اشتہار

اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی (اردو ویب) پر قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

جس دیوار میں مطلوبہ اینٹ لگی ہوئی تھی وہ بہت خستہ ہو چکی تھی، اور ایسا لگتا تھا جیسے اب گری تب گری۔ فیونا اینٹ کے پاس رک گئی۔ "یہ واقعی ڈھیلی ہے اور بہ آسانی باہر نکل آئے گی۔”

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

- Advertisement -

"فیونا، داموں کو مت بھولو۔” دانیال نے اسے پھر یاد دلایا۔ اس سے خاموش نہ رہا گیا تھا۔ وہ بے چینی سے فیونا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "یہ کارنر اسٹون ہے، اس پر پوری دیوار ٹھہری ہوئی ہے۔”

"میں داموں کو بھولی نہیں ہوں۔” اس نے مڑے بغیر تیز لہجے میں جواب دیا اور اینٹ کو جھٹکے سے کھینچ لیا۔ دیوار اچانک لرز کر رہ گئی۔ اوپر سے ان کے سروں پر ماربل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور خشک کیچڑ گرنے لگا۔ انھوں نے فوراً بازوؤں سے سر چھپا لیے۔ "یہ یقیناً پھندوں میں سے ایک ہے، اگر ہم نے اینٹ نکالی تو پوری دیوار ہم پر گر جائے گی۔” فیونا چلا کر بولی۔ دانیال نے اس کا جملہ پورا کر دیا: "اور ہم سب مر جائیں گے۔”

ایسے میں جبران نے آئیڈیا پیش کیا: "کیوں نہ گدھے سے کام لیا جائے۔ ہم نکولس سے اس کے گدھے کو کرائے پر لے لیتے ہیں۔ سہ پہر کو وہ ویسے بھی آرام کرنے جائے گا۔ ہم گدھا یہاں لا کر اس سے ایک رسی باندھ لیں گے اور اس رسی کا دوسرا سرا اینٹ کے گرد لپیٹ دیں گے۔ ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں ایک اور اینٹ لے کر کھڑا ہوگا۔ جیسے ہی گدھا اینٹ کھینچ لے گا، وہ فوراً اس جگہ پر دوسری اینٹ رکھ دے گا۔ کیسا ہے یہ آئیڈیا؟” جبران فخر سے سینہ پھلائے ان کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔

"آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھا چوری نہیں، ادھار پر لینا پڑے گا۔ اور مجھے یقین نہیں ہے کہ نکولس ہمیں اپنا گدھا ادھار دینا پسند کرے گا۔ ویسے تم دوڑ کر ساحل پر جا کر گدھا لا سکتے ہو۔ میں یہاں کھڑے ہو کر سوچوں گی کہ اور کیا کر سکتی ہوں۔” فیونا نے اسے دیکھ کر کہا۔

"ٹھیک ہے، مجھے پیاس بھی لگی ہے، ہم چلے جاتے ہیں۔” دانیال بولا۔ فیونا نے ڈریکما کے چند نوٹ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: "یہ لو مقامی کرنسی، کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور ہاں رسی بھی خرید کر لانا۔”

جبران اور دانیال کے جانے کے بعد فیونا ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس نے اسی کونے والی ماربل اینٹ ہی پر نظریں جمائے رکھیں۔ اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ اس نے ایک جھٹکا کھایا اور مڑ کر دیکھنے لگی۔ اس کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ قلعۂ آذر کے ایک کمرے کی چھت کے قریب ہوا میں کسی تتلی کی طرح منڈلا رہی ہے۔ نیچے میز پر ایک اعلیٰ قسم کا فیتے والا خوب صورت میز پوش نظر آ رہا تھا۔ میز پر سنہری رنگ کا شمع دان رکھا تھا جس میں گلابی رنگ کی موم بتیاں جل رہی تھیں۔ گل دان گیندے، سوسن اور گلاب سے بھرے ہوئے تھے، جن میں گندم کی ڈنٹھل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ میز پر طرح طرح کے کھانے سجے ہوئے تھے جن کی خوش بوؤں سے کمرا مہک رہا تھا۔ ماحول بے حد پر سکون تھا۔ اچانک فیونا کو آوازیں سنائی دینے لگیں اور پھر بہت سارے لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے منقش شیشے والی کھڑکی کو غور سے دیکھا۔ اس نے کمرے میں داخل ہونے والوں میں بادشاہ کیگان کو پہچان لیا۔ بادشاہ نے ترشے ہوئے سفید پشم کے ساتھ سرخ عبا پہن رکھا تھا اور اس کے سر پر خالص سونے کا تاج دھرا تھا جو، روبی، نیلم اور زمرد سے سجا ہوا تھا۔ اس کے دائیں طرف بادشاہ کی ملکہ تھی اور چند بچے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس کے آس پاس پھر رہے تھے۔ ان سب نے شاہی لباس پہن رکھا تھا۔ آتش دان کے پاس مسخرے اور شعبدہ باز کھڑے اس شاہی خاندان کو اپنے ہنر سے خوش کر رہے تھے۔ شاہی خاندان اور ان کے دوست کھانے کی میز کے گرد اکھٹے ہو گئے۔

اچانک سارا محل خطرے کی گھنٹیوں سے گونج اٹھا۔ ملکہ نے فوراً خطرہ محسوس کر کے بچوں کو اکٹھا کیا اور کمرے سے باہر نکال کر ایک دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اسی وقت چوبی ڈھالوں اور اسٹیل کی چمکتی تلواروں سے مسلح افراد اندھا دھند کھانے کے کمرے میں گھسے چلے آئے۔ ان کے سامنے جو بھی آیا، اسے ان حملہ آوروں نے تلواروں سے کاٹ کر رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ کچھ ہوا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بادشاہ فرش پر تڑپ رہا تھا۔ اس کے اردگرد اس کے مہمان خون میں ڈوبے پڑے تھے۔ اسی لمحے فیونا کو کمرے کے باہر سے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سمجھ گئی کہ ملکہ اور بچے بھی ان ظالموں سے نہیں بچ سکے۔

یہ اتنا دل دوز منظر تھا کہ فیونا شدت غم سے سسکیاں بھرنے لگی۔ عین اسی وقت اچانک بادشاہ کیگان نے گردن موڑ کر اوپر فیونا کی آنکھوں میں دیکھا۔ یکایک تلوار چمکی اور کسی نے بادشاہ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ فیونا خوف کے مارے چھت کے ساتھ دُبک گئی۔ ایک شخص اندر داخل ہوا اور اس نے بادشاہ کیگان کی کٹی ہوئی گردن سے ہار کھینچ لیا۔ کئی اور افراد نے ملکہ اور بچوں کی لاشیں گھسیٹتے ہوئے اندر لا کر بادشاہ کے قریب ڈھیر کر دیں۔

کمرے کو نذر آتش کرنے سے قبل ایک شخص نے شاہی خاندان کی لاشوں پر تیل چھڑک دیا۔ یہ منظر کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا۔ فیونا اسے دیکھنے کی تاب نہ لا سکی اور ہوا میں تیرتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں آگ کے سرخ شعلے چھت کو چھونے لگے۔

فیونا آنکھیں کھول کر اٹھی۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ اس نے گال صاف کیے۔ وہ یہ جان کر بڑی خوش ہوئی کہ وہ محض ایک خواب تھا۔ اس نے اپنے دل میں یہ عزم کیا کہ وہ تمام قیمتی پتھر حاصل کر کے انھیں جادوئی گیند پر واپس رکھ دے گی۔ وہ بڑبڑ انے لگی: "میں اپنے جد امجد بادشاہ کیگان کا اقبال مزید بلند کرنے کے لیے جادوئی گولے کو پھر سے مکمل کر کے رہوں گی۔”

(جاری ہے….)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں