اشتہار

اٹھارھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے خود کو یونانی جزیرے ہائیڈرا پر بحر ایزن کے کنارے پایا۔ اینگس کمرے میں بُت بنے اس جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں چند لمحے قبل ان کی بھتیجی اور اس کے دوست کھڑے تھے اور اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ ان کے چہرے کی جھریاں ایک دَم سے بڑھ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں فکر اور اندیشوں کی بے شمار لہریں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

- Advertisement -

سر کا چکرانا بند ہوا تو فیونا بولی۔ "آہا… ہم یہ کہاں آ گئے ہیں؟”

وہ ارد گرد کا جائزہ لینے لگے۔ "ارے مجھے یاد آیا، میں اسے پہچان رہی ہوں، یہ جگہ تو میں اور میری ممی نے پرسوں رات کو خواب میں دیکھی تھی۔ کتنا عجیب ہے نا!”

"یہ پانی دیکھو، کتنا نیلا ہے اور یہ آسمان بھی۔” دانیال بولا۔ اس بات پر جبران کے ساتھ ساتھ فیونا بھی حیرت کے مارے اچھل پڑی۔ "کک … کیا … ابھی تم نے کیا بولا تھا؟” فیونا تیزی سے اس کی طرف مڑنے پر مجبور ہو گئی تھی۔

دانیال جھجکنے لگا۔ "مم … میں سمجھا نہیں، میں نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ یہ پانی اور آسمان کتنے نیلے ہیں۔”

"ارے دانی، تم سمجھے نہیں، ابھی تم نے جو کہا اسے میں نے آسانی سے سمجھ لیا ہے، جبران نے ترجمہ نہیں کیا۔” فیونا نے کہا۔ "اوہ، یہ…یہ کیسے ہو سکتا ہے۔” دانیال بھی اچھل پڑا۔ "میں بھی آسانی سے تمھاری باتیں سمجھ پارہا ہوں اب۔”

"یہ تو معجزہ ہو گیا۔” جبران بے اختیار بولا۔

"یہ جادو ہے۔” فیونا ایک دم بول اٹھی۔ سب سناٹے میں آ گئے۔ "تو کیا ہم جادو والے علاقے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ تب تو ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔” فیونا کے لہجے میں تشویش تھی۔

انھوں نے ساحل پر چلتے ہوئے اپنے سامنے پھیلے منظر کو دیکھا۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں سفید گھر دھبوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ اتنا خوب صورت منظر تھا کہ وہ مسحور ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔ تاحد نظر پھیلے ہوئے سبزے پر خوش رنگ پھول کھل کر لہلہارہے تھے۔ گل نسترن، سوسن اور گرم علاقوں میں پیدا ہونے والے رنگ رنگ کے پھول وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ فیونا بڑبڑا کر بولی۔ "ایسے پھول تو میں نے اسکاٹ لینڈ میں کبھی نہیں دیکھے۔”

"تم لوگوں کو صرف پھول ہی نظر آ رہے ہیں۔” اچانک دانیال بولا "ان گدھوں کو بھی تو دیکھو۔”

وہ گدھوں کی طرف دیکھنے لگے لیکن جبران نے ایک اور طرف توجہ دلا دی۔ "یہاں کوئی کار نظر نہیں آئی، کسی سائن بورڈ پر یونانی زبان کی تحریر بھی دکھائی نہیں دی۔”

"لیکن تم یہ کیسے پہچانو گے کہ یہ یونانی زبان کی تحریر ہے؟” فیونا نے حیرت سے ناک پر انگلی رکھ دی۔ جبران مسکرا کر بتانے لگا "ہم نے اسکول میں پڑھی ہے، آخری چند ہفتوں میں ہم نے یونانی جزائر کے متعلق پڑھا تھا۔ ہم ایک جزیرے ہائیڈرا کے متعلق بھی پڑھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی جزیرۂ ہائیڈرا ہے۔ ہاں وہ دیکھو، وہ سائن بورڈ یونانی زبان میں لکھا ہوا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ کیا لکھا گیا ہے۔”

"ایک مسئلہ ہے، ہم یونانی نہیں جانتے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ہم کس طرح گفتگو کریں گے؟” فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔

"یہ ایک سیاحتی مقام ہے فیونا، یہاں لوگ ضرور انگریزی بولتے ہوں گے۔” جبران نے جواب دیا۔ تینوں ساحل کے قریب آبادی کی طرف بڑھنے لگے۔ "تم ٹھیک کہتے ہو۔” فیونا کہنے لگی۔ "یہ یونان ہے، بالکل کسی تصویری پوسٹ کارڈ کی مانند۔ اب ہمیں سب سے پہلے اپنے پاس موجود رقم یونانی کرنسی میں تبدیل کروانی ہے۔ ویسے یونانی کرنسی کو کہتے کیا ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا۔

"ڈریکما کہتے ہیں…لیکن کیا تم یہ سوچ رہی ہو کہ وہ ہمیں پیسے دے دیں گے؟ ہمارے پاس کوئی شناخت اور پاسپورٹ تک نہیں۔” جبران نے جواب دیا۔

"میں جلدی سے بہانا بنا دوں گی کہ میرا پاسپورٹ والدین کے پاس رہ گیا ہے، اور وہ تفریح کے لیے نکل گئے ہیں، اب ہمیں لنچ لینا اور پیسے نہیں ہیں۔” فیونا بولی۔ وہ خود کو ایک دم بہادر محسوس کرنے لگی۔ "یہ جگہ بہت خوب صورت ہے۔ یہاں واقعی کوئی کار، بس، موٹر سائیکل حتیٰ کہ سائیکل بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو جہاں بھی جانا ہو، انھیں پیدل ہی جانا ہوتا ہے۔”

"یا پھر گدھوں پر سواری کرتے ہوں گے۔” دانیال بولا۔ "وہ دیکھو ایک بوڑھا گدھے پر سوار ہے۔”

"میرے خیال میں گدھوں سے بدبو آتی ہوگی، میں تو ان پر سواری نہیں کرنا چاہوں گی۔” فیونا نے ناک سکیڑ کر کہا۔

"یہاں ہر طرف چرچ، خانقاہیں، اور محرابی راستے ہیں۔ ہمیں کوئی نقشہ خریدنا ہوگا تب ہی ہم راستہ ڈھونڈ سکیں گے۔ وہ رہی سیاحوں کی دکان، وہاں نقشے ضرور ملتے ہوں گے۔” جبران نے کہا۔

"ہاں، لیکن پہلے مجھے بینک جانا ہوگا۔” فیونا بولی۔ "بینک بھی سامنے ہے، تم دونوں باہر ٹھہرنا۔ میں اکیلے اندر جاؤں گی۔ انھیں روتے ہوئے ایک دکھ بھری کہانی سناؤں گی۔ اگر وہ نہیں مانے تو پھر تم دونوں نے کوشش کرنی ہوگی۔”

یہ کہ کر وہ اندر چلی گئی۔ چند ہی منٹ بعد وہ باہر نکلی تو دونوں چونک اٹھے، فیونا رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچے۔ "کک … کیا ہوا فیونا، تم کیوں رو رہی ہو؟” جبران گھبرا کر بولا۔ لیکن فیونا نے یکایک قہقہ لگایا اور پھر ہنسنے لگی۔ "ارے یہ تو جعلی آنسو ہیں، دیکھا ان کی طرح تم بھی دھوکا کھا گئے۔” اس نے یونانی کرنسی ڈریکما کے نوٹ ان کے سامنے لہرائے۔

"اوہ… فیونا، تم تو زبردست اداکارہ ہو۔” دانیال حیرت سے بولا۔ وہ واقعی اس کی صلاحیت سے متاثر ہوا تھا۔ فیونا اس کی طرف دیکھ کر جھینپ گئی اور بولی "میں نے کبھی اداکاری نہیں کی۔ دانیال نے بے اختیار کہا کہ تم خداداد صلاحیتوں کی مالک ہو اور فیونا نے شرما کر شکریہ ادا کیا۔

وہ تینوں سیاحوں کی ایک دکان کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہو گئے، وہاں ایک نقشہ لٹکا ہوا تھا۔

(جاری ہے….)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں