تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

جنگوں سے گریز اور ہتھیاروں سے نجات حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟

قدیم دور میں‌ جب گولہ بارود اور آتشیں‌ اسلحہ سے نہیں‌ بلکہ روایتی اور سادہ ہتھیاروں سے جنگیں‌ لڑتی جاتی تھیں تب بھی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی تھیں، لیکن قدرتی ماحول اور زمین پر بسنے والی جنگلی حیات کو ان سے خطرہ نہیں‌ تھا۔ آج کا انسان جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے اور اپنے دشمن ہی کو نہیں‌ کرّۂ ارض کے ماحول کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے جس کے نتیجے میں‌ انسانی وجود کو شدید اور سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

آج ہماری زمین پر موجود سبزہ اور جنگلات، سمندر، دریا، پہاڑ، صحرا، میدان قدرت کا دیا ہوا ہر تحفہ جنگی تباہ کاریوں سے متاثر ہے۔ جدید ہتھیاروں‌ کے ساتھ لڑی گئی جنگوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بیسویں صدی سب سے خطرناک تھی، جس میں ایٹم بم کا تجربہ کیا گیا۔ اس صدی میں جنگوں کی وجہ سے انسان اور حیوان ہی نہیں قدرتی ماحول بھی بری طرح متاثر ہوا اور اس کے اثرات آج بھی دنیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

جاپان کے شہر پر ایٹم بم گرایا گیا اور کمبوڈیا، ویتنام، عراق، لبنان اور افغانستان سمیت کئی خطّے جنگوں سے متاثر ہوئے جس نے انسانی آبادیوں‌ کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ زمین اور اس کے ماحول کو سنگین خطرات سے دوچار کردیا۔ ماحول کے اس بگاڑ نے موسم کو عدم توازن کا شکار اور شدید کر دیا ہے۔

بسیویں صدی میں ڈیڑھ سو سے زائد بڑی جنگوں میں‌ 16 سے لے کر 25 کروڑ اسّی لاکھ انسانی جانیں‌ ضایع ہوئیں‌۔ جنگ مخالف اور دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں‌ کہ بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام انسانوں میں سے 6.5 پانچ فیصد کی موت کی ذمہ داری ایسی ہی جنگیں اور مسلح تصادم ہیں۔ عالمی جنگوں کے دوران فوجیوں‌ اور کروڑوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد جدید دور کی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں میں 75 فیصد عام شہری تھے۔

آج کی جنگ میں پہلا نشانہ اپنے دشمن کی فوج اور اس کی اہم تنصیبات تو ہوتی ہیں‌ لیکن ساتھ ہی ماحول بھی برباد ہوتا ہے۔ جب زمین پر ٹینک آگے بڑھتے ہیں اور گولہ بارود داغا جاتا ہے اور اسی طرح سمندر میں کارروائی کی جاتی ہے تو قدرتی ماحول براہ راست اس کی زد میں‌ ہوتا ہے۔ جنگی طیارے جب بارود برساتے ہیں تو یہ ہر قسم کا سبزہ اور قدرتی حیات کو اجاڑ دیتا ہے۔ میزائل کھیتوں اور فصلوں کو برباد کرکے خوراک کے بحران کو جنم دیتی ہے۔ جوہری دھماکوں کی وجہ سے مضبوط چٹانوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور پھر تاب کاری کی وجہ سے لاکھوں انسان معذوری اور امراض کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔

جنگ میں کسی بھی قسم کے ہتھیار استعمال کیے جائیں وہ ہمارے ماحول کو زہر آلود کرنے کا ایک بہت بڑا سبب بنتے ہیں۔ ویت نام کی جنگ کے بعد اس ملک کے جنگلات، کھیت اور باغات پر 25 ملین بم گرائے گئے جب کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا جن میں زہریلے مادّوں اور دیگر کیمیائی آزمائشوں سے زمین کی سطح، انسان ہی نہیں‌ پہاڑ اور زمین کی اندورنی تہوں کے ساتھ دریاؤں کے پانی کو بھی نقصان پہنچا اور ہر نوع کی حیات کے لیے خطرات پیدا ہوئے۔ کمبوڈیا میں 1300 مربع میل رقبہ زمینی بارودی سرنگوں کی وجہ سے ناقابلِ کاشت ہو گیا۔ انگولا میں 10 ملین زمینی بارودی سرنگوں نے بھی زرعی اراضی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جب کہ افغانستان اور بوسنیا سمیت دنیا کئی حصوں میں آج بھی بارودی سرنگیں انسانی زندگی اور ماحول کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں۔

1991 میں خلیجی جنگ کے دوران عراق پر 88 ہزار ٹن بم گرائے گئے، اور پانی کا نظام، چار بڑے ڈیمز اور کئی انرجی پلانٹ جنگی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے۔ جنگوں‌ کی وجہ سے آبی حیات اور پرندے ہلاک اور متاثر ہوئے اور زمین میں‌ کئی ایسی گیسیں پیدا ہوئیں جو آج درجۂ حرارت میں‌ اضافے زمین میں بگاڑ کا سبب ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2002 میں افغانستان میں ایک چوتھائی ملین کلسڑبم گرائے گئے جب کہ 2003 میں عراق پر 28 ہزار راکٹس، بم اور میزائل برسائے گے۔ 2006 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران بھی ایک ملین سے زائد کلسٹر بموں کی بارش کی گئی۔ گزشتہ 25 برسوں میں موزمبیق، السلواڈور، لبنان، روانڈا، لائیبریا، یوگنڈا، کولمبیا، صومالیہ، کانگو، برونڈی اور ایتھوپیا سمیت کئی ممالک میں جنگوں اور مسلح تصادم کی وجہ سے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔

انٹرنیشنل پیس بیورو، جنیوا کے مطابق دنیا بھر کی فوجیں اوزون کی تہ میں دو چوتھائی کلوروفلورو کاربن گیسوں کے اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کی جنگی تیاریاں بڑے پیمانے پر مہلک مادے پیدا کرنے کے موجب بنیں۔ دنیا کی سات بڑی عسکری قوتوں نے 2400 سے زائد جوہری دھماکے زیر زمین اور زمین کے اوپر کیے۔

اس وقت دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں۔ چرنوبل کا حادثہ آج بھی لاکھوں انسانوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ جوہری تنصیبات پر کوئی ایک حادثہ بھی کتنے بڑے پیمانے پر ماحول کو متاثر کر کے بے شمار انسانی جانوں کو خطرے سے دو چار کر سکتا ہے۔

Comments

- Advertisement -