
باقیؔ صدیقی

اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں ‏
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں ‏
فیضؔ

جذباتِ محبّت کے اظہار میں یہ سمٹا سمٹا سا انداز اس بات پر دال ہے کہ شاعر بتدریج محبت کے ایک محدود ماحول سے اوپر اٹھ کر عشق کی ‏ارفع اور وسیع تر فضا میں سانس لینے لگا ہے اوراس کے ہاں ایک گہری لگن اور کسک سطح کے نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے دو ضمنی نتائج بھی ‏برآمد ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض غزل گو شعرا کے ہاں محبوب ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کی منزل نہیں رہا، کیوں کہ محبوب سے قرب ‏کے باوصف شاعر کی ذہنی تشنگی بدستور قائم ہے۔ اس سے غزل میں محبوب کی مرکزی حیثیت کو ایک صدمہ پہنچا ہے۔ دوسروں کے ہاں ‏محبوب نے واضح طور پر ایک نصب العین یا آئیڈیل کا روپ دھار لیا ہے اور انہوں نے اپنے مسلک کے اظہار میں محبوب کو محض روایتاً ‏مخاطب کیا ہے۔ یہ چند اشعار ان نئے رجحانات کی غمازی کرتے ہیں۔

تیرا کرم کرم ہے مگراس کا کیا علاج
ہم نامراد خاک بسر مطمئن نہیں ‏
احسان دانشؔ

مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
معاملاتِ من و تو نکل ہی آتے ہیں ‏
تاثیرؔ

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے ‏
فیضؔ

خبر نہ تھی کہ غمِ یار جس کو سمجھے تھے ‏
اسی کا روپ غمِ روزگار ٹھہرے گا
عابدؔ

آپ اسے جو چاہیں کہہ لیں عشق کبھی کہتے تھے لوگ
ہم سے دل کی بات جو اب پوچھو تو ایک کسک تک ہے ‏
قیوم نظرؔ

ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے ‏
ہمارا عشق ہوس سے بلند و بالا ہے ‏
ظہیرؔ کاشمیری

بحیثیت مجموعی غزل کے جدید ترین دور میں محبوب نے یقیناً ایک نیا روپ اختیار کرلیا ہے، تاہم قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ جدید دور میں بھی ‏غزل کی ایک مضبوط اور پائیدار روایت کے زیرِ اثر محبوب کے سراپا میں کوئی ایسی جیتی جاگتی عورت نظر نہیں آتی جس کی اپنی ایک انفرادیت ‏ہو اور جو اس انفرادیت کے باعث انبوہ سے قطعاً علیحدہ نظر آ رہی ہو۔ چنانچہ جدید دور میں بھی غزل کا محبوب ایک مثالی ہستی ہے اور اس ‏میں نہ صرف اس دور کی ایک ’مثالی عورت‘ دکھائی دیتی ہے بلکہ اس میں چند ایسی صفات بھی ہیں جو شعرا کے اجتماعی ردعمل سے پیدا ‏ہوئی ہیں۔ یہ صورتِ حال غزل کا تاریک ورق نہیں ہے بلکہ اس سے غزل کے اس بنیادی رجحان کا پتہ چلتا ہے جس کے زیرِ اثر غزل گو شاعر ‏نے حقیقت کے تجزیاتی مطالعہ کے بجائے اس پر ہمیشہ ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے اور زندگی کو کرداروں یا ٹکڑوں کے بجائے مثالی نمونوں یا ‏ثابت حقیقتوں کے پیکر میں پیش کیا ہے۔

(ماخذ: تنقید اور احتساب از ڈاکٹر وزیر آغا)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں