تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ویکسین پیٹنٹ پر ‏ماریہ سید کی چبھتی ہوئی تحریر

ہمیں چند امیر ممالک کی طرف سے برقرار ایک غیر منصفانہ نظام کے ذریعے ناکام بنایا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال ویکسین بنانے کے نسخے کو پیٹنٹ کے نظام کے ذریعے استعمال کرنے سے روکا جانا ہے جو بڑی دوا ساز کمپنیوں کے دانشورانہ ملکیت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

اس کے نتیجے میں الکھوں لوگوں کی اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ھے ۔ ویکسین کی عدم مساوات سے منافع خوری اتنی سنگین ہے کہ اسے انسانیت مخالف جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جدت طرازی کی معاشیات پر کمزور  دلائل کو تعینات کیا جا رہا ھے۔ کوویڈ-19 کے متعدد معاشی خرافات کو زندگی بچانے والے ٹیکوں کے لئے عالمی تجارتی تنظیم )ڈبلیو ٹی اوWTO )میں انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس)TRIPSٹرپس( کے تجارت سے متعلق پہلوؤں کی چھوٹ کو روکنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختصر مدت میں وبا سے متعلق ویکسین اور عالج کے لئے ٹرپس کی چھوٹ بہت ضروری ہے۔

دنیا بھر کے بیشتر ممالک کو آہستہ آہستہ یہ احساس ہوا ہے کہ ملٹی نیشنل فارما سٹوڈیکل کمپنیوں )بگ فارما( کی دانشورانہ ملکیت کا تحفظ صرف ان کمپنیوں کے منافع میں اضافہ کر رہا ہے اور دنیا کو زیادہ غیر مساوی اور کم محفوظ بنا رہا ہے۔ صرف یورپی کمشن، برطانیہ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور ناروے، ٹرپس کی چھوٹ کی مخالفت میں رہتے ہیں، بنیادی طور پر انسانیت کے تحفظ پر ناحق منافع کا تحفظ کرتے ہیں۔ آکسفیم)Oxfam )کے مطابق

Moderna کے ساتھ ویکسین کے منافع سے 9 نئے ارب پتی پیدا ہوئے، جبکے فائزر اور بائیو این ٹیک نے 2020 میں مجموعی طور پر 34 ارب ڈالر کا قبل از ٹیکس منافع کمانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ٹرپس چھوٹ کی مخالفت کرنے کی اپنی مہم میں بگ فارما اور ان حفاظت کرنے والے ممالک جدت طرازی اور زیادہ تر دالئل گمراہ کن ہیں اور فوری عالمی ویکسین تک رسائی کے لئے ضروری تعمیری سوچ کا فقدان ہے۔ بگ فارما اور طاقتور ترین ممالک کو وبا کی مشکالت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیئے بغیر عالمی سطح پر ویکسین کی اختراع کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے چند چیزوں کو سمجھنا ہوگا۔

مفروضہ نمبر ایک: جدت کے لیے منافع، پیٹنٹ اور کارپوریٹ مفادات ضروری ھیں

ہماری بین االقوامی ایمرجنسی کے دوران دانشورانہ املاک کو اپنی جگہ پر رکھنے کے لئے معاشی استدلال کے طور پر کچھ کہانیاں بیان کی جارہی ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ اگر نجی کمپنیاں ان سے منافع کمانے کے قابل نہیں بنائی جائیں گی تو اس عمل میں رکاوٹ آئے گی

۔ کوویڈ-19 وبا کے معاملے میں، اس کہانی میں دم نہیں ہے۔ ویکسین اور نئے ٹیکوں کی تخلیق کیٹیکنالوجی کے اختراعی عمل کی حوصلہ افزائی کرنے والی فنڈنگ کی اکثریت ٹیکس ادا کرنے والے کی جیب سے آتی ھے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ٹیکس دہندگان حکومت کو وہ فنڈز دیتے ہیں جو وہ متعدد سماجی اشیاء کی ادائیگی کے لئے استعمال کرتے ہے، بشمول ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ )آر ڈی( جو اختراع کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے کوویڈ-19 ویکسین کی ترقی اور مینوفیکچرنگ پر براہ راست عوامی اخراجات کا تخمینہ 18 ارب ڈالر سے 5.39 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔

جددت ایک نیا عمل یا مصنوعات بنانے کا عمل ہے، جسے معاشی ماہرین  Push and Pullمراعات کہہ سکتے ہیں۔  مراعات”وہ بنیادی معلومات ہیں جو theoryاور فارمولے بنانے کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ان میں ریسرچ لیبز اور یونیورسٹیوں کو آر ڈی گرانٹ شامل ہے جو ویکسین  جیسی چیزوں میں تحقیقی منصوبوں کے لئے ادائیگی کرتی ہیں۔ یہ مراعات ایجاد ہونے اور کمرشلائز ہونے سے پہلے دی جاتی ہیں۔

زیادہ تر یہ حکومت اور یونیورسٹیوں کی طرف سے آتا ہے جن کے تمام آر ڈی پر مشترکہ اخراجات کا تخمینہ 2019 میں تقرییا€205 ارب لگایا گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ویکسین کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اجارہ داری کا اختیار اب بھی بگ فارما کو پیٹنٹ کے ذریعے مراعات کے طور پر دیا گیا تھا جس کی انہیں ضرورت بھی نہیں تھی۔

آخر میں ہم نے انہیں کسی نہ کسی طرح بین االقوامی تباہی سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ہمارے وقت کے سب سے بڑے بین االقوامی گھوٹالے سے دھوکہ دیا گیا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ یہ واقعات کا ایک بدقسمت موڑ ہے کیونکہ عالمی برادری وبا کے تناظر میں ویکسین کی اختراع کو فروغ دینے کے لئے ایک مشترکہ وسائل کا پول بنانے کی صالحیت رکھتی ہے۔

مفروضہ # 2 – ترقی پذیر ممالک اپنے ویکسین تیار کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

دوسری کہانی جو ہمیں بتائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ پیٹنٹ چھوٹ سے ویکسین کی پیداوار میں عالمی کمی حل نہیں ہوگی کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں ان کی پیداوار کی صالحیت نہیں ہے۔ یہ ایک دھوکہ دہی کی دلیل ہے۔ یہ سچ ہے کہ ٹرپس معاہدہ صرف رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ کچھ اور بھی ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر پر قابو پایا جا سکتا ہے. آخر میں، اگر پیٹنٹ مسئلہ نہیں ہیں، تو کیوں نہ صرف پیٹنٹ معاف کر دیں؟ یہ بالکل سچ نہیں ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں اتنی صالحیت نہیں ہے کہ وہ عالمی طلب کو پورا کرنے کے لئے مناسب مکدار میں ویکسین تیار کر سکیں۔

صرف ہندوستان نے 2020 سے پہلے دنیا کے 60 فیصد ٹیکے تیار کیے تھے۔ پیٹنٹ کے ذریعہ محفوظ علم تک رسائی اور ضروری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ، گلوبل ساؤتھ میں دوا ساز کمپنیاں بین االقوامی طلب کو پورا کرنے کے لئے ویکسین بنانے کا طریقہ سیکھ سکتی تھیں۔ درحقیقت گلوبل ساؤتھ میں کم از کم 120 مینوفیکچررز ویکسین کی پیداوار کی صالحیت ھے جن میں جنوبی افریقہ، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، سینیگال،

ارجنٹائن اور برازیل جیسے ممالک شامل ہیں۔ کچھ نامور ماہرین معاشیات نے اندازہ لگایا کہ ٢٠٢١ کے آخر تک ہم دنیا کی آبادی کو vaccinate کر سکتے تھے۔ ہمیں جس ویکسین کی قلت کا سامنا ہے وہ مصنوعی ہے، یہ چند امیر ممالک اور عالمی صحت پر بگ فارما کے منافع کے تحفظ کے نام پر ایک آدمی تباہی ہے۔

مفروضہ #3 – عالمی ویکسین کی مانگ چیرٹی (خیرات) کے ذریعے پوری کی جا سکتی ہے۔

ٹرپس چھوٹ کے خالف دیگر دالئل صرف توجہ ہٹانے اور دھوکہ دینے کی ایک یقینی کوشش ھے۔ ان میں یہ کہانیاں بھی شامل ہیں کہ کس طرح رضاکارانہ لائسنس کے اقدامات اور ڈبلیو ایچ اوز ویکسین شیئرنگ میکانزم )کوویکس( موجودہ نظام میں بڑے پیمانے پر خال کو پر کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ایک بار پھر – یہ ایک مفروضہ ہے –

جیسا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ حقیقی دنیا میں  کم آمدنی والے ممالک میں 98 فیصد افراد کوواکس )Covax)کے ساتھ ٹیکا نہیں لگایا گیا جو عالمی سطح پر لگائے جانے والے تمام ٹیکوں میں 5 فیصد سے بھی کم پر مشتمل ہے۔ ویکسین بانٹنے کا طریقہ کار اور ویکسین تیار کرنے کا علم ظاہر ہے کام نہیں کر سکا کیونکہ ادارہ جاتی یکجہتی کے بجائے خیرات پر انحصار کیا گیا ہے۔

اس کا حل نکاال جا سکتا ھے

نوجوانوں کو موجودہ نسل کے لیڈروں کے ذریعہ ناکام کیا جا رہا ہے جو ریت پر بنائے گئے ان معاشی دلائل کو بناتے اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ انہیں ٹھوس اور طویل مدتی حل بنانے میں ناکام ہوتے دیکھنا مایوس کن ہے۔

طلباء، سول سوسائٹی )CivilSociety ،)قانونی ماہرین کی آواز جو ایک ایسے نظام کا مطالبہ کر رہی ہے جو  کہ اختراعی بھی ہو اور منصفانہ بھی۔

وبائی مرض کے بارے میں صحیح معنوں میں بین االقوامی ردعمل حاصل کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں ہمارے بین االقوامی صحت عامہ کا المیہ ہوا ہے۔ ریاستوں، خاص طور پر امیروں نے، ایک طویل مدتی بین االقوامی حل کی قیمت پر اپنی قلیل مدتی خود غرضی کا انتخاب کیا ہے جو ہر کسی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی، Covax WTO پروجیکٹ کے لیے قطار میں کودنا اور خاص طور پر پیٹنٹ کے استعمال نے ترقی پذیر دنیا کو اپنی ویکسین تیار کرنے سے روکنے کے لیے ہر چیز کو مشکل بنادیا گیا ہے۔

حل نکالنے کے لئے  ایک مشترکہ وسائل کا پول قائم کیا جا سکتا ہے جس میں ممالک اپنے قومی بجٹ کا ایک حصہ اپنی آمدنی اور آبادی کے تناسب کے مطابق دیں گے۔ اس وسائل کے پول کو پھر حکمت عملی سے تحقیق اور ترقی کی ترغیب دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسے اہم ایجادات کے لیے پیٹنٹ خریدنے یا تبدیل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے-

ریفرینسز

Kamal, Kristin, Joao, Maria and Zeno are from South Africa, Norway, Brazil, Pakistan and

Switzerland respectively.The authors are currently pursuing masters degrees in Economic

Policies for the Global transition (EPOG) in Paris.

Key References

Gosh, J. 2021. Nobody is Safe if Someone is Unsafe. Institute for New Economic Thinking. A

dialogue between Jayati Ghosh, Rohinton Medhora, Joseph E. Stiglitz, coordinated by Robert Johnson

at the 2021 Trento Economics Festival, 17 June 2021.[Accessed] 20 June 2021 [Available online]

INET. 2021. The Pandemic and the Economic Crisis: A Global Agenda for Urgent Action. Institute

for New Economic Thinking. [Accessed] 20 June 2021. [Available online]

https://www.ineteconomics.org/research/research-papers/the-pandemic-and-the-economic-crisis-a-glo

bal-agenda-for-urgent-action

Kremer, M. and Glennerster, R., 2004. Strong medicine: creating incentives for pharmaceutical

research on neglected diseases. Princeton University Press.

Scotchmer, S., 2004. Innovation and incentives. MIT press. Pg 54

Comments

- Advertisement -